سیاسی

جب گندم بوئی جاتی ہے تو اُس کے ساتھ کچھ خودرو جڑی بوٹیاں بھی نمو پاتی ہیں جنہیں بروقت تلف کرنا ازحد ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ بوٹیاں اصل فصل کی نشونما پر اثر انداز ہوتی ہیں۔لیکن ہمارے ساتھ عجب المیے وقوع پذیر ہوتے رہے۔ہماری گندم کے ساتھ خود رو بوٹیاں بھی نمو پاتی رہیں ہم خون اور نفوس کی کھاد ارضِ وطن کو ڈالتے رہے لیکن اُس کھاد کا رنگ جڑی بوٹیوں پر چڑھتا رہا۔جب فصل کاٹنے کاوقت آیا تو گندم رزق خاک ہو چکی تھی جبکہ جڑی بوٹیاں بھی آوارہ سنیاسی اور جوگی لے جا چکے تھے۔
نہ خدا ہی ملا نا وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
مگر گلہ بھی کرتے تو کس سے کرتے کہ ہماری اپنی مثال اُس مدہوش زمیندار کی سی ہے جو سود پر رقم اُدھار لے کر کتے پالنا تو جائز سمجھتا ہے لیکن حلال طریقے سے مزدوری کرکے دو روٹیاں کمانا معیوب سمجھتا ہے۔ہم وہ بے حس قوم ہیں جو مسجد کی چٹائیاں گھسا دیتے ہیں منت کے نوافل پڑھ پڑھ کے کہ یااللہ اوباما کو کامیاب فرما کیونکہ ہم خیر کے پہلو نکالنا چاہیں تو اوباما کو عصرحاضر کا مسلمانوں کا سب سے معتبر اور مستند بہی خواہ ثابت کردیں اور جب کوئی شر کا پہلو نکالنا چاہیں تو جس کو چاہیں غداری یا کافر کا پروانہ تھما دیں۔جب چاہیں کسی کو خلیفتہ المسلمین کا منصب عطا کردیں اور دن رات شکریہ شکریہ کی گردان الاپتے رہیں اور چاہیں تو قبل ازوقت بلاتحقیق اہم مناصب اور صاحبِ منصب کو متنازع بنادیں۔
ہاں تو دوستو مجھے دراصل شکریہ کہنا ہے۔جی ہاں !شکریہ راحیل شریف! لیکن دوستو میں متذبذب ہوں کہ شکریہ جانے کا ادا کرنا ہے یا پھر انگلی نا کھڑی کرنے کا؟۔لیکن بہر حال مجھے جنرل صاحب کا شکریہ ادا کرنا ہے اگرچہ مریض اور مرض جوں کا توں باقی ہے بس درد عارضی ختم کرنے کے ٹیکے لگے ہیں اورلہو لہو میرا وطن انتہائی نگہداشت میں پڑا ہے۔
مجھے شکریہ ادا کرنا ہے جنرل صاحب کا بے رحم موسموں میں میری ڈوبتی کشتی کا پتوار سنبھالنے کا اگرچہ موسم اب بھی نہیں بدلے اور ناہی طوفان کے تیور ہی بدلے ہیں۔
مجھے شکریہ ادا کرنا ہے جنرل صاحب کا یہ حرماں نصیب قوم آپ کو سدا یاد کرتی رہے گی کہ آپ نے خود کو ناگزیر لمحات میں ناگزیر نا سمجھا۔۔ہمارا کیاہے ہم تو یہیں ہیں ناں ہمارے پاس تو کوئی ویزہ نہیں اور ناہی اُڑان بھرنے کی سکت !ہم تو بس۔۔
ایک ہی ٹہنی پہ پھولے پھلے ہیں میں اور پاکستان
ہر موسم میں ساتھ رہے ہیں میں اور پاکستان
کالی رات ہوا طوفانی مولا پار اتار
ایک ہی کشتی میں بیٹھے ہوئے ہیں میں اور پاکستان
اُس کے سر پر باپ کی پگڑی اور میں ہوں نا فرمان
ایک ہی شخص کے دو بیٹے ہیں میں اور پاکستان
اور ابھی کچھ وقت لگے گا تھکن اتارنے میں
ہجرت کرکے آئے ہوئے ہیں میں اور پاکستان
غافل بھی نہیں رہنے دیتی خوف سمے کی رات
باری باری سو لیتے ہیں میں اور پاکستان
نوٹ۔۔ آخری اشعار میرے نہیں کسی نامعلوم شاعر کے ہیں جن کا نام یاد نہیں آرہا۔

Facebook Comments

محمد عمر عافی
آپ کے محروم قبیلے کا آپ جیسا فرد جو لفظوں کی جھیل کا ہلکا سا شناور ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply