سید علی رضا
عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن 25 نومبر کو منایا جاتا ہے اور اسی روز عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی سولہ روزہ سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوتا ہے اس کااختتام دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر ہوتا ہے۔ یہ مہم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عورتوں پر تشدد انسانی حقوق کی عام خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔ہر ملک میں عورتیں اور بچیاں مختلف طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، اسکولوں میں، لڑائیوں میں اور زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو اور جنسی تشدد ہے۔ اس کے علاوہ لڑکوں کو ترجیح دینے کی وجہ سے لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاطِ حمل، نوعمری کی شادیاں، کاروکاری اور عورتوں کو قتل کرنے کے دوسرے طریقے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔
اس تشدد کی وجہ سے عورتیں اور بچیاں عزت اور وقار کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتیں، ان کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کرپاتیں۔ تشدد عورتوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس کے سماجی اور اقتصادی اثرات دنیا کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ بنتے ہیں، ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جب کہ بنگلہ دیش بھی اپنی خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ ادھر ہندوستان میں جہیز نہ لانے والی خواتین کو جلا دیا جاتا ہے۔ تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے 2011 کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان عورتوں کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ ہر سال ایک ہزار سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں کاروکاری کا نشانہ بنتی ہیں اور نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے، دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
ہم21ویں صدی کے کشمیری نوجوان، مرد اور عورت کی مکمل برابری پر مبنی نئے سماج کی بات کرتے ہیں۔ جہاں ایسا معاشرہ سرمایہ دارانہ بربریت کی موجودگی میں قائم کرنا ناممکن ہے، وہاں ہمیں کم از کم ایک معاشرتی اخلاقیات کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور اپنی تحریک سے ان پسماندہ رجحانات کو نکال باہر کرنا چاہیے جو مرد اور عورت کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ طبقاتی سماج کے جابرانہ رویےسے جنم لینے والی غلامانہ ذہنیت کے بالآ خر خاتمے سے ایک نئے مرد اور عورت کا جنم ہوگا جو پرانی تنگ نظر غلامانہ نفسیات سے حقیقی معنوں میں آزاد ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنے کے قابل ہونگے۔ مرد اور عورت مادی اشیاء کے لیے ذلت آمیز جستجوجو انسانی زندگی کو ذلیل اور مسخ کرتی ہے، سے آزاد ہونے پر پہلی مرتبہ یہ ممکن ہو گا کہ وہ بحیثیت انسان ایک دوسرے سے جڑیں۔ بیرونی دباؤ، اناپرستانہ حساب کتاب یا ذلت آمیز انحصار سے آزاد ہو کر مرد اور عورت کے درمیان تعلقات حقیقی برابری کی بنیاد پر قائم ہونگے۔ آج جب حالات اتنے تلخ ہوچکے ہیں تو محنت کش طبقہ اتنے ہی بلند پیمانے پر حرکت میں آئے گا اور سب کچھ بدلتے ہوئے اپنے مقصد کی تکمیل کرے گا ۔
عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر سلامتی کا حق اور تشدد سے پاک زندگی گزارنے کا حق، کے احترام کے لیے مضبوط قوانین بنانا، ان پر عمل درآمد کرانا اور عورتوں کی حفاظت اور ان پر تشدد کی روک تھام کے لیے خدمات فراہم کرنا بھی قانون ساز اداروں کی ذمے داری ہے۔ نہ تو ریاست عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کچھ کر رہی ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اس غیر مہذب رویے کو ختم کرنے کے لیے کچھ کر رہا ہے۔ آئیے یہ دن مناتے ہوئے ایک روشن، تعلیم یافتہ اور تشدد سے پاک معاشرے کے قیام میں اپنا حصہ ڈالیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں