وزیر اعظم عمران خان کا یو ٹرن۔۔۔نصیر اللہ خان

قوموں کی زندگی میں ایسے دوراہے، حالات اور اوقات آتے رہتے ہیں جب ایک بہترین لیڈر کو منزل اور ہدف کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے بہترین لیڈر  کو کٹھن مراحل سے گزرنے کے لیے اپنے آپ کو ہمہ وقت درپیش حالات و واقعات کے لیے تیار رکھنا پڑتا ہے۔ لیڈر دراصل وہی ہوتا ہے جسے مستقبل کی سنگینی کا اندازہ اور ادراک ہو۔ ایسے لیڈرز منزل کے تعین کے لیے دوستوں اور قریبی لوگوں سے مسلسل صلاح و مشورہ کرتے ہیں، منشور ترتیب دیتے ہیں اور ایک نظریہ کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اغراض اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں۔ عوام کے ذہنوں کو تیار کرتے ہیں اور ان کے رویوں میں تبدیلی لاتے ہیں۔ طے شدہ فیصلوں پر عمل پیرا ہونے کا طریقۂ کار وضع کرتے ہیں۔ مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے ممالک اور معروض کے ثابت شدہ تجربوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ لیڈرز ہمیشہ سوشل سائنس، پولیٹیکل سائنس اور فلسفہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اُس کے بعد کہیں جا کر کسی فیصلہ کن موڑ پر پہنچتے ہیں۔ ایسے لیڈرز کے فیصلے دوررس نتائج پیدا کرتے ہیں اور عوام اُن کو دیر تک یاد کرتے ہیں۔

قارئین!میرا مطلب واضح ہے کہ جب کوئی لیڈر فیصلہ کرتا ہے، تو بسااوقات وہ کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک نظریہ ،پارٹی منشور،نظم اور جمہوری اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس غلط فیصلوں کی وجہ سے قوم تنزلی، خراب حالات، فاقہ کشی، افراتفری، کساد بازاری، غربت، شدید مالی بحران اور معاشی تنگ دستی کا شکار ہوجاتی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بُرا نہ ہوگا کہ ایک برے فیصلے کا اثر صدیوں تک باقی رہتاہے۔ ایسے دوراہے پر فیصلے عجلت میں نہیں بلکہ انتہائی صبر و اسقامت، فکر و تدبر اور بصیرت سے کیے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس بات میں کوئی قباحت نہیں کہ جب کسی فیصلہ کے نتائج اچھے نہ  آ رہے ہوں، تو اُس میں ترمیم کی  جانی  چاہیے، یا پھر اس سے دست بردار ہونا چاہیے۔ دوسری طرف لیڈر کے لیے اچھے فیصلوں کو ختم کرنا کسی طور پر دانشمندی نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ اس اچھے یا برے فیصلے سے قوم اور ملک کا فائدہ یا نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اچھے فیصلے ہونے پر لیڈر کو صدیوں تک یاد رکھا جا تا ہے اور برے فیصلے یا نتائج آنے پر اس لیڈر کو تادمِ آخر اور بعد از وفات بھی لوگ اچھے نام سے یاد کرنا گوارا نہیں کرتے۔
u turn
آج کل کی سیاست میں جب ’’لیڈر‘‘ اپنے ارادوں اور فیصلوں میں وقتاً فوقتاً تبدیلی کرتے ہیں، تو اس عمل کو اپنی خفت مٹانے کے لیے ایک اصطلاح ’’یوٹرن‘‘ رائج کر دی گئی ہے۔ اسی نئی اصطلاح کے حوالے سے و زیر اعظم عمران خان کا حالیہ بیان سوشل میڈیا میں اس مصرعہ کی مانند شہرت حاصل کر گیا ہے کہ
بدنام اگر ہوں گے، تو کیا نام نہ ہوگا۔۔۔
وزیرِ اعظم اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں جس کے بعد ایک اور بیاں کچھ یوں داغ دیا ہے کہ ’’یوٹرن لینے والا اگر کامیاب لیڈر نہیں ہوتا، تو یوٹرن نہ لینے والا بے وقوف ہوتا ہے۔ ہمیں ہٹلر اور نپولین سے سبق سیکھنا چاہیے۔‘ ‘
nepolean hitler
میرے خیال میں اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کے جب معروضی حقائق تبدیل ہو جائیں، تو لیڈر بہتر قومی مفاد میں اپنا فیصلہ بدل سکتا ہے۔ دوسرا بیان ان کا کچھ اس طرح ہے کہ ’’جیسے جھوٹ کا سہارا لے کر چوری کا مال بچانے کی کوشش کرنا بے ایمانوں کا شیوہ ہے، اسی طرح اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ’’یوٹرن‘‘ کی آپشن استعمال کرنا عظیم قیادت کا طرۂ امتیاز ہے۔‘‘
وزیر اعظم کے مؤخرالذکر بیان پر بات کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، وزیر اعظم صاحب کہنا چاہ رہے ہیں کہ جیسے جب کسی چوری کا مال چھپانے کے لیے جھوٹ بولا جانا بے ایمانی ہے، تو دوسری طرف نیک مقاصد کے حصول کے لیے ’’یوٹرن‘‘ لینا عظیم قیادت کی نشانی ہے۔
idiocracy
وزیراعظم صاحب بادی النظر میں کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں اچھا لیڈر ہوں،کیوں کہ جب مجھے کسی فیصلے کے اچھے یا برے ہونے کا یقین اور نتائج کا پتا چلتا ہے، تو میں ’’یوٹرن‘‘ لے لیتا ہوں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عظیم لیڈر کو تاریخی حقائق اور معتبر فیصلے عظیم بناتے ہیں، نہ کہ ’’اپنے منہ  میاں مٹھو‘‘ والی کہاوت کے مصداق اپنے گن خود گائے جائیں۔ ہاں، میری رائے ہوگی کہ ملکی ترقی کے لیے عمران خان صاحب کو حزبِ اختلاف کے ساتھ ملکی معیشت اور قومی و ملکی مفاد کے لیے میثاق معیشت پر ایک بڑا ’’یوٹرن‘‘ لینا چاہیے۔ خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا ۔ بات کو اگلی نشست میں آگے بڑھائیں گے۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply