اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ہمیشہ اپنے رحم و کرم سے نوازا۔ اپنی رحمت کا وسیع ہاتھ کبھی نہیں کھینچا۔ بھولے بھٹکے لوگوں کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے ایک لاکھ سے زائد انبیاء و رسل مبعوث فرمائے تاکہ وہ اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کا سبق سکھا سکیں لیکن انسان نے ہمیشہ ان انبیاء کو جھٹلایا اور اکثر و بیشتر کو قتل کردیا۔ اللہ جل جلالہ کو انسان کے رویے پر شدید غصہ آیا اور یہ دنیا مذہبی، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے تاریکیوں میں گم ہوگئی اور مہلک پستیوں میں گرتی چلی گئی۔ ظالم و جابر حکمران مسلط ہو گئے۔ کہیں بھی ایک اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے والا نہ تھا۔ پھر اللہ کو انسانیت کے اس حال پر رحم آیا ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جس کا قرآن میں تذکرہ فرمایا کہ “ومآ ارسلنک الا رحمۃ للعالمین” اے نبی ہم نے آپکو تمام جہانوں کے کیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ایسا نبی مبعوث فرمایا جس کے شہر کی قسمیں بھی اللہ قرآن میں خود کھا رہا ہے۔ پوچھا اللہ کریم آپ نے دو دفعہ مکہ شہر کی قسم کھائی ماجرا کیا ہے؟ اللہ فرماتا ہے “وانت حل بھذا البلد” سوہنے حبیب آپ جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ سبحان اللہ!
اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کی عالم گیر انسانیت کو ایک اللہ کی عبادت کا درس دینے کے لیے بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرض ایسی یگانہ بصیرت کے ساتھ انجام دیا کہ تاریخ کا رخ بدل ڈالا اور انتہائی ناموافق حالات میں اصحاب صدق و صفا کی عملی تربیت کر کے ایسی محکم جماعت پیدا کردی جس نے ہر جگہ اللہ رب العزت کی اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا پیغام پہنچایا ۔ حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کونسی تعلیمات تھیں جنہوں نے صحرائے عرب میں اونٹ چرانے والوں کو معظمات سے آراستہ کر کے ایسا مبلغ اور بہادر مجاہد بنادیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے قیصر و کسریٰ جیسی بڑی طاقتوں کو ساقط کرکے خود غلبہ پا لیا۔ نبی کریم ﷺ کی یہ تعلیمات نہایت سادہ ہیں جن میں انکو توحید کا درس دیا اور بظاہر ننھی ننھی نصیحتیں فرمائیں کہ انکے اثرات دیکھ کر انسان کی عقل سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسی نصیحتیں کرنے والے لیڈر کو کیا کہا جائے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات حمیدہ میں سے ایک عظیم صفت رحمت للعالمین ﷺ کی ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں ارشاد فرمایا:- “لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ” تمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ اور یہ آیت اس بات کی متقاضی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر ہر پہلو موجود ہو جس سے انسان اپنے اٹھنے بیٹھنے حتیٰ کہ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم کو اپنا قائد بنا سکے ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی اداؤں کو اس طرح سے اپنے ذہنوں میں نقش کیا کہ تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سواری پر سوار ہونے کے لیے اپنا پاؤں رکاب میں ڈال لیا تو سفر کی دعا پڑھی، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہنسے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا:- اے امیر المؤمنین ! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ نے ایسے ہی کیا تھا جیسے میں نے کیا ہے اور آپ ہنسے بھی تھے۔ اللہ اللہ اتنے شان والے نبی کہ جن کے ہنسنے کے طریقے کو بھی سیرت اور احادیث کی صورت میں محفوظ کیا گیا۔
میرا زیر بحث موضوع رحمت للعالمین ﷺ بھی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کہ نبی کریم صرف مسلمانوں یا کسی بستی یا شہر کے لیے رحمت نہیں بن کر آئے بلکہ آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔ بعض علماء کرام نے چودہ ہزار اور بعض نے ان جہانوں کی اٹھارہ ہزار تعداد بتائی ہے لیکن قرآن میں اللہ فرماتا ہے۔ “وما یعلمھم جنود ربک الا ھو” اور تیرے رب کے لشکروں کی تعداد اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ رسول محترم حضرت محمد مصطفیٰﷺ تمام جہانوں کے لیے سراپا شفقت ہیں اس لیے وہ رحمۃ للعالمین ہیں۔
ایک دفعہ رسول معظم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں اہل ایمان نے درخواست کی کہ مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی ہے لہذا ان کے لیے بددعا فرمائیے لیکن سوہنے نبی ﷺ فرماتے ہیں:- ” انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ” میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو رحمت بنا کر مبعوث فرمایا گیا ہوں۔
قارئین کرام! یہاں پر ہی بس نہیں۔ میرے نبی طائف کی طرف اللہ کی توحید کی دعوت دینے جاتے ہیں۔ طائف کے لوگ آپ پر پتھر برسا برسا کر آپکو لہو لہان کر دیتے ہیں۔ یہ وہ منظر ہے جس کو تکلیف اور مظالم کے لحاظ سے نبی پاک نے غزوہِ احد سے بھی زیادہ اذیت ناک قرار دیا۔ جبریلِ امین ایک فرشتے کے ساتھ آپکی خدمتِ مبارکہ میں حاضر ہوتے ہیں اور سلام پیش کرنے کے بعد عرض کرتے ہیں کہ اللہ نے میرے ساتھ ایک فرشتہ بھیجا ہے جس کے ذمے پہاڑ ہیں۔ وہ سلام پیش کرتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں جس سے یہ سب درمیان میں کچل دئیے جائیں، یا آپ کوئی اور سزا تجویز فرمائیں۔ رحمت عالم انکے لیے بھی دعا فرماتے ہیں۔
اس واقعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کافروں کے لیے بھی رحمت ہی رحمت ہے۔ ہم یہ بات ببانگِ دہل کہہ سکتے ہیں جس طرح مؤمنین و مخلصین پر آپ کی رحمت سایہ فگن رہی اسی طرح مخالفین نے بھی آپکی رحمت کے سائے تلے پناہ حاصل کی۔ اسکی بڑی مثال جب فتح مکہ کے موقع پر مکے کے محاصرے کو دیکھ کر چیخ اٹھا “ہائے قریش کا سرسبز باغ بالکل اجاڑ دیا جائے گا، آہ، قریش کا خاتمہ ہے۔” تو رحمت عالم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اسے کچھ نہیں کہنا، جو گھر کا دروازہ بند کر لے اسے کچھ نہیں کہنا، جو بیت اللہ میں پناہ لے اس کے لیے بھی امان ہے۔ امام الانبیاء، سیدا الاتقیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے کعبہ مشرفہ میں دو رکعت نماز ادا کرکے بیت اللہ کے عالیشان دروازے کے پاس جو قریشِ مکہ سے جو خطاب کیا اس کے کلمات آپ ﷺ کی “رحمۃ للعالمینی” کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
رسول کریم ﷺ قریش مکہ سے سوال کرتے ہیں کہ آج میں تم سب سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ سب کہتے ہیں بیشک آپ کریم ہیں اور کریم کی اولاد ہیں لہذا ہم آپ سے خیر و بھلائی کی ہی امید کرتے ہیں۔ سید الکونین ﷺ فرماتے ہیں آج میں وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا “لا تثریب علیکم الیوم” آج کے دن تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ تم سب آزاد ہو۔ آپ ﷺ کی رحمت و شفقت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل مکہ جوق در جوق آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ میرے نبی اتنے رحیم و کریم ہیں کہ سب کو معاف کرتے چلے جاتے ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر رحمۃ للعالمین ﷺ نے دشمنوں، مخالفوں کو معاف فرما کے اور مشرکوں کے لیے امان کا اعلان کرکے عفو و درگزر کی انتہاء کردی۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ کہ رب العالمین نے اپنی لوح محفوظ میں خود ارشاد فرمایا ہے کہ سوہنے نبی ﷺ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے لگوں تو دنیاء کل میں لکھنے کا تمام سامان ختم ہوجائے لیکن اس شفیق نبی کی سیرت بیان نہ ہو پائے۔
تمنا دل میں رکھتی ہوں کہ سیرت مصطفٰی ﷺ لکھوں
ہے چھوٹا منہ بڑی ھے بات میں لکھوں تو کیا لکھوں۔
ہمیں اتنے اعلیٰ ظرف والے نبی کے امتی ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو کہ تمام انبیاء علیہ السلام کے سردار ہیں۔ اگر قریشِ مکہ کے پاس ہزار انبیاء کرام بھی آجاتے تو تب بھی اتنی تعداد میں لوگ اسلام نہ لاتے بلکہ شاید مشرکینِ مکہ انکو قتل کردیتے لیکن سرورِ کونینﷺ تمام انبیائے عظام کے اوصاف کا مجموعہ اور خاتم النبین ہیں۔ آج ہم نے اس رحمت عالم کی تعلیمات کو بھلا دیا جس نے ہماری خاطر اتنی سختیاں برداشت کیں لیکن بددعا نہ دی۔
محسنِ انسانیت ﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے درجنوں ایسے واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں پیغمبر کریم ﷺ کی جانوروں ، حیوانوں اور انسانوں پر رحمت و شفقت کے تذکرے ہیں۔ ہم اگر اپنی ریاست کو مدینۂ ثانی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ سیرت کا ذوق و شوق سے مطالعہ کریں اور جس طرح اصحابِ رسول اور سیرت نگاروں نے ہم تک آپ ﷺ کی بات پہنچائی ہے ہم بھی من و عن اسی طرح عوام الناس تک پہنچائیں تاکہ لوگ آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے تمام پہلوؤں سے کما حقہ، رہنمائی حاصل کر سکیں اور دل و جاں سے حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہبر و قائد تسلیم کرسکیں۔ اللہ ربّ العالمین ہمیں رحمۃ للعالمین ﷺ کی اطاعت کرنے والا اور آپ ﷺ سے حقیقی محبت کرنے والا بنا دے۔ آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں