• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بابی مبلغہ قرۃ العین طاہرہ کا علامہ اقبال پر طلسماتی اثر۔۔۔۔۔۔ ارمغان احمد داؤد

بابی مبلغہ قرۃ العین طاہرہ کا علامہ اقبال پر طلسماتی اثر۔۔۔۔۔۔ ارمغان احمد داؤد

قرۃ العین طاہرہ کا اصل نام زرین تاج تھا۔ ان کی پیدائش ایران کے شہر قزوین میں ایک مذہبی شیعہ گھرانے میں ہوئی۔ والدحاجی ملا صالح تھے۔ فارسی کی قادر الکلام شاعرہ تھیں، خطابت میں ید طولیٰ رکھتی تھیں اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ حسن و جمال میں اپنی شاعری و خطابت سے بھی یکتہ تھیں۔ سید علی محمد شیرازی کے دعوی باب المہدویت پر ایمان لانے والے اولین لوگوں میں سے قرۃ العین طاہرہ بھی تھیں۔ ایک شعلہ نوا مقرر ہونے کے ناطے بابیت کی تبلیغ میں اپنے ہم عصروں سے ممتاز رہیں۔ چھتیس سال کی عمر میں، 1850 میں ایران کے بادشاہ نے دین میں فتنہ پھیلانے کے الزام میں ان کو قتل کروا دیا۔

1848 میں بدشت کانفرنس میں اپنا نقاب الٹ کر باب کی حمایت میں تقریر کی اور شریعت محمدیہ کے احکام کو منسوخ قرار دیا۔ باب کی شان میں ایک قصیدے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا بھی ارتکاب کیا۔ اس قصیدے کا ایک شعر تھا (نقل کفر کفر نہ باشد):

دو ہزار احمد مجتبیٰ زبروق آں شہہ اصطفاء
شدہ مختفی شدہ در خفا متدثراً متزملاً

یعنی کہ شہہ اصطفاء باب کی چمک دمک سے دو ہزار احمد مجتبیٰ بالا پوش اوڑھے جھرمٹ مارے ہوئے پوشیدہ ہو گئے۔ (ائمہ تلبیس از مولانا ابو القاسم محمد رفیق دلاوری صاحب، صفحہ 572، طبع اول، مئی 2010، ناشر عالمی مجلس ختم نبوت ملتان)

اب ہم اپنے قارئین کو بتائیں گے کہ اسلام کے فرقہ شیعہ سے تائب ہو کر بابی مذہب اختیار کرنے والی (’مرتدہ‘) قرۃ العین طاہرہ کے بارے میں شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر سر محمد اقبال کیا کہتے ہیں۔ جاوید نامہ کے باب فلک مشتری میں منصور حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ کے بارے میں عنوان باندھتے ہیں کہ ’ارواح جلیلہ حلاج و غالب و قرۃ العین طاہرہ کہ بہ نشیمن بہشتی نگر وید ند وبگردش جاوداں گرائیدند‘ کہ حلاج اور غالب اور ر قرۃ العین طاہرہ کی عظیم روحیں جو بہشتی نشیمن کی طرف مائل نہ ہوئیں اور مسلسل و جاوداں گردش کی طرف راغب ہیں۔ آگے لکھتے ہیں:

پیش از خود دیدم سہ روح پاکباز
آتش اندر سینہ شاں گیتی گداز

کہ میں نے اپنے سامنے تین پاکباز روحوں کو دیکھا جن کے سینے میں دنیا کو جلا دینے والی آتش عشق تھی۔

دربر شاں حلہ ہائے لالہ گوں
چہرہ با رخشندہ از سوز دروں

کہ ان کے پہلوؤں میں لال رنگ کی سرخ چادریں تھیں ، ان کے چہرے باطنی سوز کی وجہ سے چمک رہے تھے

در تب تابے زہنگام الست
از شراب نغمہ ہائے خویش مست

کہ یہ ارواح روز الست سے ہی تب و تاب میں تھیں اور اپنے ہی نغمات کی شراب میں مست تھیں

گفت رومی این قدرانہ از خود مرو
از دم آتش نوایاں زندہ شو

کہ رومی نے مجھ سے کہا کہ اتنا مت کھو جاؤ، آتش نواؤں کے نفس سے زندہ ہو جاؤ

شوق بے پروا ندیدستی نگر
زور ایں صہبا ندیدستی نگر

کہ اگر بے نیاز عشق نہیں دیکھا تو یہ دیکھو، شراب عشق کی طاقت نہیں دیکھی تو یہ دیکھو

غالب و حلاج و خاتون عجم
شورہا افگندہ درجان حرم

کہ غالب، منصور اور خاتون عجم نے حرم کی جان میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے

ایں نواہا روح را بخشد ثبات
گرمی او ازدروں کائنات

کہ یہ نغمات روح کو ثبات عطا کرتے ہیں ، ان کی گرمی کائنات کے اندر سے ہے۔

آگے ’نوائے طاہرہ‘ کے عنوان سے قرۃ العین طاہرہ کے اپنے لکھے ہوئے فارسی اشعار اپنی کتاب کی زینت بناتے ہیں:

گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ روبہ رو
شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ موبہ مو

کہ اگر مجھے تیرے رو برو ہونے اور آمنے سامنے آنے کا موقع ملے تو میں تیرا غم نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو بیان کروں

از پئے دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بہ خانہ در بہ در کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو

کہ میں تیرے چہرے کے دیدار کے لیے باد صبا کی مانند گھر گھر ، در در ، کوچہ کوچہ اور گلی گلی پھرتی ہوں

می رود از فراق تو خون دل از دودیدہ ام
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جو بہ جو

کہ تیرے ہجر و فراق میں میری آنکھیں دجلہ دجلہ، دریا دریا، چشمہ چشمہ، اور نہر نہر خون دل بہا رہی ہیں

مہر ترا دل حزیں بافتہ بر قماش جاں
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو

کہ میرے غمزدہ دل نے تیری محبت کو جان کے قماش پر دھاگہ دھاگہ، نخ نخ ، تار تار اور تانا تانا بن لیا ہے ۔

در دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو

طاہرہ نے اپنی کتاب دل کا ایک ایک صفحہ ، ایک ایک تہہ، اور ایک ایک پردہ دیکھ لیا ہے لیکن وہاں تیرے عشق کے سوا کچھ نہیں پایا۔

(یہ اشعار کتاب Tahirah – The Pure by Martha Root کے اردو ترجمے سے لیے گئے ہیں جو کہ طاہرہ قرۃ العین کے نام سے عباس علی بٹ صاحب نے کیا تھااور بہائی پبلشنگ ٹرسٹ پاکستان نے شائع کی تھی، یہ اشعار کتاب کے صفحہ 127 پر ہیں۔ طاہرہ کے ان فارسی اشعار کو تابش دہلوی، احمد فرازاور جون ایلیا وغیرہم نے منظوم صورت میں اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے )

اس سے اگلا شعر اقبال کا اپنا ہے، لکھتے ہیں:

سوز و ساز عاشقان درد مند
شور ہائے تازہ در جانم فگند

کہ ان اہل درد عاشقوں کے پر سوز جذبوں نے میری جان میں نئے ہنگامے برپا کر دئے ہیں۔

اس سے کچھ صفحات آگے طاہرہ کے عنوان سے اقبال طاہرہ کی روح کی طرف سے پھر کچھ اشعارلکھتے ہیں (جن سے ہم صرف نظر کر رہے ہیں)۔ قرۃ العین طاہرہ کی شاعری کی تھوڑی اور چھاپ اقبال کے کچھ اور اشعار میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ سب باتیں بتانے کا مقصد ایک تو علم میں اضافہ ہے اور دوسرا مقصداکبر الہ آبادی کے ایک شعر سے واضح ہوتا ہے کہ:

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

Facebook Comments

ارمغان احمد
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگُزر میں گُزراں نہ ہُوا کہ مَر مِٹیں ہم، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply