بگ بینگ تھیوری کے مشاہداتی ثبوت۔۔۔۔۔عرشیہ بٹ

سائنس مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے کا نام ہے۔ کوئی  بھی سائنسی مفروضہ سائنسی نظریے کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتا جب تک اسے کسی طور مشاہدات میسر نہ  ہوں۔ جب بگ بینگ کے نظریے کی بات آتی ہے تو کئی  لوگ اس شش و پنچ میں پڑتے دکھائی  دیتے ہیں کہ چونکہ یہ واقعہ بہت عرصہ پہلے پیش آیا تو ضرور سائنس کے پاس اس کے مشاہداتی ثبوت میسر نہیں ہوں گے۔ سائنس محض چند فارمولوں اور مفروضوں کی بابت بات کر رہی ہے جن کو دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس لئے یہ مشاہدات سے ماورا کوئی  مفروضہ ہے۔
لیکن یہ بات سچ نہیں۔ بقیہ تمام سائنسی نظریات کی طرح بگ بینگ کا نظریہ بھی مشاہداتی ثبوت لیے ہوۓ ہے۔ اس پوسٹ میں ہم (ریاضی کا کم سے کم استعمال کرتے ہوۓ) ان مشاہدات کی بابت بات کریں گے۔

۱۔ کہکشاؤں کا دور جانا اور ہبل کا قانون
اگر ہم ٹیلی سکوپ کی مدد سے دور دراز کہکشاؤں کو دیکھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ سب ہماری کہکشاں سے دور جا رہی ہیں۔ کہکشاؤں کا دور جانا ہبل کے قانون کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
v=H *D
یہاں v کہکشاؤں کی دور جانے کی رفتار، H ہبل کانسٹنٹ اور D اس کہکشاں سے فاصلہ ہے۔
اس دور جانے کے عمل کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ چونکہ کائنات ہر طرف سے پھیل رہی ہے اور ہم سے دور کہکشائیں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہیں تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وقت میں ان کو پیچھے کی طرف بڑھانے سے یہ سب ایک نقطے  پر ملیں گی۔
اس سے آئن سٹائن کے نظریہ اضافت میں پھیلتی ہوئی  کائنات کے نظریے کو بھی تقویت ملتی ہے۔

۲۔ روشنیوں کا پس منظر (کازمک مائکروویو بیگراؤنڈ ریڈی ایشن)
ہم کائنات میں جس طرف بھی دیکھتے ہیں ہمیں ایک ہلکی سی روشنی کا بیگراؤنڈ نظر آتا ہے جسے کازمک مائکروویو بیگراؤنڈ ریڈی ایشن کہتے ہیں۔ یہ بگ بینگ کے بعد بچ جانے والی روشنیوں کا ہالہ ہے جسے ہر طرف دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ہلکی سی روشنی کا پس منظر کسی سیارے یا ستارے سے خاص نہیں بلکہ ہر طرف یکساں ہے۔ یہ روشنی کا بیگراؤنڈ بگ بینگ کے نظریے کی تائید کرتا ہے۔ یہ اس ابتدائی  کائنات کی تصویر پیش کرتا ہے جب کائنات اتنی ٹھنڈی ہو چکی تھی کہ الیکٹرونز اور پروٹونز مل کر ہائیڈروجن ایٹمز بنا سکیں۔

۳۔ مختلف عناصر کی ترتیب
بگ بینگ نظریے کے مطابق جب کائنات بنی تو سب اٹامک پارٹیکلز سے ہلکے عناصر بنے۔ ان کے ملنے سے بھاری عناصر بننے کی ابتدا ہوئی ۔ جب ہم کائنات میں دیکھتے ہیں تو ہمیں ہائڈروجن اور ہیلیم (سب سے ہلکے دو عناصر) کائنات کا اٹھانوے فیصد مادہ بناتے نظر آتے ہیں۔ ہائیڈروجن چوہتر فیصد اور ہیلیم چوبیس فیصد۔ باقی ماندہ عناصر کائنات کے مادے کا صرف دو فیصد ہیں۔ اس کی تشریح بگ بینگ کے مطابق ہے کہ یہ دو عناصر بگ بینگ کے وقت بنے۔ بقیہ عناصر ستاروں کی اندر فیوژن کے نتیجے میں وجود میں آۓ جو کہ بہت ہی کم ہیں۔ ہمارا یہ مشاہدہ بھی بگ بینگ تھیوری کے عین مطابق ہے۔

۴۔ کہکشاؤں کی بناوٹ
روشنی کی رفتار چونکہ محدود ہے اس لئیے روشنی ہم تک پہنچتے کچھ وقت لیتی ہے۔ ہم جب دور دراز کہکشاؤں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو دراصل ان کی وہ تصویر ہمارے سامنے ہوتی ہے جو جتنا وقت روشنی کو ہم تک پہنچنے میں لگا اتنے وقت ماضی میں تھی۔ ہم ان کی ماضی کی تصویر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئیے ہم جتنی دور دیکھیں گے اتنا ہی ان کہکشاؤں کی ماضی کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔
تو اگر سوال ہے کہ اتنے پرانے ماضی کی تصویر کیا کسی نے دیکھی ہے تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ان ہم جب دور دراز کی کہکشاؤں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ماضی کی کہکشائیں ابتدائی  حالت میں تھیں۔ ابھی وہ بننا شروع ہوئی  ہیں۔ اس سے   ذرا آگے کو دیکھیں تو کچھ زیادہ ترقی کر گئی  ہیں۔ اس سے آگے آئیں تو ان میں ستارے اور زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور ان کی ترکیب اور ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ماضی سے ان تک کہکشائیں ارتقا کا سفر کر رہی ہیں اور ان کی بناوٹ میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی ہو رہی ہے جو کہ بگ بینگ نظریے کے عین مطابق ہے۔

۵۔ ہائڈروجن گیسوں کے بادل
کائنات میں بعض جگہ ہائڈروجن گیسوں کے بڑے بڑے بادل دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان بادلوں میں سواۓ ہائیڈروجن اور ڈیوٹرئیم (ہائڈروجن کا آئسوٹوپ) کے علاوہ کوئ اور دوسرا عنصر موجود نہیں۔ یہ بادل بگ بینگ میں بنے تھے اور ابھی تک ان میں کوئی  دوسرا عنصر نہیں بن پایا۔ یہ عین بگ بینگ کی ابتدائی تصویر پیش کرتے ہیں۔

۶۔ کائنات کی عمر
ہبل کے قانون اور کائنات کے پھیلنے سے کائنات کی عمر کی جو پیمائش کی گئی تھی وہ ستاروں کی ریڈیو میٹرک ڈیٹنگ سے نکالی گئی عمر کی پیمائش کے برابر نکلتی ہے۔

یہ بگ بینگ تھیوری کے حق میں کچھ مشاہدات تھے جو اس نظریے کو تقویت دیتے ہیں اور ان تمام مشاہدات کا نتیجہ بگ بینگ کا نظریہ ہی نکلتا ہے۔ غرض یہ کہ نظریہ انفجار عظیم اس وقت کائنات کا سب سے قابل اعتماد سائنسی نظریہ تصور کیا جاتا ہے جو تمام مشاہدات کے عین مطابق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ https://web.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply