• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انہیں نہیں معلوم کہ انہیں نہیں معلوم۔۔۔ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

انہیں نہیں معلوم کہ انہیں نہیں معلوم۔۔۔ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

“He who knows not, and knows not that he knows not, is a fool; shun him.

He who knows not, and knows that he knows not, is a student; Teach him.

He who knows, and knows not that he knows, is asleep; Wake him.

He who knows, and knows that he knows, is Wise; Follow him.”

“جو لاعلم ہے، اور نہیں جانتا کہ وہ لاعلم ہے، وہ بیوقوف ہے، اس سے الگ رہیے”
“جو لاعلم ہے، اور جانتا ہے کہ وہ لاعلم ہے، وہ طالبِ علم ہے، اسے تعلیم دیجیے”
“جو صاحبِ علم ہے، اور نہیں جانتا کہ وہ صاحبِ علم ہے، وہ سو رہا ہے، اسے جگا دیجیے”
“جو صاحبِ علم ہے، اور جانتا ہے کہ وہ صاحبِ علم ہے، وہ داناء ہے، اس کی پیروی کیجیے”

کبھی آپ کے ساتھ ایسا اتفاق ہوا کہ آپ اپنے پیشے سے متعلق (جس میں آپ ماہر ہیں) کوئی بات کریں اور کوئی ایسا شخص جسے اس پیشے کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے آپ کو غلط قرار دے اور یہ دعویٰ کرے کہ وہ اس پیشے کے بارے میں جو کہہ رہا ہے وہ درست ہے؟ ایسا ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے کہ سب سے کم علم رکھنے والے لوگ سب سے زیادہ اعتماد سے اپنی رائے دیتے ہیں- سائنس کی دنیا فورم پر بھی آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جو لوگ سائنس کے نظریات کی سب سے زیادہ شدت سے مخالفت کرتے ہیں ان کا نہ صرف سائنس کا علم انتہائی سطحی ہوتا ہے (یعنی انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس نظریے کی مخالفت کر رہے ہیں اس نظریے کا دعویٰ کیا ہے) بلکہ انہیں یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ سائنس کے نظریات کے مقابلے میں وہ جس غیر سائنسی بیان کو درست قرار دے رہے ہیں وہ بیان کیا دعویٰ کر رہا ہے- انہوں نے محض یہ سن رکھا ہوتا ہے کہ سائنس غلط ہے اور وہ اس سنی سنائی بات کو حقیقت قرار دے رہے ہوتے ہیں

ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ صرف ہمارے ہی معاشرے میں ہے- اپنی کم علمی سے بے خبر ہونا انسان کی فطرت میں شامل ہے- شیکسپیئر نے آج سے چار سو سال پہلے کہا تھا ‘بیوقوف آدمی اپنے آپ کو دانا سمجھتا ہے جبکہ دانا اپنے آپ کو بیوقوف جانتا ہے’- اس مظہر کو cognitive bias of illusionary superiority کہا جاتا ہے-

1999 میں ماہر نفسیات ڈیوڈ ڈننگ (David Dunning) اور ان کے اسسٹنٹ جسٹن کروگر (Justin Kruger) نے انسانی نفسیات کے اس پہلو کو جانچنے کے لیے ایک تجربہ کیا- اس تجربے کے نتائج اس قدر مقبول ہوئے کہ اب یہ مظہر ڈننگ کروگر ایفیکٹ کے نام سے ہی پہچانا جاتا ہے- انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے بہت سے طلباء کی مختلف موضوعات کے بارے میں معلومات کو ٹیسٹوں کے ذریعے پرکھا اور ان کی مہارت کے مطابق انہیں سکور دیے- ان موضوعات میں درست گرامر کے ساتھ تحریر کرنا اور منطقی دلائل دینا کے علاوہ مزاح کی حس بھی شامل تھیں- ان طلباء کو ان کے سکور نہیں بتلائے گئے لیکن ان سے یہ کہا گیا کہ وہ اپنی مہارت کا خود سے اندازہ لگائیں یعنی یہ اندازہ لگائیں کے ان کے ٹیسٹ سکورز کیا ہوں گے – اس کے بعد اس اندازے کا ان کے ٹیسٹ کے حقیقی سکورز سے موازنہ کیا گیا- اس موازنے سے ایک دلچسپ حقیقت سامنے آئی کہ جن طلباء کے ٹیسٹ سکور انتہائی کم تھے، ان کا اپنے بارے میں یہ اندازہ تھا کہ ان کے ٹیسٹ سکور بہت زیادہ ہوں گے- اس کے برعکس جن طلباء کے ٹیسٹ سکورز بہت اچھے تھے ان کا اندازہ تھا کہ ان کے سکورز اچھے نہیں ہوں گے- گویا جن لوگوں کے پاس بہت ہی کم مہارت تھی انہیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کی مہارت بہت کم ہے- انہیں یہ اعتماد تھا کہ وہ ان موضوعات کے ماہر ہیں-

اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صرف خود اعتمادی ہی مہارت کی ضامن نہیں ہے- بدقسمتی سے دنیا میں خود اعتمادی کو بہت بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے- کسی بھی نوکری کے لیے انٹرویو پر جائیں تو سب سے پہلے امیدوار کی خود اعتمادی کو ہی نوٹ کیا جاتا ہے- اسی طرح لوگ ان مشہور celebrities کی بات زیادہ توجہ سے سنتے ہیں جو ٹی وی کیمرہ کے سامنے خود اعتمادی سے ساتھ مختلف مسائل پر بیانات دیتے ہیں اور بعض اوقات سوڈو سائنس کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں اگرچہ وہ ان مسائل کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے- اس کے برعکس سائنس دان جو اس فیلڈ کے ماہر ہوتے ہیں اپنے بیانوں میں جگہ جگہ ‘لیکن’، ‘اگر ہمارا خیال درست ہے تو’ کی طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں بالکل درست اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے غلط ہونے کا امکان اگرچہ کم ہے لیکن صفر نہیں ہے- اس کے علاوہ سائنسی طریقہِ کار کی بنیاد ہی تشکیک پر ہے اس لیے سائنس دان عموماً اپنے نتائج کے بارے میں بھی اس شک میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کے نتائج غلط نہ ہوں-

کسی بھی فیلڈ میں جن لوگوں کا علم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ان کے لیے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ان کا علم انتہائی محدود ہے- کیونکہ کسی بھی علم کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ اسے سٹڈی کر کے ہی لگایا جا سکتا ہے- جو لوگ کسی فیلڈ میں مہارت رکھتے ہیں انہوں نے اس فیلڈ میں برسوں لگائے ہوتے ہیں- انہیں نہ صرف اس فیلڈ کی وسعت اور گہرائی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے بلکہ انہیں یہ علم بھی ہوتا ہے کہ اس فیلڈ میں ان کے اپنے علم کی کیا حدود ہیں اور ان حدود کے باہر ان کے اپنے ہی فیلڈ میں ان کا علم محدود ہے-

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی سوچوں کو پرکھنے کے قابل ہوتے ہیں یعنی اپنی سوچوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں- اپنی سوچوں کے بارے میں سوچنے کے عمل کو meta cognition کہا جاتا ہے- ایسے لوگ اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر پرکھنے کے قابل ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اپنی قابلیت کی حدود سے واقف ہوتے ہیں- جو لوگ meta cognition نہیں رکھتے وہ اپنی سوچوں کا احاطہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے اس لیے وہ اپنی کم علمی کا احساس کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے- ڈیوڈ ڈننگ نے اس مسئلے کو اس طرح بیان کیا ہے ‘اگر آپ کسی فیلڈ میں نکمے ہیں تو آپ کو یہ علم ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ نکمے ہیں- کسی سوال کا درست جواب دینے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے وہی قابلیت درست اور غلط جواب میں تفریق کرنے کے لیے بھی چاہیے- چنانچہ اگر آپ میں وہ قابلیت موجود ہی نہیں تو آپ یہ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ آپ کا جواب غلط ہے اور آپ میں درست جواب دینے کی اہلیت نہیں ہے’

ڈننگ کروگر ایفیکٹ کی وجہ سے معاشرے کو بہت نقصان ہوتا ہے- اگر سفارش اور رشوت جیسے مسائل کو فی الحال نظر انداز کر دیا جائے تو بھی نالائق لوگ صرف اپنے اعتماد کی وجہ سے اعلی عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں جبکہ قابل لوگ صرف اس وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ یہ شک رہتا ہے کہ ان کا علم ابھی ادھورا ہے- اس کی بہترین مثال امریکہ کے صدر ٹرمپ ہیں جنہیں قومی اور بین الاقوامی مسائل کی پیچیدگی کی بالکل بھی سمجھ نہیں ہے لیکن چونکہ وہ انتہائی اعتماد سے کہتے رہے کہ وہ یہ مسائل نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ انہیں حل کرنا بھی جانتے ہیں اس لیے انہیں کئی ریاستوں میں ہلری کلنٹن سے زیادہ ووٹ ملے حالانکہ ہلری کلنٹن ٹرمپ سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور ذہین ہیں-

لیکن ڈننگ کروگر ایفیکٹ لاعلاج مرض نہیں ہے- اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اس ایفیکٹ کے شکار نہ ہوں اور مسائل پر حقیقت پسندی سے نظر ڈالیں تو سب سے پہلے یہ تسلیم کیجیے کہ آپ کے پاس کسی بھی چیز کا مکمل علم نہیں ہے اور آپ کی رائے غلط بھی ہو سکتی ہے- کسی بھی مسئلے پر رائے دینے سے پہلے اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کیجیے اور اس مسئلے کو مختلف نکتہ ہائے نظر سے دیکھنے کی کوشش کیجیے- کسی بھی دعوے کو محض اس وجہ سے قبول مت کیجیے کہ دعویٰ کرنے والا معتبر شخص ہے- ہر دعوے کی درستگی کا پیمانہ معروضی ثبوت ہوتے ہیں دعویٰ کرنے والے کی شخصیت نہیں- اپنی کارکردگی پر اپنی رائے دینے کے لیے اپنے اعتماد پر بھروسہ نہ کیجیے بلکہ اپنے ماضی کے فیصلوں کے نتائج پر غور کیجیے اور دیکھیے کہ ماضی میں آپ کے کتنے فیصلے غلط ثابت ہوئے-

ڈننگ کروگر کے تجربے میں جن طلباء کا سکور بہت کم تھا لیکن ان کا اپنا اندازہ یہ تھا کہ ان کا سکور بہت زیادہ ہوگا انہیں ان تجربات کے بعد دوسرے طلباء کے ساتھ (جن کے ٹیسٹ سکورز بہتر تھے) ان معاملات پر بات چیت کرنے کی دعوت دی گئی- اس بات چیت سے دو فوائد سامنے آئے- ایک تو ان طلباء کے اپنے ٹیسٹ سکورز بہتر ہونے لگے اور دوسرے ان کے اپنے اندازے اور اصل سکور کا فرق بھی کم ہونے لگا- گویا دوسرے صاحبانِ علم سے بات چیت کرنے سے نہ صرف آپ کے علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ آپ کو یہ بھی اندازہ ہونے لگتا ہے کہ آپ خود کتنے پانی میں ہیں- سائنس کی دنیا کی قسم کے فورمز اس ضمن میں آپ کی بہت مدد کر سکتے ہیں- اس فورم پر بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جن کو سائنس کے مختلف شعبوں کی سمجھ آپ اور مجھ سے کہیں زیادہ ہے- ان سے بات چیت کرنے سے نہ صرف ہمارے سائنس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور ہم میں سائنسی طرزِ فکر پیدا ہوتا ہے بلکہ ہمیں اپنی کم علمی کا بھی بہتر اندازہ ہو جاتا ہے-

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم کسی بھی موضوع پر جس قدر زیادہ علم حاصل کرتے ہیں اتنا ہی ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اس بارے میں ہمارا علم انتہائی کم ہے- لیکن یہ تجربہ صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو کسی بھی موضوع کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں- جو لوگ صرف سطحی علم حاصل کرتے ہیں یا محض سنی سنائی باتوں کو ہی علم کی معراج سمجھتے ہیں وہ اس حقیقت سے کبھی آگاہ ہی نہیں ہو پاتے-

آرٹیکل کا لنک
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/30328820

یہ تحریر اس پیج سے لی گئی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

https://web.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply