عدلیہ کی غیر جانبداری کا معاملہ ۔۔۔۔نذر محمد چوہان

کل امریکہ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے ٹرمپ پر چڑھائی  کر دی کہ  کیسے آپ نے ایک فیڈرل سرکٹ کورٹ کے جج کو “اوباما جج “ کہا ،کوئی  جج ٹرمپ جج ، اوباما جج یا کسی کا طرفدار نہیں ہو سکتا ۔ اس پر ٹرمپ نے جوابی فائر کھول دیا اور اپنے موقف پر ڈٹا رہا ۔ دراصل مادہ پرستی اور عہدوں کے شوقین معاشروں نے یہ پارٹی ججوں کا تعفن پھیلایا ۔ اب پوری دنیا اس بیماری کی لپیٹ میں ہے ۔ جج کا جانبدار ہونا اب ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کا پانی میں ہونا ۔

ثاقب نثار صاحب آج کل پاکستان کی سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔ افتخار چوہدری نے اپنے آخری ایام میں ایڈن والوں کا کیس ختم کرکے ان کے  ساتھ رشتہ داری کرلی تھی  ۔ قدرت نے آدم اور حوا کی طرح ایڈن سے ہی نکال دیا ۔ ثاقب نثار اپنے بیٹے اور اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد والے بہتر مستقبل کی خاطر آجکل لندن پائے جاتے ہیں ۔ کُھلے عام  ایسے لوگوں  سے ان کی ملاقاتیں جاری ہیں ۔ اعلی ترین ہوٹل ، بڑھیا کھانے ، پرتکلف دعوتیں اور لندن کا موج میلہ ۔ اسی لندن میں الطاف حسین بھی رہتا ہے اور دنیا کے ہر کونے سے آئی ہوئی  بدمعاش اشرافیہ ۔ سب ۲۴/۷ کوئی  نہ کوئی  واردات کے چکر میں مصروف ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ملا عمر کے دور میں قاضی کا نظام بہت زبردست تھا اور واقعی  ہی مدینہ کی ریاست والا معاملہ تھا ۔ کوئی  چھوٹا بڑا ، امیر غریب ، افغان ترک یا ازبک دروازہ کھٹکھٹاتا اور سچا کھرا انصاف لے پاتا ۔ اس کو بھی امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ملکر تباہ و برباد کر دیا اور آج پوری دنیا امریکہ سمیت خمیازہ بُھگت رہی ہے ۔
پچھلے دنوں پاکستانی سپریم کورٹ میں ایک ریگولیٹری اتھارٹی کے معاملات پر ایک الگ تماشا دیکھنے کو ملا۔  ۔۔ قوم کو آخر پتہ لگا کہ  قبر میں پہنچے ہوئے بابے یہ ریگولیٹری اتھارٹیاں اپنے بہتر علاج معالجے کے لیے چلا رہے ہیں ۔ پاکستان کا دانشور کہتا ہے کے میں ہر گناہ سے پاک ہوں ۔ گنہگار جاہل لوگ ہیں ۔ ایک دفعہ مجھے اشفاق صاحب نے جب بابا ڈھونڈنے کا کہا ، تو میں نے عرض کی کہ  وہ تو ان پڑھ اور جاہل لوگ ہیں ، علم و دانش کے پیغمبر تو آپ جیسے ٹھہرے ۔ انہوں نے فرمایا ہمارے پیغمبر بھی تو اُمی تھے تو میں نے دل میں کہا کہ  آپ کونسی پھر دوکانداری کر رہے ہیں ؟ ۔ یہ تلقین شاہ صاحب ہیں جن کے بھانجے کو جب ہم نے عید سے ایک دن پہلے گرفتار کر لیا تو میری اور جنرل صابر کی عید محض اس وجہ سے خراب ہوئی  کہ  عید کے بعد گرفتار کر لیتے ؟ اب اشفاق صاحب کی عید خراب ہو گئی  ۔ یہی معاملہ سید مودودی کی اولاد کا تھا ۔ کہاں جائیں یہ تو آوے کا آوہ ہی اُلٹا اور بگڑا نظر آ رہا ہے ۔ کہیں عطالحق قاسمی کروڑوں کی ویاگرا کھا گیا اور مجیب الرحمان شامی درجنوں پٹرول پمپوں کا مالک بن گیا ۔
یہ دراصل عدلیہ ، انتظامیہ یا سیاستدانوں کا مسئلہ نہیں نیتوں اور اعمال کا مسئلہ ہے ۔ ۲۰۱۴ میں ڈنمارک سے ایک خاتون مارگریتھ ویسٹاگر کو EU کی کمپٹیشن کمشنر بنایا گیا ۔ پچھلے مہینے مشہور امریکی جریدے Time نے اس پر ایک بہت زبردست مضمون لکھا ۔ اس نے جون ۲۰۱۷ میں گوگل کو ۲.۷ بلین ڈالر کا جرمانہ کیا اور اسی سال جولائی  میں پھر ۴.۳۴ بلین کا ۔ دونوں دفعہ گوگل کا قصور یہ کہ  اس نے effective monopoly قائم کی اپنے Android System سے ۔ اسی خاتون کمشنر نے مشہور امریکی کافی چین Starbucks کو بھی ۳۳ ملین ڈالر کا جرمانہ ٹیکس بچانے پر کیا جو دراصل ہالینڈ کی حکومت نے اس سے ایک معاہدہ کیا تھا جس میں امریکی چین کو سبسڈی دی گئی  تھی ۔ امریکی جریدہ Time مزید اس بارے لکھتا ہے کہ
“This sense of right and wrong was instilled in Vestager when she was young girl in Denmark “
اسی طرح اس نے سوشل میڈیا giant فیس بُک کو بھی ۲۰۱۷ میں کوئ ۱۲۵ ملین ڈالر کا جرمانہ محض اس بنا پر کیا کے جب فیس بک نے ۲۰۱۴ واٹس ایپ خریدا تو لوگوں کے خفیہ طور پر User profile شئیر کیے ، کیا کمال جملہ اپنے فیصلہ میں لکھا
“This idea of services for free is a fiction “
فیس بک کے مالک مارک ذکربرگ کو برسلز میں طلب کیا گیا اور سمجھایا گیا کہ
“Sucking data scuffles Competition”
ویسٹاگر کے چیمبر کے کافی کی میز پر ایک مجسمہ ہے جو اس کو مخالف ٹریڈ یونین والوں نے دیا تھا جب وہ ڈنمارک کی وزیر داخلہ اور معیشت تھی ۔ مجسمہ میں شخص نے اپنی درمیانی انگلی اٹھائی  ہوئی  ہے اور ویسٹاگر بہت مطمئن  ہے کہ  یہ اسے یاد دلاتا ہے مشکل وقتوں میں کہ
“Some people will always disagree with her “
میں دعاگو ہوں پاکستان کو سرکار اور عوام کے دفاع کے یے ویسٹاگر جیسے لوگ مل جائیں ، تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply