ڈونلڈٹرمپ کی جیت اور ہمارے دانشور

سبط حسن گیلانی
امریکہ میں صدارتی انتخابات کا اختتام ہوا۔ ہیلری کو شکست اور ٹرمپ کو فتح ہوئی۔لیکن ہمارے ہاں تجزیوں کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ہر ایک امریکہ کے لیے اسے شرم کا مقام قرار دے رہا ہے۔ جہاں ٹرمپ جیسا بندہ جیت گیا۔کوئی اسے تشدد پسند قرار دے رہا ہے تو کوئی نفسیاتی مریض۔ ایک دانشور دوست نے اسے ایک مسنحرہ قرار دیا ہے۔البتہ عالم اسلام کے لیے ایک بدترین دشمن کی فتح پر سب کا اتفاق ہے۔جو مسلمانوں کا جانی اور اُمہ کا نظریاتی دشمن ہے۔لیکن حقائق کو ان کی اصل شکل و صورت میں دیکھنے کی صلاحیت کا اظہار بہت کم دیکھنے کو ملا۔اس لیے کہ ہم زمینی حقائق کو زمین پر بیٹھ کر نہیں عقائد کے گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر دیکھنے کے عادی ہیں۔جو عموما ًرومانویت کی ہوائوں کے دوش پر بھاگتے ہیں۔اسی لیے صحرا و دریا ان کے لیے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ایک عام مسلمان جسے اپنے ہاں جمہوریت کا نام بھی کھلتا ہے امریکی جمہوریت میں کیڑے نکال رہا ہوتا ہے، اور چوٹی پر بیٹھا ہوا دانشور جو اپنے گھر کے آمروں کے گناہوں پر صبح و شام پردے اور سیاست دانوں کے ناکردہ گناہ بھی ان کی جھولی میں ڈالتا ہے، امریکی جمہوریت کو یہودیوں کی لونڈی قرار دیتا ہے۔ جو سرمایہ داروں کے اشاروں پر ناچنے کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا کام جانتی ہی نہیں۔ایسا نہیں ہے جنابِ عالی۔ہر گز ایسا نہیں۔
امریکہ کے عوام جتنا اپنے مفادات کو جانتے ہیں شائد ہی کوئی دوسری قوم جانتی ہو۔وہاں 1789سے لے 2016تک 227برس بیتے ہیں۔ جن میں 58بار انتخابات ہوے۔جارج واشنگٹن سے لیکر اوبامہ تک کسی ایک صدر نے بھی آٹھ سال سے زیادہ حکومت نہیں کی۔ ٹرمپ ان کا پینتالیسواں صدر ہے۔ایک بار بھی جمہوریت کے علاج کے لئے کوئی مسیحا نہیں آیا۔ اس وقت بھی نہیں جب ابراہام لنکن کے دور میں ملک دو حصوں میں بٹ کر خانہ جنگی کا شکار تھا۔ابراہام ان کا ایسا صدر تھا جس کے بارے میں اقلیتی گروہ کے ایک افریقی نژاددانشور نے لکھا ہے۔ وہ ہمارے لیے ایسا ہی تھا جیسے بنی اسرائیل کے لئے موسیٰ۔اس نے غلاموں کے گلے سے طوقِ غلامی اُتارنے کی جدوجہدمیں اپنی جان دی۔جس کا نتیجہ، کل کے غلاموں کی اولاد اوبامہ نے آٹھ سال حکومت کی،اور آج وہ اچانک جمہوریت کا سبق بھول بیٹھے ہیں؟جو ہمارے دانشور انہیں یاد کروا رہے ہیں۔واہ جی واہ۔آمریتوں کے دستر خوانوں پر پلنے والے’’ جمہوریت پسندوں ‘‘سے لے کر مسلم اُمہ جیسی تصوراتی شے کے غم میں ڈوبے ہوے عام مسلمان کیا ایک کام کریں گے؟۔ایک لمحے کے لیے امریکہ اور مغرب کے جمہوری نظاموں میں کیڑے نکالنے سے توجہ ہٹا کر، کابل سے بنگال تک،ایران سے مراکش تک،اومان سے ملائشیا تک،دو براعظموں میں پھیلی ہوئی عظیم مسلم اُمہ کے طول و ارض پر نظر دوڑا کر اٹھاون مسلم ممالک میں سے کسی ایک میں بھی جمہوریت دکھا دیں؟لے دے کے دو ممالک ہیں جہاں یہ برتنے کو نہیں مگر دیکھنے کی حد تک نظر آ جاتی ہے وہ بھی مسلسل نہیں کبھی کبھی۔
جب آمریت تھوڑی دیر کے لیے سستانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ترکی اور پاکستان۔ ترکی کا حال یہ ہے کہ وہاں آج بھی جمہوریت رات کو دونوں آنکھیں بند کر کے دو گھڑی کی نیند نہیں لے سکتی،اور پاکستان کا حال ہم کیا بتائیں آپ سب جانتے ہیں۔ جہاں قوم کے منتخب وزیر اعظم کو عام مجرم کی طرح ہتھکڑی لگا کر چارپائی کے ڈنڈے سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اسے غٖدار اور دشمن ملک کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے اخبارات کے صفحات سیاہ کیے جاتے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر صحافتی کوہ قاف کے جن وزیراعظم ہاوس سے ’’ملک دشمن مواد‘‘ برآمد ہونے کی خبریں نشر کر رہے ہوتے ہیں۔وہ عالم اسلام جہاں آج بھی طے نہیں ہوسکا کہ طرزِ حکمرانی کونسا بہتر ہے؟۔ ڈونلڈ ٹرمپ نہ نفسیاتی مریض ہے نہ شیطان کا پجاری۔نہ تشدد پسند ہے اور نہ جمہوریت دشمن۔وہ روایتی سیاست دان نہیں مگر ایک کامیاب ترین کاروباری ہے۔ جو کاروباری ہونے کی حیثیت سے جانتا ہے کہ بازار میں کس جنس کے بھاو اس وقت چڑھاو پر ہیں۔ اس نے اسی جنس کو خریدا اور اُسی کو کامیابی سے برتا۔امریکہ میں رہ کر وہاں کے جمہوری معاشرے سے سارے ممکنہ فوائد سمیٹ کر اُسی معاشرے اور اس کے کلچر سے نفرت کا پرچار کرنے والے طبقے کو چتاونی دینے کے لیے امریکیوں کا یہ ایک انتباہ ہے حضور۔اب بھی سمجھ جاو تو اچھا ہے۔ ورنہ گُھن تو پسے گا ہی ساتھ ساتھ بہت سارا گیہوں بھی پیسا جائے گا۔
ٹرمپ نے اپنی کمپین کی شروعات مسلمانوں کے خلاف بول کر کی تھی۔تعصب کی عینک اُتار کر اگر دیکھنے کی کوشش کریں تو وجہ بھی سمجھ آ جائے گی۔ہمارے دانشور بتا رہے ہیں کہ مسلمانوں کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ عام مسلمان کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ مسلمان اپنے مذہب سے جڑے ہوے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ جو ہر جمہوری معاشرے نے تسلیم کیا ہے۔یہودی ہندو اور سکھ اپنے اپنے مذاہب سے کیا کم جڑے ہوئے ہیں؟۔مسئلہ اپنے مذہب سے جڑنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا نہیں بلکہ دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کا ہے۔یہ وہ کام ہے جو برطانیہ سے لے کر چیک ری پبلک تک اور فرانس سے لے کر سیکنڈے نیویا تک،اور آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک صرف مسلمان سر عام کر رہے ہیں۔یورپ اور برطانیہ کا تو میں خود عینی شائد ہوں۔ یہاں فوڈ کے بڑے بڑے سٹوروں میں ہمارے باریش بھائی باقاعدہ والنٹیر ہو کرڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں تاکہ اپنے مسلمان برادران کو’’ حرام ‘‘سے بچا سکیں۔برطانیہ میں کرسٹینا نام کی مصنفہ نے ایک کتاب لکھی ہے۔ کرسٹینا کا انگلینڈ۔ وہ لکھتی ہے میرا تعلق شمال سے ہے مگر رہتی لندن میں ہوں۔ میں اپنے علاقے کے ایک شہر میں گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہاں پر برقعہ پوش عورتیں چغہ پوش مردوں کے پیچھے پیچھے چل رہی ہیں۔ ان مردوں سے کوئی عورت راستہ پوچھے تو اسے غیر محرم عورت سمجھ کر اس سے ہم کلام نہیں ہوتے، اور اس کے لباس کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کرسٹینا سوال کرتی ہے کہ میرے آباواجداد نے جس انگلستان کو اپنے خون پسینے سے تعمیر کیا تھا، کیا یہ وہی انگلستان ہے؟۔امریکہ نے اپنا ٹرمپ دکھا دیا ہے۔ یورپ اور برطانیہ کے ٹرمپ ابھی انتظار میں ہیں۔ ہمارے یہی لچھن رہے تو بہت جلد وہ بھی دیکھنے کو ملیں گے۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply