عشق۔۔۔۔ہاشم چوہدری

بچپن میں اکثر پیڑ سے جامن اتارنے کی خاطر پیڑ پر پتھر برسایا کرتے تھے اور میری ماں اکثر کہا کرتی تھی کہ” ان کو پتھر نہ مارا کرو ان کو بھی پتوں کے جھڑنے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے”۔خیر ماں کی وجہ سے پیڑوں کی تو جان بخشی ہو گئی  مگر ماں کی وہ بات میرے ذہن میں ایک عجیب قسم کی  گتھی    بنا گئی،کہ بھلا پتوں کے جھڑنے کی وجہ سے ان کو تکلیف کیا ہوتی ہے۔بس اسی کو حل کرنے کی  کشمکش میں مبتلا ہو کر میں کچھ عرصہ قبل تک  دنیا کی رنگینیوں سے دور کسی پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر جھڑتے پتوں کو دیکھا کرتا تھا۔ ہر ایک پتے کے جھڑنے پر وہی اک سوال جو کہ عرصہ دراز سے میرے  ذہن میں اٹکا ہوا تھا۔کہ ان پتوں کا پیڑ سے کیا تعلق ہے ؟
کہ ان کےجھڑنے کی اسکو تکلیف ہوتی ہے ۔ایک دن اسی سوچ میں مبتلا تھا کہ مالی جو  مجھے وہاں  آتے جاتے دیکھا کرتا تھا اس نے پوچھا  کہ ُپتر کیہہ گل اے۔کیہہ سوچی جاندا ایں“     (بیٹا  کیا بات ہے؟۔کیاسوچ رہے ہو؟)

میں نے کہا ”بابا جی اے تے دسو کہ پتیاں دے ڈگن دی وجہ توں ِایناں ُرکھاں نوں کیوں ِپیڑ ہوندی اے“ ٰ(بابا جی یہ تو بتائیں ان پتوں کے جھڑنے کی وجہ سے یہ پیڑ  درد محسوس کیوں کرتے ہیں)

یہ سن کر وہ مسکراۓ اور بولے” پتر جدون کوئی  شے مڈوں اکھڑ جاندی اے تے ساری کائنات ایدھی اذیت نوں محسوس کر دی اے۔“

(پتر جب کوئی بھی چیز اپنی اصل سے علیحدہ ہوتی ہے توکل کائنات اس کا درد محسوس کرتی ہے)

یہ سن کر میں نے کہا ”ایہہ  ساری کائنات کیوں  محسوس کر دی اے “ (کائنات اسے محسوس کیوں کرتی ہے؟)      تو بولے ” پتر اے عشق دیاں گلاں نیں “ (پتر یہ عشق کے راز ہیں)     بابا جی تو عشق کا کہہ کے چلے گئے اور مجھے جواب کی صورت میں ایک اور سوال دے گئے ۔   بس اب مجھے عشق کو تلاش کرنا تھا ۔سو رختِ سفر باندھا اور نکل پڑا اسکو ڈھونڈنے۔

رستے میں اک چرواہے کو ریوڑ چراتے دیکھا۔ اس سے پوچھا کہ عشق کیا ہے؟ تو بولا عشق تو بکریاں ہیں۔آگے چلا تو ایک لوہار سے ملاقات ہوئی  اس سے پوچھا تو بولا عشق تو لوہا اور بھٹی ہے۔جس کو ڈھالنے کی خاطر میں گھنٹوں ہتھوڑا چلاتا ہوں۔آگے پہنچا  تو  رقاصہ سے پوچھا کہ عشق کیا ہے ؟ تو بولی عشق تو  دھمال ہے۔  ایک ترکھان سے سامنا ہوا اس سے پوچھا تو بولا عشق تو لکڑی ہے۔جس کو دیدہ زیب بنانے کی کی خاطر میں گھنٹوں آری چلاتا ہوں۔آگے پہنچا تو نظر ایک کمہار پہ جا ٹھہری جو مٹی کے برتن بناتا دکھائی  دیا تو جب اس سے یہی سوال دہرایا گیا تو عشق مٹی کی صورت میں سامنے آیا۔آگے ندی عبور کرتے ہوۓ گفتگو جو ملاح سے ہوئی  تو عشق کو پانی و کشتی بتایا گیا۔

اب یہ سارے عاشقوں کی داستانیں سمیٹے میں جنگل میں آگ لگاۓ بیٹھا تھا تو ملاقات عشق سے ہی ہو گئی ۔میں نے سینہ چوڑا کیا اور عشق سے پوچھا کہ اے عشق تو ہے کیا؟


تو عشق نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کہا “میں تو وہ کیفیت ہوں جو عاشق کو معشوق کی حالت میں ڈھال دیتی ہے۔تو پوچھا تیری پہچان کیا ہے؟ ۔ تو کہنے لگا میرے پاس    آ کر “عاشق معشوق کے الفاظ کا عمل بن جاتا ہے۔میں اس کیفیت کا نام ہوں جب میں انسان کے اندر ہوتا ہوں تو اسکی ذات کو اس کے دل سے زائل کر کے اسکی معشو قہ کو بھر دیتا ہوں اور اسکے عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہوں اور جب میں انسان کے دل پر وحی کی طرح  نازل ہوتا ہوں  تو اسکی نوک  زبان  پر جاری ہوجاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جشن عید میلادالنبی ﷺمبارک

Facebook Comments

ہاشم چوہدری
خودبینی کے خمار سے نکلنے کی جستجومیں مہو ِاک ادنی لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply