جرائم کی ایک تھیوری کہتی ہے ہومو سیپیئن انسان (موجودہ انسان کے جد امجد) دوسرے ارتقاپذیر انسانوں کی مخلوقات سے محفوظ یوں رہا کہ اس نے ہڈی سے بنا ہتھوڑا نما ہتھیار ایجاد کیا ، وہ دوسرے انسانی مخلوقات کے سروں پر اس ہتھیار سے وار کر کے انھیں قتل کر دیتا اور مغز جیسے کھا جاتا ، دوسرے انسان کو قتل کر دینے کی فلاسفی یہ بھی ہے کہ انسان کی فطرت میں تشدد کا عنصر ازل سے ارتقا شدہ ہے ۔
قرآن میں بھی کچھ ایسی مخلوقات کا ذکر ہوا ، لمبے قد والے ، بزرگ عمروں والے اور نافرمان ، جن کا انجام ہمیشہ بھیانک ہوا جیسے آگ سے ، زلزلے سے ، طوفانِ نوح سے ، اور ان کی بستیوں پر پہاڑوں سے پتھر لڑھکائے گے ۔
ایک گروہ کا اپنی سوچ و عقیدے کو عصبیت پر پروان چڑھانا اور اپنی عصبیت کو تشدد سے دوسرے گروہ سے منوانا انسان کے اخلاقیات کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے ، یہ ردعمل ہے ہزاروں سال پرانے قبائلی ، شکاری انسان کی نفسیات کا ۔ بقول سوشیالوجی عصیبت سے مراد “we feeling” اور ” they feeling ” کا شکار ہو جانا ہے ۔
اسی عصبیت میں ’’ they‘‘ کیلئے برداشت ختم ہو جاتی ہے ، اور عدم برداشت سے تشدد کو ایسا ہی راستہ نکلتا ہے جیسے خواہش کی تکیمل سے خوشی تک ، عدم برداشت تشدد کی راہیں ہموار کرتا ہے ۔
پاکستانی معاشرہ بھی اسی عصبیت اور عدم برداشت کی ٹریجڈی کا شکار ہے ، ایک مخصوص منفی عصبیت اور تشدد کی لہر یہاں بھی پنپتی ہے ، یہ عصبیت ، یہ متشددانہ سوچ ، یہ نفرت ، کہاں ہیں ان کی فیکٹریاں ؟ ۔ وہ دشمن ہے ہم بخوبی جانتے ہیں وہ دوست کیوں نہیں یہ جاننے کی کوشش کرنا جرم ہے ۔
ہماری قوم کے ساتھ تاریخی واقعات یوں تلخ وقوع ہوئے کہ ایسے تاریخی مغالطے پیدا ہوئے جن سے ہنرمندی سے غلط مفہوم و نتائج نکالے گے ۔ پاکستان کا قیام محض جغرافیای اور نظریاتی نہ تھی ، ہندوستان کے کوکھ میں جو نفرتوں اور دشمنی کے اثاثے تھے وہ بھی اس کے حصے میں برابر آئے۔
تاریخ کے ان مغالطوں کی تشریح کرنا تحقیق طلب ہے ، محمد بن قاسم نے ہندوستان پر پہلا حملہ کیا ، یہاں سے مطالعہ پاکستان کا پہلا باب شروع ہوتا ہے مگر تاریخ کا نہی ۔ وہ پہلا عرب تو قطعاً نہیں تھا ، نہ ہی پہلا مسلم عرب جو ہند میں وارد ہوا ۔
اگر ہم صحت مند ماحول میں یہ بحث کریں کہ پاکستانی معاشرے کی بنیاد کیا ہے تو قیاس ہے ہمارے دانشور متفق ہوں یہ کلچر مختلف جغرافیای تہذیبوں کا مظہر ہے بذات خود کچھ نہیں ۔ اکثریت جغرافیائی تہذیبیں حملہ آور ہیں جو مقامی تہذیبوں میں مدغم ہوئیں ۔ ہمارا عرب سے تہذیبی رشتہ منقطع تو نہیں البتہ بمقابلہ ہندوستان خاصا کمزور ہے ۔ ہندوستانی تہذیب سے دوستی اور عرب تہذیب کا احترام اتنا معتدل کیا ایک مسلمان ہو سکتا ہے ؟ ۔ اس سے ہماری clash of civilisation کا اختتام ممکن ہے ۔
مذہب کے نام پر انسان کی اپنی ذاتی فطرت ’’جرم‘‘ کو تسکین پہچانا اور بلیک میل کرنا سب سے آسان ہے ۔ ’’مذہبی مریض ‘‘ پاکستانی سماج پر وہ بوجھ ہیں جو سارے سماج کے وسائل کھا گئے مگر پھر بھی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ ایٹم بم کے دور میں ایک شخص کے پاس تلوار تھی وہ شرمایا نہیں لے کر نکل آیا کیونکہ اسے صرف ذاتی تسکین سے غرض تھی اس سے نہیں کہ اس کی تلوار مشن کیلئے ناکافی ہے ۔
مسلمان کا مائنڈ کنفیوز ہے کہ وہ جس قوم کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور قرآنی حوالے دے کر اسے دشمن ثابت کرتا ہے اسی کی پیداوار اور ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا خریدار ہے ۔ دراصل ضرورتیں لبرل و سیکولر ہوا کرتی ہیں ، انسان چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو وہ پہلے ضرورتوں کا محتاج ہے ، پھر عقیدوں کا ۔
ہر آدمی کی کئی شناختیں ہیں ، گاوں محلے سے لے کر براعظم تک کی ۔ کچھ شناختیں بڑی احساس ہوتی ہیں جیسے ولدیت ، وطن ، نظریہ ، مذہب وغیرہ ، کیوں؟ کہ یہ ضمانت فراہم کرتی ہیں کہ وہ ایک معیاری زندگی فراہم کرنے میں معاون ہوں گی ۔ وہ ان شناختوں کیلئے جذباتی بھی قدرے زیادہ ہے ظاہر ہے اسے ان شناختوں سے گہری توقعات وابستہ ہیں۔
احساس لوگ ہوں یا شناختیں انھیں ایکسپلائٹ کرنا بہت آسان ہے پاکستان میں لوگوں کی مذہبی شناخت کو خاص کر بہت ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے ، عدم برداشت اور تشدد کوی جرم نہیں سمجھا جاتا اور نہ صرف اقلیتیں بلکہ کئی مسلمانوں کے اقلیتی مسلک بھی اس کا شکار ہیں ۔
تعلیم جہالت کی کینسر ہے ، جبکہ پاکستان میں نفع بخش ۔ ایک تعلیمی ادارے ہیں جو نسل در نسل بیوروکریٹک پیداوار کی فیکٹریاں ہیں ، اکثریتی مگر غریب عوام کیلئے فرسودہ سرکاری تعلیمی ڈھانچہ ہے۔
اس طبقاتی تقسیم نے عوام کو بڑا فرسٹیڈ کر دیا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر مشتعل ہجوم بن کر گاڑیاں جلا رہے ہیں ، کیلے ، کافر بیکری کچھ محفوظ نہیں ۔
مذہب آج بھی رہنما بن سکتا تھا اگر مذہبی رہنما صدیوں پہلے کے سماجی تقاضوں سے نکل کر موجودہ صدی کے تقاضوں کے مطابق مذہبی اخلاق تشکیل دیں ۔ مسلک کے نام پر تشدد اور عدم برداشت کی بیخ کنی کرنی ہو گی ۔ جرم چاہے مذہب کا لبادہ اوڑھے بےنقاب کرنا ہو گا ۔
پاکستان اور دنیا کو آج اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ ہے اپنی مذہبی ، سماجی شناختوں کو دوبارہ تعمیر کر کے ’’ they‘‘ کیلئے برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہے ۔ اپنے اخلاقیات کو لبرل نہیں تو آزاد کرنے کی ۔ عقیدوں کے قلعوں میں خود کو محصور کر لینا ، خیالی دشمن ، خیالی جنگیں ، خیالی فتوحات سے پرے ایک اور حقیقی دنیا ہمیں فتح کرنی ہے سائنس و ٹیکنالوجی کی ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں