ناڑے والی سرکار سے نالے والی سرکار تک

زیڈ اے قریشی
میرا اپنا تعلق ایک کَٹر بریلوی، جَدی پشتی پِیر گھرانے اور قریشی و ہاشمی خاندان سے ہے، یہ محض اس لیئے بتانا مقصود تھا کہ کہیں میری اس تحریر کو کوئی بھی شخص کسی مذہبی فرقہ واریت سے نہ جوڑ دے، کیونکہ یہ بات بھی درست ہے کہ میں کوئی عالم دین اور نہ ہی حافظ قرآن ہوں، یہ تحریر فقط ہمارے معاشرے کا ایک خوفناک پہلو دکھانے کی کوشش ہے۔میری نسبت جس خاندان سے ہے تو جب پیدا ہوا تو میری پرورش بھی اسی خاندان میں ہوئی اور یقینناً میری تربیت بھی اسی تناظر میں کی گئی کہ ہم سب ہیاولیاء کرام کی تہہ دل سے عزت و احترام کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ اولیاء کرام کی دین اسلام کی ترویج اور تربیت انسانیت میں بہت بڑا کردار رہا ہے جسکو شاید ہی کوئی شخص رد کر سکے، لیکن میری تحریر کا مقصد فقط شر پسند عناصر کی پہچان کروانا ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے نَعوذَ باللہ کوئی گستاخی کردی ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں کیونکہ وہ شر پسند عناصر ہی تو ہیں جو اپنے مَکروہ عوامل سے اصل اور حقیقی اولیاء کرام و بزرگان دین کا چہرہ بھی داغدار کرنا چاہتے ہیں، اگر آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے اس بدفعلی کا چہرہ بے نقاب نہ کیا تو پھر ہماری آنے والی نسلیں بھی ان عناصر کا شکار رہیں گی، جسکی وجہ سے ہمارا اپنے مذہب اور دین اسلام سے رشتہ بھی کمزور ہوتا جائے گا۔میں جب کالج کا طالب علم تھا تو اُس وقت کیبل ٹی وی کا نیا، نیا دور دورہ تھا ،اُس وقت کے ایک ٹی وی چینل نے ایک ناڑے والی سرکار کو بے نقاب کیا اور اُسکے طریقہ واردات سے عام لوگوں کو بھی آشنا کیا، اُس وقت بھی وہ سرکار بڑی مشہور نامی گرامی شخصیت تھی لیکن آج اُسکا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ ناڑے والی سرکار کا طریقہ واردات کچھ اسطرح سے تھا کہ پہلے وہ خواتین کو تعویذ وغیرہ دیتا تھا اور جب وہ اُنکی توجہ اچھی طرح حاصل کر لیتا تو پھر اپنے ناپاک’’ حُجرہ شریف ‘‘میں اکیلی مریدنی کو کہتا بی بی ناڑا کھول، جو خاتون بیچاری سادہ سی ہوتی تو وہ اس کے جال میں پھنس جاتی اور پھر پیر صاحب اُس کو اپن ہوس کا نشانہ بناتے، لیکن اگر کوئی خاتون تھوڑی سی شاتر اور چالاک ہوتی تو وہ پیر صاحب کے ارادے بھانپ لیتی اور کرارا سا جواب دیتی کہ یہ کیا بکواس ہے؟ تو پھر کیونکہ پیر صاحب نے اپنے حجرے میں ناڑے اوپر سے نیچے کی طرف لٹکائے ہوئےتھے تو اُن ناڑوں کی طرف اِشارہ کرتے اور کہتے بی بی میں تو اِس ناڑے کا کہہ رہا ہوں اور تم پیر بابا کی نیت پر شک کر رہی ہو، اللہ کے عذاب سے ڈرو وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن خود اُنکو کبھی اللہ کا ڈر تو دور کی بات، اللہ کی ذات بھی اُسے یاد نہیں تھی۔
اسطرح کے اور بہت سے مختلف واقعات بھی میرے علم میں دوستوں اور میڈیا والوں کی طرف سے آتے رہے لیکن یہ معاملہ ایسا ہی لگنے لگا ج”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ مرض اب ہمارے معاشرے میں مُوذی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس مرض کا سب سے زیادہ نقصان اور شکار ہماری خواتین ہیں، اس لیے ہم سب لوگوں کو اپنی خواتین کی اس حوالے سے تربیت کرنی چاہیے ورنہ مردوں کو عذاب الہیٰ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ مردوں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور اس جرم میں آپ بھی برابر کے شراکت دار بن رہے ہیں۔
دراصل میں نے دو روز قبل ایک ٹی وی پروگرام دیکھا جس میں پھر ایک جعلی پیر صاحب المعروف نالے والی سرکار کے کرتوتوں کو بے نقاب کیا گیا اور یہ بھی ٹی وی پروگرام ”سرعام“ میں کیا گیا ،یہ معاملہ بھی ناڑے والی سرکار سے ملتا جلتا ہی تھا فرق صرف اتنا تھا کہ وہ ناڑا کھلواتا تھا اور یہ بعد ازاں گندے نالے میں نہلواتا تھا وہ بھی برہنہ سرعام۔ یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ ٹی وی پروگرام جسکا نام ہی سرعام تھا وہ اس منحوس بابے کے کرتوت سرعام نہیں دیکھا سکتا تھا، اب آپ خود ہی سوچیں کی یہ بابا جی کیا کچھ کرتے ہوں گے۔ نالے والی سرکار کو بھی جب پولیس گرفتار کرکے لے گئی تو کوئی بھی ایک بابا جی کی صداقت میں پولیس کے سامنے کھڑا نہ ہوسکا اور آخر میں بابا جی ،پولیس اور سرعام کی ٹیم کی مننتیں کرتے رہے لیکن سب بے سود۔لیکن سوال یہ ہے کہ جو خواتین بھی ایسے حیوان طبعیت بابووں کی ہوس کا شکار ہوئیں، اُنکے ان گناہوں کا مداوا کیسے ہوگا ؟ی
خیر یہ تو ہے، ہمارے آج کے معاشرے کا المیہ کہ ہم اصل عقائد بھول کر بہروپیوں کی بھی تقلید اور اُنکے تحفظ اور دفاع میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بھی سمجھنے کو تیار نہیں یہ سب جعلی پیر، بابے اور عامل، حقیقی، سچے پیر اور اللہ کے ولیوں کے نام بھی داغدار کررہے ہیں۔ ہم سب کو اپنے اپنے گھروں سے ان کے خلاف آپریشن کلین اپ شروع کرنا چاہیے اور اپنے نیک لوگوں اور اللہ کے پسندیدہ بندوں کی حُرمت بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے اپنے ابو جان سے پوچھا کہ ہمارے بزرگ تو بہت نیک لوگ تھے اس لیئے لوگ ہمارا اور انکا احترام کرتے ہیں تو ابو جان جواب دیا کرتے تھے کہ جی بالکل لیکن بیٹا ہماری بخشش ہمارے بزرگوں نے نہیں بلکہ ہم نے خود اپنے نیک اعمال سے کروانی ہے ،کیونکہ ہر انسان نے اپنی قبر میں خود جواب دینا ہوگا اس لیئے اپنے ارد گرد موجود ان تمام عناصر کے شَر سے خود بھی اور خاندان والوں کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کیساتھ کیساتھ ان کو بے نقاب کرکے دین اسلام کی خدمت کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زیڈ اے قریشی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ، اسلام آباد

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply