جنابِ چِیپ جسٹس، یہ ہے حسین نقی۔۔۔ انعام رانا

ہمارے چیف جسٹس کو پاکستانی سماج میں وہی مقام حاصل ہے جو کبھی پوپ کو یورپ کے اندھیرے سماج میں میسر تھا۔ حکومت خواہ کسی کی ہو، معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، پوپ اپنی ٹانگ ضرور اڑاتا تھا اور بالآخر اسکی ٹانگ تو گئی ہی، یورپ سے مذہبیت بھی ساتھ ہی لے کر گئی۔ نجانے ہمارے عزت ماب چیف جسٹس جاتے جاتے کیا کچھ لے کر جائیں گے، سماج کا بھی اور عدلیہ کا بھی۔

تازہ نشانہ جناب چیف کے “خسروی عدل” کا محترم حسین نقی بنے ہیں۔ جو لوگ لاہور سے ہیں، یا صحافت سے وابستہ ہیں یا انسانی حقوق کیلئیے کام کرتے رہے، انھوں نے انگلیاں منہ میں داب لیں یہ سن کر کہ چیف جسٹس نے سر عدالت حسین نقی سے بدتمیزی کی اور پھر ان ہی کو معذرت پہ مجبور بھی کر دیا۔ جناب چیف جسٹس کو غصہ تھا کہ جسٹس عامر رضا کو استعفی دینا پڑا۔ بطور ایک قانون دان میں جسٹس عامر کے مرتبہ کا معترف ہوں اور انکی انا پرست طبیعت کے متعلق بھی جانتا ہوں۔ اناوں کے ٹکراو میں استعفی کیوں دیا گیا، یہ کہانی بھی جلد یا بدیر سامنے آ ہی جائے گی۔ مگر حسین نقی کا معافی پہ مجبور کیا جانا، انکا معافی مانگ لینا اور چیف جسٹس کا یہ سوال کرنا کہ “تم ہو کون؟” ، دل کو زخمی سا کر گیا۔

حسین نقی سن 1936 میں لکھنئو میں پیدا ہوئے، 1950ء میں اپنے چند بزرگوں اور ایک ہمشیرہ کے ہمراہ  پاکستان آگئے جبکہ والدین  اور باقی بہن بھائی  وہیں لکھنئو ہی میں رہے۔ آپ نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اور این ایس ایف کے پلیٹ فارم پر  مکرم علی شیروانی  کو شکست  دے کر طلبا یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ ابھی آپ یونین کے صدر ہی تھے جب تین بلوچ طلبا کو جامعہ سے نکالے جانے کے خلاف شدید احتجاج کی پاداش میں آپ کو بھی جامعہ کراچی سے خارج کردیا گیا جو اس شرط پہ تھا کہ بلوچ طلبا واپس لئیے گئے مگر اپ کو نکلنا پڑا  
ایم اے پولیٹکل سائنس کو نامکمل چھوڑ کر صحافت کے شعبے کا رُخ کیا  نیوزایجنسی پاکستان پریس انٹرنیشنل کا حصہ بنے پہلے حیدرآباد پھر 1967 ء میں لاہور بھجوائے گئے کیونکہ آپ کے جرات مندانہ سوالات حکمران اشارافیہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔
اس کے بعد آپ ویو پوائنٹ اور دی سن سے منسلک رہے جبکہ آؤٹ لُک کے لیے مضامین لکھتے رہے۔ علاوہ ازین ڈھاکہ کے چند انگریزی ہفتہ روزہ جرائد ، دی مسلم اور فرنٹئیر پوسٹ کا حصہ رہے جبکہ پنجاب پنچ بھی  نقی صاحب کی ادارات میں شائع ہوتا رہا۔ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں جن رسائل و جرائد کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا ان میں نقی صاحب کا پنجاب پنچ بھی شامل تھا۔
ظلم کے مقابلے میں دب جانا نقی صاحب کی سرشت میں شامل نہیں۔ اس سلسلے میں ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاالحق کے ادوار کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جب نقی صاحب استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ بھٹو کو شٹ اپ  کے جواب میں شٹ اپ کہنے والا حسین نقی، گو اب بوڑھا ہو گیا ہے۔
پنجابی زبان کا پہلا روزنامہ ‘سجن لہور’  بھی نقی صاحب کی کاوش تھا۔جب انھوں نے روزنامہ سجن لہور شروع کیا تو کوئی اس کا مالک نہ تھا۔ چندہ جمع کر کے اخبار شروع کیا گیا۔ تمام لوگ اس میں رضاکار تھے۔ جو زیادہ تر باغی اور ناراض قسم کے لوگ تھےجن کے لیے نقی صاحب  کی  ہربات حکم کا درجہ رکھتی تھی۔
1991 میں دی نیوز لاہور کا اجرا ہوا تو اس کے سب سے پہلے مدیر بنے لیکن ایک ہی برس کے اندر جب مالکان نے کارکنان کی چھانٹی شروع کی تو یہ کہتے ہوئے استعفی دے کر گھر آگئے کہ زندگی بھر ٹریڈ یونین کا حصہ رہا ہوں مزدوروں کو بے روزگار کرنے کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتا۔
1985 میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان قائم کیا گیا تو آپ بھی اس کا حصہ بنے اور  سن بانوے کے بعد کمیشن کے ڈائریکٹر کی ذمہ داریوں کے علاوہ اس کے جرائد کی ادارت بھی نباہتے رہے۔

جناب چیف جسٹس، یہ ہے حسین نقی۔ حیرت ہے کہ لاہور سے ہو کر بھی  آپ کو معلوم نا تھا کہ کون ہے حسین نقی، یا شاید اپ کی وکالت کے دور میں جو بھی نواز شریف  کے دسترخوان سے وابستہ نا تھا،  آپ  نے اسے جاننے کی کوشش ہی نا کی۔

جناب چیف جسٹس، ہمارے مذہب کی، ہمارے ہندو پاک کی، اور پھر ہمارے لاہور کی روایات ہیں۔ بزرگوں کا احترام کیا جاتا ہے، ان پہ رعب نہیں جمایا جاتا۔ میں نے جب وکالت کا آغاز کیا تو اپ کے والد جناب میاں نثار مرحوم کو بطور وکیل اپنی کرسی پہ بیٹھے بیٹھے عدالت میں دلائل دیتے دیکھا، عدالت کے مرتبہ کے خلاف تھا، مگر انکی بزرگی اور سنیارٹی کو مدنظر رکھتے ہوے جج صاحبان نے کبھی انکو کھڑا ہونے کو بھی نا کہا۔ کاش  آپ نے اپنے والد سے ہی کچھ سیکھ لیا ہوتا۔ ایک جانب تو عدالت سے باہر ایک نیم پاگل شخص ویل چیئر پہ بیٹھا آپ کو گندی گالیاں دیتا ہے اور اپ نوٹس لینے کی جرات بھی نہیں کر پاتے اور دوسری  جانب بیاسی سال کے ایک بوڑھے پر اپنی عدالت میں رعب  جما کر اپنی کرسی کا وقار قائم رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ شاید آپ کو عدالت کی عزت اور وقار کا پیمانہ دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جناب چیف جسٹس، اپ بابا رحمت بھی ہیں، عدلیہ کے جنرل بھی، سماج کے سوامی دیانند بھی، ڈیم کیلئیے ایدھی ثانی بھی، اور چیف جسٹس آف پاکستان بھی۔ مگر بیاسی برس کے ایک بوڑھے سے، جس کی تمام عمر انسانی حقوق اور عوامی جدوجہد میں گزرے، اس سے برسر عدالت بدتمیزی کر کے آپ فقط ایک چِیپ جسٹس ثابت ہوے۔ فاعتبروا يا أولي الأبصار ۔ ۔ ۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 5 تبصرے برائے تحریر ”جنابِ چِیپ جسٹس، یہ ہے حسین نقی۔۔۔ انعام رانا

  1. اس واقعے کی کوئی خبر کا لنک مل سکتا ؟
    انتہائی گھناؤنی حرکت ہے یہ کسی بزرگ کی تضحیک اور وہ بھی ایسے قابل لوگو ں کی ۔۔۔۔
    آپ نے اچھا کیا چپ نئیں رہے ۔

  2. انتہائی بے ہودہ عمل ہے… ایک معتبر ادارے’ جس کا کام عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے.. وہی اپنی ذاتی انا کی تسکین کیلیئے کسی کو بھی کچھ بھی بول جاتا ہے.

    1. نفسیاتی مریض سے کیا گلا۔ زبردستی کی عزت، عزت نہیں کہلاتی اور زبردستی اور جبر میں مانگی گئی معاُفی، معافی نہیں ھو سکتی ۔

  3. dear inam rana. couple of corrections : I ; had defeated mukkarram ali khan shervani ..munawwar was junior to both of us and my rustication was in bargain for withdrwal of rustication s of three baluch students. I only replicated the same words when asked to shut up .thank you .

    1. Dear sir
      It is an honour that you have read my article and replied to it. Please accept our gratitude & support.
      I will correct the fact as suggested.

Leave a Reply to بلال کریم بھٹی Cancel reply