ہزارو ں خواہشیں ایسی۔۔۔۔آصف خان احمدانی

بچپن کی ضرورتیں ہوا کرتی تھیں کہ بازار میں چاچا قائم دین کی دُکان پہ رکھا وہ مہنگا کھلونا کسی طرح میں خرید لوں تو محلہ کی تمام بچہ پارٹی اپنی فین ہو جائیگی تمام بچے میرے ساتھ کھیلنے کو ترجیح دیں گے
میرے پاس اگر دس روپے آ جائیں تو میری ضرورتیں ختم ہو سکتی ہیں کہ کچی پینسل کی جگہ بال پین لے کر تمام لڑکوں کو دکھا دوں کہ میں اب اس پینسل کیساتھ لکھنے کے قابل بھی ہو گیا ہوں۔ یا پھر آج کہیں سے پندرہ روپے مل جائیں تو رنگ برنگی پینسلوں والا ڈبہ بھی خرید لوں تاکہ وہ سب لڑکے مُجھے دیکھ سکیں کہ میں بڑی کلاسز کے اسٹوڈنٹس والے کام نرسری کی جماعت میں کر رہا ہوں اور سب مُجھے لائق اور ذہین سمجھنے لگیں۔

تب یہ ہماری معصوم سی خواہشیں سمجھ لیں یا ضرورتیں مگر یہ ہمارے ہاں اُس وقت بھی اتنی اہمیت کی حامل تھیں جِتنا آج کی بھاری ضروریات اور خواہشات ہیں ۔ہم سوچتے تھے کہ جب کوئی انسان بڑا ہوتا جاتا ہے تو اس کے پاس پیسے آنا بھی شُروع ہو جاتے ہیں، اب دیکھیں ابُو کے پاس بہت سے پیسے ہیں بڑے بھائی کی جیب میں بھی پیسے رہتے ہیں ظاہر ہے ان کے پاس بہت سے پیسے ہیں یہ خوب مزے کرتے ہوں گے بازاروں میں جاتے ہیں بہت ساری ٹافیاں چاکلیٹس اور چارٹ کھاتے ہوں گے۔

معصوم خواہشات کا دور ( بچپن) گزرتے ہی احساس ہوتا ہے کہ ہم تو خوامخواہ ان کے طلبگار تھے پھر اِسی دوران علم ہوتا ہے کہ اب تو ہم مقابلہ کی حالت میں ہیں ابُو نے سخت تنبیہ کر رکھی ہوتی ہے کہ پانچویں میں تمہارے مارکس ڈاکٹر صاحب کے بچے سے زیادہ ہونے چاہیں یہاں سے پھر نئی ضروریات و خواہشات کے ساتھ خوف و خدشات بھی زندگی کا تھوڑا بہت حصہ بننا شُروع ہو جاتے ہیں کہ ٹیسٹ مارکس سب سے زیادہ آنے چاہئیں اگر کم آئے تو مار پڑ سکتی ہے ٹیچر کے پاس والی بینچ پہ بیٹھ کر سب کُچھ اچھا سمجھ سکوں گا مگر ٹیچر ہوم ورک کی چیکنگ بھی اسی بنچ سے شروع کرتے ہیں اور اگر کسی دن ہوم ورک مکمل نہ ہوا تو۔۔۔؟

ہم انسانوں کی سوچ میں ہمیشہ دو پہلو ہی ہوتے ہیں ہم جو کرنے جا رہے ہوتے ہیں حالانکہ وہ سب بہتر ہوتا ہے مگر ہم یہ بھی ضرور سوچتے ہیں کہ اگر بہتر نہ ہوا تو۔۔؟
یہ چیز ہمیں زیادہ تر پریکٹیکل دور میں آن گھیرتی ہے پریکٹیکل زندگی میں شاید خواہشات کو کبھی لاحاصل سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور صرف ضروریات کی تکمیل کے لیئے بھاگنا پڑتا ہے یہاں آکر علم ہوتا ہے کہ ابُو کے پاس پیسے تو موجود ہوتے تھے مگر وہ بھی مزے میں نہیں تھے آج اپنے پاس بھی پیسے تو موجود ہیں مگر یہ اتنے بھی تو نہیں کہ ایک اچھا کاروبار سیٹ کر لوں اچھا گھر بنا لوں اچھی جگہ پیسہ لگا کر مُنافع کما سکوں۔

گھر کے ماہانہ بجلی و گیس کے بلز کی ادائگیاں کہاں سے آن پڑیں روزانہ گھر کا خرچ کہاں سے مُکمل کیا جائے دوستوں رشتہ داروں کی شادی بیاہ میں جانے کے لیئے بھی جیب میں کافی روپوں کا ہونا لازم ہو گیا۔ روز کا پیٹرول خرچ بھی برداشت سے باہر ہے تنخواہ اور آمدن بھی نا جانے اتنی کم کیوں ہے کہ ضروریات بھی ادھوری ہیں۔

مگر یہ بھی تو انسان کے متعلق حقیقت ہی ہے کہ وہ اپنی ایک ضرورت پوری کر کے دوسری ضرورت کو خود جنم دیتا ہے کُچھ لوگوں نے ضروریات و خواہشات کی تکمیل کے لیے  بے پناہ سر گرداں رہے بے شک کامیاب ہو گئے ہوں گے مگر یہ سوال تو باقی ہی رہتا ہے کہ چلو ضروریات کو پورا کر لیا مگر کیا اب یقین ہے کہ ان کی کوئی خواہشات باقی نہیں اب۔۔ ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

امازون کے مالک جیف بزوس Jeff Bezos جو ممکنہ دُنیا کا امیر ترین آدمی ہے نے اپنے کاروبار کو مزید وسعت دینے کا ارادہ کرتے ہوئے نیویارک میں کمپنی کا ایک وسیع و عریض ہیڈ آفس قائم کرنے کا اعلان کیا جس میں بیَک وقت پچیس ہزار مُلازمین کام کریں گے جن کی سالانہ تنخواہ لاکھوں ڈالرز ہوگی۔
اب Jeff کو ہی دیکھ لیں کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے ہزاروں اور لوگوں کی خواہشات و ضروریات پوری کرنے کا سبب بن رہا ہے مگر اُس کی اپنی خواہشات شاید اب بھی کم نہیں ہو سکیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیئے کروڑوں ڈالرز بھی لگا دینا چاہتا ہے۔
ہماری سوچ کو قدرت نے شاید اتنا وسیع رکھا ہے کہ کائنات کے حاصل ہونے پر بھی ہماری خواہشات و ضروریات پوری ہونے پر سوالیہ نشان باقی رہے گا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply