اسلامی نظام ِ حکومت کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔وقار اسلم

جیسا کہ آج کل اسرائیل سے تعلقات رکھنے کی گفتگو پارلیمان تک جا پہنچی ہے تو یہ جان لینا ضروری ہے کہ اسرائیل (Zionism) یعنی صہیونیت کے نظریے پر قائم ہوا لیکن علم  یہودیت کا اٹھایا اب وہاں لبرل ازم کے پیروکار کثیر التعداد ہیں۔اب پاکستان میں بھی لبرلز اور سیکولرز کا اژدھام مچا ہوا ہے کچھ نو آموز نرم گوشہ پیدا کرنے کی تاویلیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ پاکستان میں اسلامی طرز حکومت کیوں ہونا چاہیے اس حوالے سے چند حقائق میں عوام کے سامنے لانے کی جستجو رکھتا ہوں۔

جمہوریت جہاں سے پنپنا شروع ہوئی یہ وہ دور تھا جب اسلام کے خلیفہ صدیقِ اکبر ؓ کو نبی علیہ اصلوۃ ولسلام کے پردہ فرما جانے کے بعد سکیفہ بنو سعدیٰ کے مقام پر چند جید اصحابِ نبی نے خلیفہ منتخب کیا اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے کہ ان صحابہ کرام ؓ کو دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ روحانی علم بھی تھا۔ یہ وہ صحابی تھے جنہیں جنت کی بشارت نبی آخر زمان ﷺ نے دی تھی۔ پھر اس کے بعد خلیفہ ِ دوم فاروق ِ اعظم ؓ نے شوریٰ خاص کی تشکیلِ نو کی گئی جس نے بعد میں حضرت عثمان ؓ کو تیسرا خلیفہ منتخب کیا، اسلام کا نظام اگر جدید خطوط میں دیکھا جائے تو وہ dual democracy ہے۔لیکن اب ہمارے ملک میں پُرسان ِ حال یہ کہ مجتحد اور جاہل کا ووٹ ایک برابر ہے۔

علت اس بات کی ہے کہ اجتہاد اور اتمامِ حجت کی بلند سیڑھی سے سٹپٹا کر ہم کافی نیچے آگِرے ہیں۔ اسلام کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے مختلف شخصیات استعمال کرتی رہیں اور یہاں مجلسِ شوریٰ کا نام لیا جاتا ہے لیکن یہاں اس نے اپنے صحیح معنوں میں نفاذ کبھی پایا ہی نہیں مغرب نے اخلاقیات چوری کیں انہیں نافذ کیا اور مسلمان ان سب اخلاقیات کا دامن چھوڑتے رہے پتہ نہیں کیوں ہم نے یہ بھُلا دیا کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ،سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 110 میں حق کی سمجھ بوجھ دی گئی ہے، اسلام حکمران ِ وقت کو فیصلہ لینے سے پہلے امت کا فائدہ دیکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔

اسلام نے بیرون ممالک جہاں مسلمان آباد نہیں وہاں بغاوت کرنے یا کسی مسلمان کے باغی بننے کی تحریص کی مذمت کی ہے۔ اسلام نے ہی اصلاحی نظام کی سنگِ بنیاد رکھی ہے اس بات کا اندازہ  چاروں خلفائے راشدین کے ادوار سے لگا یا جا سکتا ہے۔ مشاورتی کونسل کی بنیاد حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے رکھی اور اجماع ِ جیدصحابہ ہوا، سیکرٹری ایٹ کی بنیاد رکھی گئی جس میں کسی کو مراعات نہیں دی جاتی تھیں۔انتہائی قابل حضرت عبیدہ ؓ کو امورِخزانہ کا سربراہ مقرر کیا عرب کے 10 صوبے بنائے،عراق کے 3 صوبے جبکہ شام کے 4صوبے بنائے۔ خلافت کے تابناک ادوار کے پہلے دور میں لوگوں کے تحفظات کو اہمیت دی گئی احتساب کے عمل کو یقینی بنایا گیا۔جزیہ کو لاگو کیا گیا جس سے اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوئے اس سے قبل نبی اکرم ﷺ نے جزیہ نہ دے سکنے والے کمزور اور نادار اقلیتی شخص کو اس سے استثناء دیا تھا، اس ہی کی بابت حضرت ابوبکر ؓ نے بھی اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے حیثیت دیکھ کر اسے لاگو کیا۔

لشکرِ اسامہ کہ مندرجات کو پورا کیا گیا اورپھر جنگ ِ یمامہ میں فتنوں کا مقابلہ کیا گیا، زکوۃ کے نظام کو ریگولیٹ کیا گیا، ٹیکس نظام کو بہتر بنا یا گیا ہر جمعہ کی نماز کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ مسلمان گمراہی میں نہ پڑیں اور رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ حضرت فاروقِ اعظم ؓ خلیفہ دوم بنے انہوں نے بیت المال سے کچھ بھی نہ لینے کا فیصلہ کیا ان کا دور بالیقین سنہری دور تھا جو 10 سال کے دورانیے پرمحیط رہا،انہوں نے تُرک گھوڑوں پر سواری کی پابندی لگا دی،بہتر آٹے کے استعمال سے منع کر دیا،عوام کے لئے دروازے کھلے رکھنے کا حکم دیا خلافت سنبھالنے کے بعد سے خندہ پیشانی کے مضمرات پیدا کئے اور سماجی روابط کو بہتر کیا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو سکے۔انتظامی امور میں سب سے اوپر خلیفہ اس کے بعد گورنر پھر ولیِ،کاتب،کاتب الدیوان،صاحب ِ بیت المال،پولیس چیف ہوا کرتے پہلی بار حکومتی ذمہ داری کو اداروں کی شکل دی گئی۔عدالتی نظام کو ریاستی عنصر بنا یا گیا،اسے آزادانہ طور پر کام کرنے کے لئے فعال کیا گیا۔ سماجی بہبود کے لئے انتظامات کئے گئے،صوبوں کی تشکیل،زکوۃ کو عام کیا گیا،قحظ سے نمٹنے کا بندوبست،پہلا اسلامی کیلنڈر،مواصلات کا نظام جدید ہوا اس کے علاوہ عوام کی خدمت کے لئے بہت سادگی اپنائی گئی اورخدمات وقف کی گئیں۔حضرت عثمان غنی ؓ کا دور ِخلافت شروع ہوا جو 9 سال تک رہا اس دورِ حُسنہ میں ڈیم بنائے گئے،نیوی میں توسیع ہوئی 500 سے زائد نیول بیس بنائی گئیں بحری مشقیں کی گئیں،ہر جمعہ کو گورنر زکی میٹنگ بلائی جاتی۔

حضرت عمر فاروق ؓ نے انتظامی امور کی سنگِ بنیاد رکھ دی تھی اب ان میں مزید بہتری لانے انہیں عملی شکل دینے کا بیڑہ حضرت عثمان غنی ؓ نے اٹھایا، قرآن پاک کی جمع و تدوین کا ذمہ بھی ان کے سر آیا۔حضرت عثمان غنی ؓ کے بعد تین دن تک کوئی خلیفہ نہیں تھا صحابہ کرام اللہ اجمعین حضرت علی ؓ کرم اللہ وجہ الکریم کے پاس پہنچے حضرت علی ؓ نے جواب دیا کہ مجھے خلیفہ بننے کے لئے مت کہیں اگر آپ لوگوں کا اتنا اصرار ہے تو مجھے وزیر یا امیر بنا دیجئے۔ حضرت علی ؓ پچھلے تینوں خلفاء کے مشیر خاص بھی رہ چکے تھے یہ بات ذہن نشین رہے کہ چاروں خلفائے راشدین کا آپس میں بے حد سلوک و محبت کا تعلق رہا ،خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی ؓ کو تمام گورنرز کو تبدیل کرنا پڑا۔حالات ہیجانی تھے کشیدگی پائی جارہی تھی ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی اس لئے خارجیوں کے قلع قمع کے لئے کوششیں تیز ہوئیں تاکہ فتنوں کو مزید تباہی پھیلانے سے روکا جا سکے۔ ریاست کی رِٹ منوائی گئی،وفاق کو مربوط بنایا گیا۔قانون کی سربلندی کے لئے انہوں نے حاضر دماغی اور جاں فشانی سے کام لیا، باغیوں سے نمٹنے کا صحیح راستہ چُُنا گیا،سیاسی عمائدین کے ساتھ مسائل کا حل نکالنے کے لئے ضابطہ طے کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حضرت علی ؓ انتخابی اصلاحات متعارف کرانے والے پہلے شخص بھی ہیں۔ دین اسلام کے حکومتی نظام میں فرضِ کفایہ پر زور دیا گیا ہے،احتساب دنیا و آخرت دونوں میں لئے جانے کا اسلام علمبردار ہے دین میں (Limited discretion) ہے،حدود متعین رکھنے پر زور دیا گیا ہے اسلام میں انکم ٹیکس کا تصور نہیں ہے یہ توازن برقرار رکھنے کا درس دیتا ہے سور ۃ التوبہ کی آیت نمبر ساٹھ میں مفلسوں کی مددگاری کا درس ملتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply