عذاب جاریہ۔۔۔۔۔ مدیحہ سید

بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال مگر اس کی جدید مثال آج کل دیکھنے کو ملتی ہے کہ کچھ بھی کر سوشل میڈیا پہ ڈال۔ بہت سے لوگ ایک ایک منٹ کی پوسٹ لگانا نہایت ضروری سمجھتے ہیں مگر سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی مر جاتا ہے فوراً اسکی تصاویر ہر گروپ میں لگائی جاتی ہیں۔ مانا کہ آپکی آئی ڈی آپکی مرضی ہے لیکن خدارا کسی مر جانے والےبندے کی تصاویر مت لگایا کریں۔ ادھر ایک بندہ دنیا سے رخصت ہوا ادھر اسکی تصاویر دھڑا دھڑ لگنا شروع ہو گئیں ۔یہ مردے سے اظہار ہمدردی کا کون سا طریقہ ہے کہ جا بجا اسکی تصاویر اپلوڈ کر کے لائیکس لئے جا رہے ہیں۔
خصوصاًًً  عورتوں کی تصاویر لگانا ایک بہت ہی نامناسب اور  گری ہوئی حرکت ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک بہت خوبصورت لڑکی کی تصاویر جابجا گروپس میں  شیئر ہو  رہی تھیں  کہ اسے جلا کر مار دیا گیا۔ اور کچھ مہینوں کے بعد ایک فیک آئی ڈی میں اس کی وہی تصاویر لگی تھیں اور ان پہ نازیبا کمنٹس دیے جا رہے تھے۔ اسی طرح ایک اور گروپ میں تصاویر تھیں کہ ایک غریب لڑکی کو مار کر کھیتوں میں پھینک دیا گیا اسکی لاش کی ہر زاویے  سے  تصویر بنا کر بھی دل نہیں بھرا تو اسکی ایک پرانی تصویر بھی ساتھ لگائی۔ کسی جگہ ایک جوڑے نے خودکشی کی تو سوشل میڈیا کی ہر چھوٹے بڑے گروپ نے انکی تصاویر لگا کر تبصرہ کرنا اپنا فرض سمجھا۔ خوب کوسنے اور حسب توفیق لعن طعن کی ۔بے شک یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اپنے چند لائیکس اور گروپس کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے آپ کسی کی عزت کی دھجیاں اڑا دیں،۔

بالفرض ان کے ماں باپ یا خاندان میں سے کوئی دیکھ لے تو اسکی اذیت کا اندازہ نہ آپ لگا سکتے ہیں اور نہ میں جو بے چارے پہلے ہی دکھی ہوتے ہیں ایسی حرکات سے شرمندگی سے مرے جاتے ہیں. اسی طرح مر جانے والی مشہور شخصیات کی کردار کشی  اور انکی موت کو غلط انداز سے دکھا کر خدا جانے کون سی ذلیل ترین حس کی تسکین کی جاتی ہے۔

اور مر جانے والے فنکاروں کی برسی پہ خصوصاًًً  خواتین فنکاروں کے کام کی داد کے نام پہ چن چن کر انکی اخلاق سوز تصاویر اور ویڈیوز اکٹھی کر کے اسکو ثواب پہنچایا جاتا ہے۔ اصولا ًًً ہونا تو یہ چاہیئے کہ تمام قابل اعتراض مواد انکی تصاویر اور ناچ گانے والی ویڈیوز کو ختم کرنا چاہئیے مگر کچھ پڑھے لکھے جاہل ریٹنگ کے جنون میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں اور چن چن کر قابل اعتراض مواد لگاتے ہیں۔ اور ٹی وی چینلز والے تو ہر سال ٹریبیوٹ کے نام پہ پروگرام بنا بنا کر برسی مناتے ہیں۔ خدارا مر جانے والوں کی مشکلات میں اضافہ نہ کریں ۔اگر آپکو وہ فنکار واقعی اچھے لگتے ہیں تو انکی آسانی کے لئے کچھ پڑھ کر بخش دیں اگر ایسا نہیں کر سکتے تو انکے کارنامے ہر سال پوسٹ نہ کیا کریں ہم اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر تم مردے کا کوئی عیب دیکھو تو اسے حتی الامکان چھپانے کی کوشش کرو۔ اور کسی کے مر جانے کے بعد اسکی عیب جوئی نہ کرو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد مردے کو سزا و جزا ملتی ہے اس لئے مردے کے لیئے دعائے مغفرت کرنی چاہیے۔ اور مرنے والے کی اولاد یا احباب اگر نیک کام کرتے ہیں تو اسکا اجر مردے کو ملتا ہے۔ لیکن اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے اتنا وقت نہیں نکال سکتے تو انکے بےہودہ ناچ گانوں کی تشہیر کر کے اور انکی کردار کشی  کر کے اپنے اور انکے لئے عذاب کا باعث بھی مت بنیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply