یادیں ۔۔۔ معاذ بن محمود

زندگی گزارنا آسان کام نہیں۔ یہ ایک راستہ ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی ہر ذی نفس نے خود کو اس پر گامزن پایا۔ لیکن زندگی بدصورت نہیں۔ یہ ایک خوبصورت تجربہ ہے۔ انجام بیشک موت ہی سہی لیکن جب تک سانس جاری ہے اسے خوبصورت ماننے میں ہی راحت ہے۔ اس راہ پر کئی کٹھن موڑ آتے ہیں۔ کہیں خشک بنجر صحرا ملتے ہیں تو کہیں سرسبز و شاداب وادیاں۔ کہیں رفتار اس قدر تیز کہ دم سنبھالنا مشکل تو کہیں ایسا پڑاؤ کہ ہمیشہ کے لیے ٹھہر جانے کا من ہو۔ زندگی میں تنوع ہے۔ یہی زندگی کا حسن ہے۔ 

مارک زکربرگ کی ٹیم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے سوشل میڈیا کو غیر محسوس طریقے سے زندگی کا ایک جزو بنا ڈالا ہے۔ جزو بھی ایسا کہ بسا اوقات جذبات کے سمندر میں پاتال تک پہنچ کر کوئی ایسی قیمتی شے، کوئی یاد نکال لاتا ہے اور پھر بقیہ سارا دن اسی یاد میں اٹک کر رہ جاتا ہے۔

صبح سویرے فیس بک نے پانچ سال پرانی ایک تصویر بطور یادگار سامنے رکھ دی۔ بہت عجیب تصویر تھی۔ اکیلے پن، اپنائیت، انجام، تعلق اور جذبات کی مظہر ایک تصویر۔ میرے والد محترم محمود الحسن صدیقی صاحب (مرحوم) کی آخری آرام گاہ، ان کی قبر کی پہلے دن کی تصویر۔ یہ تصویر دیکھنی تھی کہ وہ دن میرے سامنے گویا ایک فلم کی مانند چل پڑتا ہے۔ ۲۸ جون ۲۰۱۳ کا دن۔ میری زندگی کا مشکل ترین دن۔

امارات میں پانچ ماہ مکمل ہونے کو تھے۔ اگلے ہفتے رمضان شریف کا آغاز سر پہ تھا۔ ہم نے ڈیرہ سٹی سینٹر دبئی سے رمضان کے لیے بڑے پیمانے پر خریداری کرنی تھی۔ مائیکروویو سے لے کر جوسر تک، اور پھر اشیائے خورد و نوش سبھی کچھ لانا تھا۔ وقت لگنا طے تھا مگر اتنا کہ موبائل بند ہوجائے گا، اندازہ نہیں کر پایا۔ کئی گھنٹے بعد گھر واپسی ہوئی۔ واپس آتے ہی موبائل چارج کرنے لگایا اور مس کال الرٹس آنا شروع ہوگئے۔ پہلا۔ دوسرا۔ تیسرا۔ چوتھا۔ بھائی کا۔ بیگم کا۔ اماں کا۔ بہن کا۔ سب کی جانب سے الرٹ۔ ذہن ابھی کچھ سوچنے کو تیار ہو ہی رہا تھا کہ اچانک چھوٹے بھائی کی کال آگئی۔ 

“بھائی جان، پاپا کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ جلدی پہنچیں۔”

روتے ہوئے وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔ میں نے اماں کو کال کی اور جانے کس طرح اور کیا بات کی۔ مجھے نہیں یاد۔ بہت زور ڈالنے کے باوجود بھی نہیں یاد کہ ہماری کیا بات ہوئی تھی۔ اہلیہ کی کال آئی۔ اس نے کیا کہا نہیں یاد۔ بس اتنا یاد ہے کہ روم میٹ انصاری کو بتایا کہ ابا کا انتقال ہوگیا ہے اور پھر لیپ ٹاپ لے کر گیلری میں بیٹھ گیا اگلی فلائیٹ دیکھنے۔ 

اگلے کئی منٹ، غالبا نصف گھنٹا میں کوشش کرتا رہا کہ فلائیٹ چیک کروں مگر لیپ ٹاپ سرہانے رکھ کر سونے والا ہوکر بھی ایک ویب سائیٹ نہ کھول پایا۔ ذہن سن تھا، مکمل ماؤف تھا۔ اتنے میں انصاری جو میری حالت سمجھ چکا تھا، نے مجھ سے لیپ ٹاپ لیا، مجھ سے دو جوڑی کپڑے بیگ میں رکھوائے، اور زبردستی مجھے ساتھ لیے ٹرمینل ۱ دبئی ائرپورٹ پہنچ گیا۔ پشاور کی کوئی فلائیٹ فی الحال موجود نہیں تھی تاہم امارات ایئرلائن کی فلائیٹ اسلام آباد جانے کو تیار تھی۔ چیک ان بند ہوچکا تھا۔ ٹرمینل ۱ پر موجود بھارتی ہندو افسر معاملہ سمجھ چکا تھا۔ اس نے فوراً ٹرمینل ۳ فون کر کے ایک سیٹ اپنی صوابدید پر بک کروائی اور ہمیں ٹرمینل ۳ اگلے پانچ منٹ میں پہنچنے کو کہا۔ جیسے تیسے کر کے ہم پہنچ گئے۔ انصاری نے چار ہزار درہم میرے ہاتھ میں تھمائے اور یہ کہہ کر رخصت کیا کہ اور چاہئیں ہوں تو بتا دینا۔ اس وقت غالباً نو بجنے کو تھے۔ 

میں ابا کی یاد میں گم سم جہاز کی جانب چل پڑا۔ موبائل کی بیٹری ایک بار پھر ختم ہونے پر میں نے ڈیوٹی فری زون سے نئی بیٹری خریدی جو تیس فیصد چارج تھی۔ اسی تیس فیصد بیٹری سے میں نے جنازے کا وقت، مقام اور باقی ضروری انتظامات طے کیے، اپنے مینیجر کو خبر دی اور جہاز میں بیٹھ گیا۔ دبئی سے اسلام آباد تک کا یہ سفر جیسے صدیوں پر محیط تھا۔ میری سیٹ سب سے آگے جہاز کی کھڑکی کے ساتھ تھی۔ اسلام آباد پہنچا تو عمیر بھائی، میرے اور انصاری کے مشترکہ دوست، اپنی بائیک پر میرے منتظر تھے کہ جلد سے جلد گاڑی تک پہنچا دیں۔ قسمت دیکھیے کہ ائیرپورٹ سے عمار چوک کے قریب پہنچتے ہی بائیک پنکچر ہوگئی اور مجھے ٹیکسی کرنی پڑی۔ بہرحال ٹیکسی کر کے میں اڈے کے قریب پہنچا اور وہاں سے ٹویوٹا گاڑی کروا کے پشاور نکل پڑا۔ یہ ایک سخت ترین سفر تھا۔ 

قریب چار بجے گھر پہنچا۔ والد صاحب کا جسد خاکی میرے سامنے تھا۔ ابا جی جلالی طبیعت کے مالک تھے۔ اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے اس قدر آرزو مند کہ آخر تک دعا کرتے رہے کہ اللہ مجھے کسی کے سہارے زندہ نہ رکھنا، کسی طرح معذور نہ کرنا۔ اوپر والا عموماً ایسے لوگوں کی ایسی خواہش ضرور پوری کرتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ سب کچھ چند گھنٹوں میں ہوگیا۔ دفتر سے بستر مرگ تک کا وقت نہایت قلیل رہا۔ اب والد صاحب میرے سامنے ابدی نیند میں تھے اور یقیناً اس وقت ان کی روح کہیں آس پاس موجود ہم سب کو دیکھ رہی تھی۔ مجھے یقین ہے تب انہیں مجھ سے امید ہوگی کہ تم نے سب کو سنبھالنا ہے۔ میں خاندان کے بڑوں میں بھی تھا لہذا مضبوط رہنا میری مجبوری تاہم والد صاحب کو یوں بے جان پڑے دیکھنا اور پھر صبح جنازے تک دیکھتے ہی رہنا انتہائی مشکل کام تھا۔ 

غسل کا وقت آیا تو میری برداشت تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ میری نظر میں ابا کے لیے ایک تعظیم تھی ایک احترام تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس تعظیم کے باوجود ابا کو غسل دوں مگر ایسا نہ کر پایا۔ اللہ مجھے معاف فرمائے مگر میں انہیں غسل دینے کے لیے خود کو تیار نہ کر سکا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اپنے باپ کو ایسی حالت میں دیکھنا گوارا نہیں کہ ان کی جگہ میں انہیں اطہر کر پاؤں۔ وہ خوددار شخص تھے اور میں ان کی خودداری کی پرستش کی حد تک تعظیم کرنے والا۔ غسل کے بعد انہیں رخصت کر دیا گیا۔ 

اس تمام سفر کا سب سے کٹھن وقت اب آنے کو تھا۔ والد صاحب جن کی ایک آواز پر ہم سب فوجی سپاہیوں کی مانند چوکس ہوجایا کرتے، جن کے قیلولے کے وقت ہم سکوت کا عروج برپا کر دیا کرتے کہ دو بائی پاس کروا کر بھی ہماری کفالت کرنے والے ابا کو سکون کی انتہا ملتی رہے، جن کی ایک آواز پہ ہم سب ہی پانی لانے اٹھ کھڑے ہوتے، وہی محمود الحسن صدیقی صاحب اب بے سدھ، بے جان لحد میں سوئے پڑے تھے اور دنیا انہیں مٹی تلے دفن کرنے کو تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔ جسد خاکی پر کچھ پتھر کی سلیں اور سلوں پر مٹھی بھر بھر مٹی ڈال کر صدیقی صاحب میری نظروں سے اوجھل کر دیت گئے۔ یہ احساس انتہائی اذیت ناک تھا کہ اب ہم کبھی ان کو چھو نہ پائیں گے، کبھی ان سے بات نہ کر پائیں گے، کبھی ان کے قہقہے نہ سن پائیں گے۔ 

صدیقی صاحب چلے گئے۔

پہلے ان کی روح نے ساتھ چھوڑا اور پھر ہم ان کے جسم سے بے وفائی کر گئے۔

ہر جانب مٹی ہی مٹی، دھول ہی دھول تھی۔ عام حالات میں مجھے دھول سے سخت الجھن ہوا کرتی ہے۔ اس وقت پورا جسم گرد میں اٹا پڑا تھا اور میرا ذہن ایک ہی سوال میں الجھا پڑا تھا: “اس سے برا وقت بھلا کیا ہوسکتا ہے؟”

گزرنا برحق تھا لہذا یہ وقت بھی گزر گیا مگر صدیقی صاحب کی وفات مجھے اندر سے جتنا مضبوط بنا گئی کوئی اور واقعہ کبھی نہ بنا پاتا۔ ہر انسان کی طرح میں بھی اس کے بعد کئی مشکل لمحات سے گزرا۔ کبھی کوئی مالی مسئلہ تو کبھی کسی دوست کی جانب سے کوئی دکھ بھری بات۔ زندگی کی ہوا کے گرم سرد تھپیڑے چلتے ہی رہے۔ اب میرے پاس ہر مشکل کو سہنے کو آسان سا طریقہ ہے۔ میں خود سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ کٹھن ساعتیں ان لمحات سے زیادہ مشکل ہیں جو والد صاحب کو مٹی کے حوالے کرتے ہوئے سہے؟ جواب ہمیشہ نفی میں ملتا ہے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

اس پر میں کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ارد گرد دیکھا کرتا ہوں۔ زندگی واقعی حسین دکھائی دینے لگتی ہے۔ زندگی خوبصورت ہے۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply