سفر نامہ کراچی۔۔۔۔عارف خٹک

پہلی بار جب کراچی کی سرزمین پر قدم پڑے۔ غالباً 1998ء کا زمانہ تھا۔ کراچی آنے کا واحد مقصد آم کھانے تھے۔ کیوں کہ گاؤں میں سُنا تھا،کہ کراچی کے آم کھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ ورنہ گاؤں میں تو آم ہمیں فقط سُنگھائے جاتے تھے۔ یہ الگ بات کہ کراچی آکر ہم پر مُنکشف ہوا کہ کراچی میں درختوں کی وہی حالت ہے،جو بلوچستان میں بلوچوں کی۔بلوچستان میں زمین زیادہ ہے، مگر آبادی کم ہے۔ یہاں کراچی میں زمین کم ہے لیکن مخلوق زیادہ۔یہ الگ بات ہے کہ مخلوق کراچی کی نہیں ہے۔ یہی رونا بلوچی بھی روتے ہیں اور کراچی بھی رو رہا ہے۔

ہم نے کراچی میں جانا ،کہ پینٹ کےساتھ شرٹ پہننا ضروری نہیں۔ آپ قمیض کےساتھ بھی پینٹ پہن سکتے ہیں۔ بلکہ شلوار پر شرٹ پہن کر بلاشبہ  آپ سب کو فخریہ بتا سکتے ہیں  آپ نیو کراچی کے رہنے والے ہیں۔ اگر شرٹ کا تکلف کر بھی لیا تو بلا جھجھک شرٹ کو پینٹ سے باہر نکال دیجیئے ۔مُنہ میں گُٹکا رکھ لیں اور آرام سے زندگی جی لیں۔ جیسے کابل میں ہر چیک پوسٹ پر تلاشی دینے سے پہلے کوئی پاکستانی نسوار کی پُڑیا میں چونڈی سے کھیل کر اپنے آپ کو افغانی ثابت کرتا ہے۔ فوج کی تیز آنکھوں نے ان مہاجر نوجوانوں کے بیچ بھارتی جاسوس ڈھونڈ لئے۔ اور قندھار میں فوجیوں نے ہم جیسے نسوارخوروں سے بیس ہزار روپے لےکر ہمیں پشتون ماننے سے انکار کرڈالا۔

خیر کراچی لینڈ کرتے وقت ہمارے ذہن میں “بےواچ” پروگرام کا ساحل سمندر سمایا ہوا تھا  کہ بچیاں بکنی پہن کر دھوپ میں لیٹی ہوں گی  اور ہمارے جیسے اہلِ ایمان اپنے اپنے ایمانوں کو ہاتھ میں پکڑ کر ڈولنے اور ڈگمگانے سے بچانے کی ناکام اور لاحاصل کوششوں میں مصروف ہوں گے۔ لہٰذا ایئرپورٹ سے کالی پیلی ٹیکسی میں بیٹھ کر دو رویہ شاہراہِ فیصل پر ڈرائیور کو ہوٹل کی بجائے ساحل سمندر جانے کا کہا۔ بندہ سمجھ گیا،کہ پشاور سے آیا ہوا سمندر خان کراچی کے سمندر میں ڈوبنے کو بے قرار ہوا جا رہا ہے۔ لہٰذا سو روپے کی بجائے دو سو کا تقاضہ کیا گیا۔اور ہم نے پورا بھی کیا۔

ساحلِ سمندر پر نہ تو اس وقت باغ قاسم تھا اور نہ ہی پارکس بنے ہوئے تھے۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے ساتھ واقع پتلی گلی میں ہم بخوشی کھسروں سے خود کو رگڑتے رہے  اور پیچھے سے آنے والے کوئٹہ کے شیرخان ہم سے رگڑتےرگڑتے بالآخر  ساحل سمندر کی بوسیدہ دیوار پر پُہنچ گئے۔ سامنے دیکھا،تو دو کمزور ترین اونٹ ساحل پر ٹہلتے ٹہلتے پاکستانی دانشوروں کی طرح سر جُھکائےشرانگیز خیالات کے تحت اپنے مردانہ اوزار کی سرعام نمائش کررہے تھے۔ اور میرے قریب کھڑی فیملی میں عورت شکایتی نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھتی۔۔اور شوہر شرمندگی سے مُجھے دیکھ لیتا۔اور میں حسرت سےاُونٹ کو دیکھنا شروع کردیتا ۔

مجھے کوئی خاتون ِبکنی میں تو کُجا شلوار قمیض میں بھی نظر نہیں آئی۔ ایک مولانا صاحب اپنی صحت مند بیوی کےساتھ سمندر کی لہروں سے اٹھکھیلیاں کرتے مصروف نظر آئے۔مولانا کے پیچھے دس بچوں کا ہجوم دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ کبھی  اپنی بیوی کےساتھ ساحل سمندر پر اٹھکھیلیاں نہیں کروں گا۔
اچانک میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ دیکھا تو ہمارے گاؤں کا زغیم گل ماما تھا۔ جو کراچی میں کسی فیکٹری کا   چوکیدار تھا۔ بچپن سے ان کو سال میں دس دن صرف گاؤں میں دیکھنا نصیب ہوتا۔ باقی کا سال وہ کراچی میں چوکیداری کرتے گزار دیتے۔مُجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔ کہ اگر سال میں ایک دفعہ زغیم گل ماما گاؤں آتے ہیں تو ان کے بارہ بچے کیوں ہیں۔؟دس کیوں نہیں۔ ۔۔۔خیر یہ سائنسدان جانیں ہمیں اس سے کیا۔

زغیم چچا نے سامنے ایک بلوچی کی ریڑھی سے پانچ روپے کا مکئی کا بھٹہ خرید کردیا۔یہ جتاکر کہ ساحل پر مہمان نوازی ایسی ہوتی ہوگی۔ بھٹہ لےکر جیسے ہی منہ تک لےجانے لگا پولیس والوں نے مجھے زغیم چچا کو پیچھے سے کَس کر پکڑ لیا،کہ نکاح نامہ دکھا دو۔
سوچا غازی بابا کے مزار کےساتھ متصل پلے گراؤنڈ کو بھی دیکھا جائے۔ سو وہاں چل دیا۔ مختلف زبان کے لوگ، فیملیز اور شور مچاتے بچے، گویا ایک دنیا آباد تھی۔ گول گول گھومتے جُھولے، مُکے مارنے والی مشین، پلاسٹک کی گاڑیاں، سیپیوں سے سجے شیشے اور ظروف دیکھ کر آنکھیں حیرت زدہ ہوگئیں۔ ہیجڑوں کا ناچ بھی دیکھا۔ ہجوم میں دو تین سندھیوں نے رات کو مہمان بنانے کی دعوت بھی دی۔ جو انتہائی شرمندگی اور اخلاق سے منع کردی۔

ایک ریڑھی پر پیلے پیلے موٹے آم دیکھے،تو رہا نہیں گیا۔ قیمت پوچھی تو بتایا بیس روپے کلو ہیں۔ پانچ کلو شاپر میں بند کروا کر فٹ ہاتھ پر آم کھانے بیٹھ گیا تو یہ دیکھ کر سر پرحیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ کہ دنیا کے واحد آم تھے جن میں گُھٹلی نہیں تھی۔ چھوٹے چھوٹے دانے تھے۔ سوچا بڑے شہر کے آم ایسے ہوتے ہوں گے۔ مگر جیسے ہی ایک قاش منہ میں رکھی تو آم پھیکا نکل آیا۔ بھاگ کر ریڑھی والے کے پاس گیا کہ آپ نے کیسے آم دیئے ہیں؟۔ تو پوچھا باس کہاں سے آئے ہو؟ جواب دیا کہ پشاور سے۔ ٹھیلے والے نے منہ کھول کر ایک زوردار قہقہہ مارا کہ یہ تو پپیتے ہیں۔ میں نے بھی جواباً قہقہہ لگا کر کہا،کہ معلوم ہے کہ پپیتے ہی ہیں۔ بس چسکے مسکے مارنے کا دل کررہا تھا۔

یونائیٹڈ ہوٹل صدر میں سو روپے کا کمرہ بک کرایا۔ اگلی صبح اپنے بیگ سے کالے رنگ کی سکن ٹائیٹ جینز نکالی، سفید کاٹن والا انڈرویئر اور سرِخ رنگ کی ٹی شرٹ ساتھ میں پہن لی۔ اُوپر سے کالا چشمہ لیا۔ آج ہم نے فیصلہ کیا کہ کراچی والوں کو شاہ رخ خان کے شہر پشاور کےاصلی والے مردانہ حسن کا جلوہ دکھاتے ہیں۔ صدر بازار میں گھومتے گھامتے ہر آنکھ گویا ہم پر ہی مرکوز تھی۔ ان سب پر اُچٹتی نگاہ ڈال کر مغرورانہ انداز سے آگے بڑھتا امپریس مارکیٹ پہنچ گیا۔ جہاں ہندو خواتین ماتھے پر تلک سجائے، ساڑھیاں پہنے زمین پر بیٹھی ڈرائی فروٹ بیچ رہی تھیں۔ میں بھی ان میں شلپا شیٹی ڈھونڈتے ہوئے ایک ایک کو غور سے دیکھنے لگا۔ جیسے ہی میں ان کے قریب جاتا۔ وہ شرما کر اپنا پلو منہ پر گرادیتی۔ مجھے اپنے حسن و وجاہت کا اندازہ تھا۔ لہٰذا اتنا نوٹس نہیں لیا۔ گھومتے پھرتے بوہری بازار کی طرف ہولیا۔ جہاں خواتین شاپنگ میں مصروف تھیں۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی بے اختیار مسکرا دیتیں اور منہ پھیر لیتیں۔اسی وقت میں نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے فلموں میں ایک کوشش ضرور کرلینی چاہیئے۔

خراماں خراماں چلتے ہوئے جوہری بازار کی طرف رُخ کرلیا۔مُنہ میں گولڈلیف دبائی ہی تھی کہ سامنے سے آتے ہوئی لڑکیوں کے ایک گروہ نے اُونچی  آواز میں قہقہہ لگاکر میری طرف دیکھا۔میں نے سر کو احتراماً خفیف سی جنبش دی  کہ سامنے سے آتی ہوئی ایک موٹی میمن عورت نے آواز لگائی “اوئے بھوسڑی جا پوتے جی پینٹ جی زپ تہ بند کری گن”۔
(ترجمہ شہنیلہ بلگم والا سے پوچھ لیں تو بتائیں گی کہ )
اوئے پاگل اپنی پینٹ کی زپ بند کردو۔

Advertisements
julia rana solicitors

2007ء میں دوسری بار کراچی اُترا۔تو فیصلہ کیا،کہ اب اسی شہر میں ہمیشہ کیلئے رہنا ہے۔ جس شہر میں ہماری پینٹ کی زپ کھلی رہ گئی تھی۔ اب بارہ سال بعد معلوم ہوا کہ ہمارے منہ کی زپ کون بند کریگا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply