اور چی گویرا نس گیا۔۔۔حسن کرتار

دیکھو میری بس ہو چکی ہے پاکستان واقعی میں جہنم ہے۔۔۔یہ تو خیر ایک دنیا جانتی ہے پر تمہاری بس کیوں ہوچکی ہے

یار ادھر کوئی زندگی ہی نہیں کوئی  لڑکی ہی نہیں کوئی پارٹی ،کوئی فن شن ،کوئی اینی تھنگ، اینی تھنگ نارمل کچھ بھی تو نہیں۔

بس کرو یار سب کچھ تو ہے ادھر۔ یہ ذرا جاؤ ناں بحریہ ٹاؤن بنی گالہ کینٹ شینٹ یا جہاں جہاں ہمارے دیسی ایلیٹ رہتے ہیں تمہیں پتہ چلے اصل پاکستان کیا ہے۔

او یار  پتہ ہے۔ بڑی پارٹیاں ماری ہیں۔ ۔ پر یہ بھی سب ایک مصنوعی سیٹ اپ نظر آتا ہے۔ لچر دیسی لوگ ہی ملتے ہیں وہاں۔ یہ ہمارے دیسی ایلیٹ بھی نام کے ہی ایلیٹ ہیں زیادہ تر ان میں بھی ذہنی مریض ہی ہیں۔ ان لوگوں کے چہروں پر مجھے عجیب گھٹن بے بسی نظر آتی ہے ۔جانے کیوں مجھے ان کی ہر حرکت مصنوعی نظر آتی ہے۔

تو پھر شادی کرلو۔۔۔۔۔

اسی سے ہی تو بھاگنا چاہتا ہوں۔ سینکڑوں دیسی رشتے ہیں پر کسی سے شادی کرنے کا من نہیں ہوتا

تو پھر کسی ولایتی سے کرلو۔۔

یار ان کے اپنے ایشوز ہوتے ہیں۔ یو نو بیٹر۔ ہاں پر کبھی کی تو شاید کسی ولایتی سے ہی شادی کروں۔ پر کیا پتہ چلتا ہے۔۔ فی الحال تو پاکستان سے غائب ہونے کا من ہے

اچانک سے یہ سب کیوں سوجھا۔ کل تو تم اس دیسی ماڈل کے قصیدے گا رہے تھے۔ لگتا ہے کچھ بنی نہیں۔۔

چھوڑو یار دیسی ونس دیسی فار ایور۔ یہ ایلیٹ بچیاں بھی ابھی انگریزی میں فر فر بکواس کرنا ہی سیکھی ہیں۔ یہ سارے لوگ بہت فلمی ہیں۔ مجھ سے بس اب اور نہ بلواؤ۔۔

یار نہیں ہو بتاؤ ناں ورنہ ہم کہاں سے کہانیاں گھڑیں گے۔۔

یار میرا خیال تھا اتنی انگریزی جو مارتی ہے کچھ سوچنے سمجھنے والی ہوگی پر یہ بھی وہی نکلی جس نے الٹا مجھے ہی بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دیا۔

تو وہ تمہاری جو ایک شاعرہ یا ادیب دوست تھی اس کا کیا بنا؟

وہ اب میرے خلاف نظمیں لکھ رہی ہے۔۔

تو تم میں بھی تو کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے۔ آخر تمہاری ہر لڑکی کے ساتھ کیوں نہیں بنتی؟

نہیں ایسا بھی نہیں۔ بنتی سب کے ساتھ ہے پر ویسی نہیں بن پاتی جیسی باقی معاشروں میں بننے کا چانس ہوتا ہے۔

سو سیڈ۔ تمہاری بدقسمتی ہی کہہ سکتا ہوں۔۔۔۔۔

کاش یہ صرف میری بدقسمتی ہوتی

تو اب کیا کروگے؟

فی الحال تو یہی سوچا ہے کچھ عرصے کیلئے کسی بھی غیر مذہبی ملک چلا جاتا ہوں آگے پھر ادھر جاکر ہی کوئی پلاننگ کرلوں گا۔ اس ملک میں کی تو کہیں میری پلاننگ بھی نحوست یا بدقسمتی کا شکار نہ ہو جائے۔

تم کب سے ان باتوں پر یقین کرنے لگ گئے؟

یقین میرا اب بھی کسی چیز پر نہیں۔ پر ان لوگوں نے مجھے تقریبا ً پاگل کر دیا ہے اب کبھی کبھی میرا بھی دل چاہتا ہے کہ کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ کر زور زور سے اذانیں دینے لگ جاؤں۔

اس سے کیا ہوگا۔ الٹا خواہ مخواہ کچھ فالورز مل جائیں گے۔۔۔

اس لئے تو یہاں سے بھاگ رہا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلو پھر رب کے حوالے “سانس ہے تو چانس ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply