کسی دور میں یہ کہاوت عام تھی کہ پاکستان دیہات میں بستا ہےمگر اب یہاں غربت بستی ہے۔عالمی بینک کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 80 فیصد غریب آبادی دیہات میں بستی ہے۔اس دوران وقت کے تقاضے بدلے ، لوگوں کو علاج معالجے سمیت تمام قسم کی جدید سہولیات کے حصول کے لئے شہروں کا رخ کرنا پڑاجس سے شہری علاقوں پر آبادی کا دباؤ بڑھا لیکن اس کے باوجود دیہات آج بھی حقیقی خوشحالی کے منتظر ہیں۔آج بھی دیہی علاقوں کے رہنے والے غریب سے غریب تر ہورہے ہیں جبکہ شہروں میں بھی عوامی اور بنیادی سہولیات کم سے کمتر ہوتی جارہی ہیں ۔ سہولیات کی کمیابی اور بڑھتی غربت نے شہری اور دیہی علاقوں کا فرق جیسے مٹاکر رکھ دیا ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں باقی ملک کے مقابلے میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہاں کی 62 فیصد دیہی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔البتہ صوبہ سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح کا فرق باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے یعنی 30 فیصد۔ اس کے برخلاف صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں دیہی اور شہری علاقوں کے فرق کی شرح بالترتیب 13اور 15 فیصد ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہات میں غربت کی شرح دوگنی ہے جو 18 کے مقابلے میں 36 فیصد بنتی ہے ۔ یہ فرق سن 2001 اور 2002 سے برقرار ہے یعنی اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔شہروں میں آباد لوگوں کے صرف 13 فیصدبچے مڈل اسکول تک پڑھ پاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح بھی دو فیصد کم ہے ۔دیہات کے 11فیصد بچے ہی پرائمری اسکول تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔ لڑکیوں میں یہ شرح بالترتیب 17 اور 14 فیصد ہے ۔ دیہی خواتین میں تعلیم کی شرح 28 فیصد ہے جو شہری علاقوں کے مقابلے میں آدھی سے بھی بنتی ہے۔رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں کے تین سال تک کی عمر کے صرف ساڑھے آٹھ فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کی سہولت میسر ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح 10 فیصد ہے ۔شہروں کی 28 فیصد مائیں بچوں کو اسپتالوں میں جنم دیتی ہیں جبکہ دیہی خواتین کی صرف 12 فیصد خواتین کوہی یہ سہولت حاصل ہے ۔ یعنی بہت بڑی تعداد میں مائیں گھروں میں بغیر کسی سہولت کے بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں ۔دیہی خواتین کے لئے اسپتالوں تک رسائی بھی باآسانی ممکن نہیں ۔زیادہ تر اسپتال دور دراز علاقوں میں واقع ہیں اس وجہ سے دیہی خواتین کو علاج معالجہ کی بنیادی سہولیات کے حصول کے لئے ایک لمبی جدوجہد، محنت اور تک و دو کرنا پڑی ہے۔صرف 15 فیصد دیہی علاقوں کو بجلی میسر ہے جبکہ قدرتی گیس بھی سو فیصد لوگوں کو دستیاب نہیںبلکہ 63 فیصد آبادی ہی قدرتی گیس کی سہولت سے فائدہ اٹھا پاتی ہے۔بلوچستان کا ضلع ایبٹ آباد سہولیات کے اعتبار سے نسبتاً بہتر ہے جہاں کی پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد آبادی خوشحال ہے جبکہ وارسک بلوچستان کا ایسا ضلع ہے جہاں کی 72 اعشاریہ 5 فیصد عوام غربت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے ۔صوبے کے 40 فیصد اضلاح کی اکثریت غربت کا شکار ہے جبکہ اس حوالے سے سندھ کا نمبر دوسرا ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صرف تین اضلاع غربت سے قدرے بچے ہوئے ہیں جبکہ سندھ کے دو اضلاع کراچی اور حیدرآباد خوشحال اضلاح میں شامل ہیں۔
لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ، ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے شہروں میں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں سہولیات نسبتاً زیادہ ہیں ۔ کراچی سن 2014 اور 2015 میں پاکستان کا تیسرا امیر ضلع شمار ہوتا تھا تاہم اس کے باوجود یہاں غربت کی شرح آٹھ اعشاریہ نو فیصد ہے۔ یہاں ملک کے ڈھائی فیصد غریب عوام رہتےہیں جبکہ لاہور چھٹا امیر شہر ہونے کے باوجود دو اعشاریہ دو فیصد غریب عوام کا مسکن ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں