سردیوں کا احترام کیجئے۔۔۔گل نوخیز اختر

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ لگ بھگ آدھا نومبر گذرجانے کے باوجود کئی لوگ سویٹر نہیں پہن رہے۔ گرم پانی سے نہیں نہارہے۔مونگ پھلی نہیں خرید رہے۔ پنکھے نہیں بند کر رہے۔ رضائیاں نہیں نکال رہے۔گرم کپڑے نکال کر دھوپ نہیں لگوا رہے۔خشک میوہ جات کی دوکانوں پر نہیں جارہے۔سوپ نہیں پی رہے۔اُبلے انڈے نہیں کھا رہے۔ائیرکولروں پر پلاسٹک شیٹ نہیں باندھ رہے۔ہیٹر نہیں چلا رہے۔جوشاندہ نہیں پی رہے۔دھوپ میں نہیں بیٹھ رہے۔کوٹ نہیں ڈرائی کلین کروا رہے۔لنڈا بازار کا چکر نہیں لگارہے۔دستانے نہیں خرید رہے۔ اونی ٹوپیاں نہیں لے رہے۔گھر کی چھت پر باربی کیو نہیں کررہے۔کپکپا نہیں رہے۔ دانت نہیں بجا رہے۔ہاتھ نہیں رگڑ رہے۔مٹھی بند کرکے پھونکیں نہیں مار رہے۔بھنے ہوئے چنے نہیں کھارہے۔تارے میرے کے تیل کی مالش نہیں کروا رہے اورموٹر سائیکل چلاتے ہوئے کسی ٹرک یا بس کے سائلنسرکا قرب بھی حاصل نہیں کر رہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق یہ خوفناک حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ابھی تک کئی نامعلوم افرادمالٹے بھی نہیں کھا رہے۔گاجریں بھی نہیں خرید رہے۔ مولیاں بھی نہیں ٹرائی کررہے۔مچھلی کی دوکانوں کا رخ بھی نہیں کر رہے۔گاڑیوں کے اے سی بھی نہیں بند کر رہے۔چادریں بھی نہیں لپیٹ رہے۔کمرے کی کھڑکیوں کے شیشے بھی نہیں بند کررہے۔۔۔اور تو اور دودھ جلیبی کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں موجودہ موسم میں مختلف اوقات میں ٹی شرٹس بھی پہنے دیکھا گیا ہے اور پھلوں کی دوکانوں پر آم کی ڈیمانڈ کرتے ہوئے بھی۔سورس بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ گنے کا رس بھی پیتے ہوئے پائے گئے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جو سرعام مینتھول والا صابن اور ٹوتھ پیسٹ خریدتے پھر رہے ہیں۔
یہ گستاخانِ سرما ابھی تک فریج کا پانی استعمال کر رہے ہیں۔انہوں نے ابھی تک چہرے پر لوشن بھی نہیں لگانا شروع کیا۔ ویزلین بھی نہیں خریدی اور چھت کے پنکھوں پر اخبار بھی نہیں چڑھایا۔دل کانپ رہا ہے لیکن تلخ بات بتائے بغیر چارہ بھی نہیں۔ تو لیجئے سنئے۔۔۔اندر کی خبر ہے کہ ایسے متعدد لوگ روزانہ نہا رہے ہیں۔ کچی لسی پی رہے ہیں اورتربوز کی تلاش میں بھی سرگرداں پائے گئے ہیں۔مجھے شک ہے کہ میرے محلے دار اشفاق بیٹریوں والے بھی اِن میں شامل ہیں کیونکہ کل وہ سیڑھی لگائے اپنے گھرکے اے سی کا آؤٹرچیک کر رہے تھے۔ گلی میں سے گذرتے ہوئے میری اُن پر نظر پڑی تو میں نے ڈرتے ڈرتے وجہ پوچھی‘ جواب ملا’’کولنگ نہیں کر رہا شائد گیس ختم ہوگئی ہے‘‘۔
یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد ابھی سردی شروع ہی نہیں ہوئی۔ اس بارے میں راسپوٹین نے کیا خوب کہا تھا’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘۔نومبر بے شک اپریل میں آئے اسے سردی کا مہینہ ہی سمجھنا چاہیے۔اس کی عزت کرنی چاہیے اور پورا پروٹوکول دینا چاہیے۔یاد رہے عظیم لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں یا سردیوں میں۔تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے سردیوں کی پرواہ نہیں کی وہ برباد ہوگئیں۔منکرینِ سرما کی یہ دلیل ہے کہ سردیوں میں دن چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔ لاعلموں کو یہ نہیں پتا کہ صرف دن ہی نہیں چھوٹے ہوتے۔۔۔سننا چاہتے ہیں تو سن لیں۔ بجلی اور پانی کے بل بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں۔اخراجات بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں۔دفتری اوقات بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔۔۔اور سب سے بڑی بات چھپکلیاں‘ کاکروچز اور دیگر حشرات الارض زیر زمین چلے جاتے ہیں۔
سردیوں کا احسان مانئے کہ یہ دوریاں ختم کرنے کا موسم ہے۔نومبر اورسردی کے مہینے کی اہمیت تو گیتوں اور شعرو ں میں بھی جابجا نظر آتی ہے۔ مثلاً’’اُسے کہنا نومبر آگیا ہے۔۔۔نیلے نیلے نومبر پہ چاندجب آئے۔۔۔بھیگا بھیگا سا یہ نومبر ہے۔۔۔میرے سردی کے دن کتنے اچھے تھے دن۔۔۔سردی آئی ہے آئی ہے سردی آئی ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔جن لوگوں نے ابھی تک سرما کا استقبال نہیں کیا اُنہیں اپنی فرینڈ ز لسٹ سے نکال دینا چاہیے۔ لیکن اس سے پہلے ایک کوشش کرلینی چاہیے، شائد یہ سدھر جائیں۔ میں نے اس مقصد کے لیے کئی دوستوں کو نہایت مفید لیکچر دیئے‘ سمجھایا کہ سردی آچکی ہے لہذا اب ہمیں قلفی گرم کر کے کھانی چاہیے۔ لیکن ظاہری بات ہے سر پھرے دوست ہیں، کہتے ہیں سردی کہاں ابھی تو بہار جیسا موسم ہے۔ یہ نالائق نہیں جانتے کہ یہ بہار بہت جلد بیمار کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ سردی آنا اور سردی لگنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ سردی تو آچکی ہے۔ میرے ایک کولیگ کا کہنا ہے کہ نومبر کی بجائے دسمبر میں جرسی پہنوں گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ چلو یکم نومبر سے نہ سہی‘ دس نومبر سے ہی جرسی پہن لو۔ اس نے کچھ سوچا ‘ پھر نفی میں سرہلادیا۔ میں نے پانچ دن مزید بڑھا دیے۔ اس کی طرف سے پھر انکار ہوگیا۔ اب کی بار میں نے دل پر پتھر رکھ کر بیس نومبر کی تاریخ دی۔ لیکن جب وہ اس پر بھی نہیں مانا تو میں بھی مایوس ہوگیا‘ اس سے زیادہ ’وارا‘ ہی نہیں کھاتا۔نومبر کی اتنی انسلٹ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔نومبر کے بارے میں توبڑے بڑے مفکرین کے اقوال موجود ہیں۔مثلاً ارسطو اپنی کتاب’مینوں ٹھنڈلگدی‘ میں لکھتا ہے ’سردی بہترین انتقام ہے‘۔
اصولی طور پر ہیلمٹ کی طرح یکم نومبر سے جرسیاں پہننے کی بھی پابندی ہونی چاہیے ۔جو بندہ سردیوں کی خلاف ورزی کرتا نظر آئے اس کے گھر ای چالان بھیجنا چاہیے۔ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنے والوں کو انعام دینا چاہیے جو ابھی تک کانجی پیئے جارہے ہیں۔میری تجویز ہے کہ ایسے گمراہ لوگوں پر دفعہ 10-11-18 کے تحت مقدمات درج ہونے چاہئیں جنہیں سردیوں کا کچھ احترام ہی نہیں۔غضب خدا کا یعنی ابھی تک بغیر جرابوں کے بوٹ پہن رہے ہیں اوردودھ سوڈے پیئے جارہے ہیں۔ریاست کو پوری طاقت کے ساتھ اِن سے نمٹنا چاہیے۔ملک میں فلو اور زکام کی بڑی وجہ بھی یہی لوگ ہیں کیونکہ انہی کی وجہ سے عام لوگ سردی لگنے کے باوجود شرمندگی کے باعث جرسی نہیں پہنتے۔لائقِ تحسین ہیں وہ لوگ جنہوں نے نہ صرف سردی کی آواز پر لبیک کہا بلکہ کپڑے استری کرتے ہوئے گرم شرٹ سے ہاتھ بھی سینکنے شروع کر دیے۔ یہ قیمتی لوگ جانتے ہیں کہ رضائی لینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تصور کیا جائے گویا رضائی کے باہر فائرنگ ہورہی ہے لہذاہاتھ ‘منہ ‘پیراور گردن سمیت سر کا کوئی بال بھی رضائی سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔ایسے لوگوں کی بدولت ہی سردیاں ہر دفعہ آجاتی ہیں ورنہ کب کی رخصت ہوچکی ہوتیں ۔ماشاء اللہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ایسے ہی ایک محترم دوکاندار کو دیکھ کر آرہا ہوں جنہوں نے اپنی لوہے کی کرسی کے نیچے چولہا رکھوا لیا ہے اور اب ہر گاہک سے انتہائی گرم جوشی سے پیش آرہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : یہ تحریر گل نو خیز اختر صاحب کی فیس بک وال سے لی گئی ہے !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply