حق مانگنا توہین ہے، حق چھین لیا جائے۔۔۔۔وقار احمد چوہدری

 دوسری جنگ عظیم کا آغاز 1 ستمبر 1939ء کو ہوا جب پولینڈ پر جرمنی حملہ آور ہوا اور برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جسکے نتیجے میں برطانیہ کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا یہ جنگ جہاں کروڑوں انسانوں کے لئے نقصان کا باعث بنی وہیں  برصغیر کی عوام کو آزادی ملی کیونکہ برطانیہ کی معیشت اس جنگ کی وجہ سے شدید کمزور ہو گئی تھی اور وہ جنوبی ایشیاء کو سنبھالنے سے قاصر تھا۔لہذا انگریزوں نے برطانیہ جا کر معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے انڈسٹری کا قیام عمل میں لایا۔ 1960 تک برطانیہ میں متعدد انڈسٹریز لگ چکیں تھیں اور لیبر کی کمی پوری  کرنے کیلئے بھارت سے انکار کے بعد پاکستان کو پیشکش کی گئی توحکومتِ پاکستان نے ملک کے مختلف علاقوں  میں معمولی سی تعداد کے ساتھ آزادکشمیر میں منگلا ڈیم کے سبب متاثرین کی ایک بڑی تعداد جو بے روزگار ہو چکی تھی کو برطانوی حکومت سے معاہدہ کر کے برطانیہ بھیج دیا۔ انگریزوں کی مختلف کامیاب پالیسیوں کی وجہ سے برطانیہ کی معیشت مضبوط ہوتی گئی وہاں مقیم متاثرین منگلا ڈیم نے شادیاں کیں، بچے ہوئے اور آج چوتھی نسل انگریزوں کے ملک میں پروان چڑھ رہی ہے ۔

نئی نسل میں لاکھوں میں سے چند ہی اپنی ماں بولی سمجھتے اور بولتے ہیں باقی سب انگریزی زبان ،ثقافت اور نظام کے گرویدہ ہو چکے ہیں اور پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے نظام سے بھی خائف ہیں ۔برطانیہ میں موجود کشمیری تقریباً دس لاکھ کی تعداد میں موجود ہیں۔جن کا سب سے بڑامطالبہ میرپور میں ائیرپورٹ کا قیام ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن مہم میں میرپور ائیرپورٹ بنانے کے وعدے کیے  اور حکومت بننے کے بعد وقت کے وزیراعظم چودھری مجید کی طرف سے اعلان ہوا کہ وفاقی گورنمنٹ نے میرپور میں ائیرپورٹ  بنانے  کا اعلان کر دیا  ہے ۔آصف زرداری صاحب کی طرف  سے اعلان کی چہ مگوئیاں سننے کو ملیں اور کہا گیا کہ میرپور میں ائیرپورٹ کیلئے مناسب زمینی رقبے کا تعین کرنا ہو گا ،جیالوں نے مبارکبادیں دینا شروع کیں اور ہر بات پر “بھٹو کی وجہ سے میرپور میں ائیرپور بننے والا ہے”اور “واقعی بھٹو زندہ ہے” جیسے جملے سننے کو ملے۔

  پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ  دور میں ائیرپورٹ کی خبریں گھڑ گھڑ کر سنائیں گئیں مگر جگہ کا تعین نہ ہو سکا اور پی پی کی حکومت کا اختتام ہو گیا ،مسلم لیگ  ن کے سابق قائد و سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے الیکشن مہم کے دوران میرپور ائیرپورٹ کا اعلان کیا اورمسلم لیگ ن کی گورنمنٹ میں پُل بنتا دیکھ کر سمجھدار کشمیری عوام نے اندازہ لگا لیا کہ یہ حکومت انفراسٹرکچر کے حق میں ہے لہذا انکے دور میں میرپور ائیر پورٹ ضرور بنے گا اسی لالچ میں عوامی مینڈیٹ ن لیگ لے اُڑی ۔حکومت بننے کے بعد مسلم لیگ ن کے سپوٹران نے ائیرپورٹ کی خبر مارکیٹ میں پھینک دی اسی اثنا ء  میں برطانیہ میں موجود کشمیری کمیونٹی نے حکومت کو پیشکش کی کہ انہیں ائیرپورٹ کی تعمیر میں شراکت دار بنایا جائے تاکہ حکومت کو انویسٹمنٹ کیلئے مشکلات نہ ہوں، پیشکش ہونے کے بعد شیروں کی طرف سے مبارکبادوں کا ایک نیا سلسلہ چل پڑا اور دماغ کی لسی بنا دی گی مگر ائیرپورٹ نہ بن سکا ۔

سابقہ دور کی ہر حکومت نے عوام کی ڈیمانڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے ائیرپورٹ کا چورن خوب بیچا اور پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں حکومت قائم کی ۔ عمران خان کی طرف سے وزارتِ عظمی سنبھالنے کے بعد بیرسٹر سلطان کو نو لفٹ کی وجہ سے کافی چہ مگوئیاں جاری تھیں مگر جلد ہی بیرسٹر سلطان نے عمران خان سے ملاقات کی جو پونا  گھنٹہ  جاری رہی اور ملاقات کے بعد خبر ایک مرتبہ پھر پھیلا دی گئی کہ میرپور میں ائیرپورٹ کی منظوری بیرسٹرسلطان نے عمران خان سے لے لی  ہے ۔اس خبر کے بعد کھلاڑیوں کی مبارکبادیں شروع ہو ئیں جو سابقہ دور کی یادیں تازہ کر گئیں ۔عمران خان نے اس وقت دیامیربھاشا ڈیم جیسے بڑے منصوبے کیلئے چندہ مہم کا آغاز کیا ہوا ہے وہ میرپور میں ائیرپورٹ جیسے مہنگے منصوبے پر توجہ نہیں دیں گے اور یہ پانچ سال بھی ایسے ہی گزر جائیں گے۔ میرپور کی عوام احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کو ناپسند کرتے ہیں اور پُر امن رہنا پسند فرماتے ہیں مگر سیاسی درجہ حرارت ہمیشہ عروج پر رکھتے ہیں، سیاست میں جنگ عوام کے حقوق کے بجائے ہمیشہ چند عناصر کے مفادات کی ہوتی ہے ،متاثرین منگلا ڈیم کو ڈیم کی تعمیر کے وقت مفت بجلی کا جھانسہ دیا گیا لیڈر شپ وعدہ خلافی پر خاموش رہی ۔اپ ریزنگ پروجیکٹ میں میرپور سے اسلام گڑھ اور میرپور سے چکسواری دو پُل دینے کا اعلان کیا گیا جبکہ عملی طور پر ایک کا منصوبہ لانچ کیا گیا مگر لیڈر شپ خاموش رہی۔

،16 سال سے میرپور سے اسلام گڑھ (رٹھوعہ ہریام) پُل کی تعمیر شروع ہے مگر تاحال پُل مکمل نہیں ہو سکا اور عوام میرپور سے چکسواری کے پُل کو بھول چکے ہیں ۔آئے روز اخبارات میں حکمرانوں سے اس پُل پر توجہ کیلئے التجائیں کرتے ہیں جبکہ متعلقہ احکام اپنی مستیوں میں مگن ہیں مگر لیڈر شپ خاموش ہے،مفت بجلی کو بُرا خواب سمجھ کر منی لندن کی عوام بھول چکی ،ائیر پورٹ کی خبریں سن سن کی تھک چکی شاید رٹھوعہ ہریام پُل کے منصوبے کو بھی بھول جائیں ۔

میرا سوال متاثرین سے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں جانے والے سیاست دانوں اور متعلقہ  حکام سے صرف اتنا ہے کہ کیا متاثرین منگلا کو قربانیوں کا صلہ دیا جارہا ہے یا ترسایہ  جارہا۔میرپور کی غیور اور بہادر عوام کو میرا بحیثیت ایک شہری اور ایک بیٹا یہ مشورہ ہے کہ

ہر طنز کیا جائے، ہر اک طعنہ دیا جائے

کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں رہا نہ جائے

تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی بیغام

Advertisements
julia rana solicitors

حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply