کیا سے کیا ہوگئے – کچھ پرانی یادیں۔۔۔۔ایم بلال ایم

ایسے ملتے جلتے واقعات تو کئی ہیں، فی الحال ایک  واقعہ  مختصراً سناتا ہوں۔ ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے کہ سیروسیاحت کے دوران ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو ہوتی رہی اور جب رخصت ہونے کا وقت آیا تو اُنہوں نے فیس بک آئی ڈی پوچھی۔ جواباً میں نے اپنی ویب سائیٹ کا پتہ بتا دیا کہ یہاں میرے اور رابطے کے متعلق ساری معلومات موجود ہے۔ خیر میرا بتانا تھا کہ صاحب نے مجھے سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا اور بولے ”پکی بات ہے ناں کہ mBILALm.com آپ کی ہی ویب سائیٹ ہے؟“۔۔۔ میں: ”جی بھائی میری ہی ہے“۔ اتنا سنتے ہی انہوں نے گلے لگایا اور بہت جوش و خروش سے دوبارہ ہاتھ ملایا۔ پاس کھڑے بندے کو آواز دی کہ یہ ذرا ہماری تصویر تو بنانا۔ پھر کہنے لگے ”اتنی دیر بات چیت ہوتی رہی مگر آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپ ’اردو والے بلال‘ ہیں“

دراصل ایک زمانے میں ہم اردو کی ترقی کے لئے دن رات کام کیا کرتے تھے۔ بلکہ جنون کی حد تک اور لگن سے کام کرتے۔ بتاتا چلوں کہ صرف میں ہی نہیں تھا بلکہ اور بہت سارے لوگ تھے جو اردو کی ترویج کے لئے اپنے اپنے انداز میں اپنے حصے کا دیا جلانے میں مصروف تھے۔ ہم سب ہر جگہ اردو لکھتے جیسا کہ اب بھی لکھتے ہیں، مگر تب تو ہر تحریر اور ہر ہر بات میں اردو کا ترویجی پیغام بھی شامل کر دیا کرتے۔ اردو کی ترقی کے لئے تکنیکی لحاظ سے جو کام کرتے سو کرتے تھے، مگر ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر شیئرنگ کے لئے رنگ رنگ کے بینرز بھی بناتے۔ انہی میں سے ایک آج پیشِ خدمت ہے۔ کوشش کروں گا کہ وہ پرانے بینرز جو صرف پیج پر شیئر کیے تھے، وقتاً فوقتاً پروفائل پر بھی شیئر کروں۔

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ عام ہونے والے دور کے شروع میں کئی لوگ تو یہاں تک کہہ چکے تھے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں اردو پیدا ہی نہیں ہو گی، جنازہ نکلنا تو دور کی بات ہے۔ دوسری طرف اردو کے رضاکاروں نے اپنے تئیں کام جاری رکھا اور ہمت نہ ہاری۔ شاید کئی لوگوں کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ جب سوشل میڈیا پر اردو نہ ہونے کے برابر تھی، تب کچھ لوگ اردو رسم الخط میں لکھتے تو بعض اُن کا مذاق اڑایا کرتے۔ خود احساسِ کمتری کے مارے لوگ الٹا اردو لکھنے والے کو کمتر جانتے۔ کئی گروپس میں رومن اردو تو قبول ہوتی مگر تحریر اردو رسم الخط میں ہونے کی وجہ سے ڈیلیٹ یا پھر نظرانداز کر دی جاتی۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ خیر جیسے تیسے وقت گزرتا رہا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ اردو نے اپنا لوہا منوایا اور کافی حد تک ”پاکستانی سوشل میڈیا کی عوامی زبان“ اردو بن گئی اور آج کل تو ماشاء اللہ کافی پھل پھول رہی ہے۔

ایک دن اچانک خیال آیا کہ میں نے کیا کھویا کیا پایا؟ پھر حساب لگایا تو باقی سب ایک طرف مگر اپنی جوانی کے آٹھ سال کا زیادہ وقت اردو کی ترویج میں گزارا ہے اور الحمد اللہ! مجھے اس کی خوشی ہے۔ اس حوالے سے میرے پاس اتنا مواد ہے کہ اگر لکھنے بیٹھوں تو اچھی بھلی کتاب بن جائے۔ خیر آٹھ سال گزارنے کے بعد یعنی تین سال پہلے مجھے لگا کہ اردو کے تکنیکی پہلو کی طرف جس کام سے آیا تھا، وہ کسی حد تک پورا ہو گیا ہے۔ ویسے بھی ٹیکنالوجی کے کئی ماہر لوگ اس شعبے میں آ چکے ہیں۔ لہٰذا اب وہ جانیں اور ان کا کام۔ جبکہ مجھے اپنے اصل مقصد یعنی لکھنے لکھانے اور دیگر شوق کی طرف لوٹ جانا چاہیئے۔ آج حیرانی بس یہ ہوتی ہے کہ ہم کیا لوٹے، بہت سارے اپنا بوریا بستر گول کر کے چل دیئے۔ حالانکہ ابھی تو بہت کام باقی تھا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے ایسا کونسا کام تھا جس کی وجہ سے میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج کی طرف آیا؟ اس متعلق تین سال پہلے ہی اپنے ایک بلاگ میں لکھ دیا تھا کہ جب مجھے لکھنے کا شوق ہوا تو دیکھا کہ جدید ٹیکنالوجی میں اردو کے حوالے سے قلم دوات ہی ٹھیک طرح تیار نہیں۔ حالانکہ اپنے لئے قلم دوات کا بندوبست پہلے سے کر چکا تھا مگر سوچا کہ میرا شعبہ کمپیوٹر سائنس ہے اور چاہے تھوڑا سہی مگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو کے لئے قلم بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہوں۔ یوں لکھنے کی بجائے اصل توجہ قلم بنانے پر ہو گئی۔ اردو کے لئے کام کرنے والے رضاکاروں نے کئی پرزے اور اوزار وغیرہ پہلے ہی تیار کر رکھے تھے اور پھر کچھ حصہ ہم نے ڈالا۔ یوں ایک طرف قلم دوات بننی شروع ہوئی اور دوسری طرف ہم نے صدا لگانی بھی شروع کر دی کہ جو جو لکھنا چاہتا ہے وہ قلم پکڑے اور اردو لکھنے پڑھنے والوں کے سنگ ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجھے اس طرح اردو کی ترقی کے لئے کام کرنا پڑے گا۔ حالانکہ میں تو لکھنا چاہتا تھا مگر قلم بنانے پر لگ گیا۔ بہرحال مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میری وجہ سے ہمارے لوگوں اور ہماری قومی زبان کو فائدہ ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اردو نے بھی مجھے بہت عزت دی۔ بڑے پیارے پیارے اور مخلص لوگوں سے دوستی ہوئی۔ کچھ وقت کے بہاؤ میں بہہ گئے اور کئی ابھی بھی ساتھ ہیں۔ خیر تین سال پہلے جب مجھے لگا کہ اردو کا یہ سلسلہ چل نکلا ہے اور میرا واپس اپنے شوق کی طرف لوٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ تب میں اپنے اصل شوق کی راہ پر چل نکلا۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کے بعد اردو کی ترویج کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ حتی المقدور کیا اور آج بھی ہر دم تیار رہتا ہوں۔ مگر اب انداز بدل لیا ہے۔ ویسے بھی اب ہم لکھتے لکھاتے… پھرتے پھراتے… فوٹواں بناتے اور موجاں مناتے ہیں ۔۔ مالک کا خصوصی کرم ہے۔ اک #منظرباز کو بھلا اور کیا چاہیئے؟؟؟
فصلِ گل ہے سجا ہے میخانہ
چل میرے دل کھلا ہے میخانہ

Facebook Comments

ایم بلال ایم
ایم بلال ایم ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اردو بلاگنگ کی بنیاد رکھی۔ آپ بیک وقت اک آئی ٹی ماہر، فوٹوگرافر، سیاح، کاروباری، کاشتکار، بلاگر اور ویب ماسٹر ہیں۔ آپ کا بنایا ہوا اردو سافٹ وئیر(پاک اردو انسٹالر) اک تحفہ ثابت ہوا۔ مکالمہ کی موجودہ سائیٹ بھی بلال نے بنائی ہے۔ www.mBILALm.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply