آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ اسلامک سکالر پروفیسر طارق رمضان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے فرانس میں دو خواتین کے ساتھ ’جنسی کھیلوں‘ میں شرکت کی تاہم اُن خواتین کا دعویٰ ہے کہ طارق رمضان نے انھیں ریپ کیا تھا۔
طارق رمضان کا کہنا ہے کہ ’سبمسیوو ڈومننٹ‘ طرز کے یہ جنسی تعلقات تمام شرکا کی مرضی سے قائم کیے گئے تھے۔
گذشتہ ایک سال سے جاری اس تنازعہ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پروفیسر رمضان نے ان جنسی تعلقات کا اعتراف کیا ہو۔ یاد رہے کہ انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے غیر معینہ مدت کی چھٹی لے رکھی ہے۔
فرانس میں تفتیشی افسران کے سامنے طارق رمضان کے بیان دینے کے بعد، ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ طارق رمضان اب آزاد ہیں اور اب وہ کھل کر بات کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ طارق رمضان سوئس شہری ہیں اور ان کے نانا مصر میں اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا تھے۔
ستمبر میں انھوں نے 10 گھنٹے تک جاری رہنے والے ایک سیشن میں ’کرسٹیل‘ نامی خاتون کا سامنا کیا تھا جنھوں نے ان پر ریپ کا الزام لگا رکھا ہے۔
یہ خاتون معذور ہیں (ان کی معذوری کی وجہ ایک کار حادثہ تھا) اور ان کا کہنا ہے کہ طارق رمضان اکتوبر 2009 میں انھیں فرانسیسی شہر لیون کے ایک ہوٹل میں ریپ کیا۔
تاہم طارق رمضان کے وکیل کا موقف ہے کہ اگرچہ اس جنسی تعلق کی نوعیت ’غالب اور محکوم‘ طرز کی تھی تاہم ان میں مکمل باہمی رضا مندی شامل تھی۔
الزام لگانے والی دوسری خاتون ہندا ایاری کے وکیل جوناس ہداد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ایک سال ہو گیا ہے کہ طارق رمضان کے وکلا ان کو بچانے کے لیے چکر بازی کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ انھوں نے پہلے دن سے ہی جھوٹ بولا اور ایک سال بعد انھوں نے اعتراف کیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کیا اب انھیں باقی چیزوں کا اعتراف کرنے میں ایک اور سال لگے گا؟‘
ادھر طارق رمضان کے وکیل کا کہنا ہے کہ دونوں خواتین کے موبائل فونوں سے ملنے والے پیغامات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تعلقات باہمی رضامندی کے ساتھ قائم کیے گئے۔
طارق رمضان کے خلاف جنیوا میں ایک سوئس خاتون کے ریپ کا بھی الزام ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں