بھتہ خور، محافظ اور مونگ پھلی ۔۔۔ حارث خان

 

“بات یہ نہیں کہ میں ڈر رہا ہوں۔ میں تو بس یہ سوچ رہا ہوں کے اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میرے بال بچوں کا کیا ہوگا”۔ اپنے دوست کے سامنے دل ہلکا کرتے ہوئے میرے آنسو رواں ہو گئے۔ میرا دوست مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کیوں نہ تم بھی اوروں جیسا کوئی محافظ تعیینات کرلو۔ ایک اسلحہ بردار ساتھ چلو گے تو کم سے کم جان کے جوکھم کا ڈر کم ہی رہے گا۔ دوست کی تجویز مجھے کچھ سمجھ آئی۔ اثبات میں سر ہلا کہ ہم دونوں ہی اپنے گھر کی راہ ہو لئے۔ راستے بھر جیسے اک دہشت طاری تھی کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور مجھے ابدی نیند سلا کر چلا جائے گا۔ ذہن میں جیسے ایک ہی بات گونج رہی تھی کہ اب ایک محافظ کا ہونا ضروری ہے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے نظریں چرا کر نیند کی آغوش میں کھونے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ سوالات کا سلسلہ ذہن کے ہر حصّے سے ابھررہا تھا۔ کیا کاروبار کرنا اتنا بڑا جرم ہے؟ کیا اپنی جان کے بدلے بھتے کے یہ پیسے دینا ضروری ہیں؟ سوچتے سوچتے بالآخر نیند آ ہی گئی۔ 

صبح نیند سے جاگا تو سیدھا ایک سیکورٹی کمپنی کے دروازے پردستک دے ڈالی۔ اپنا حال بیان کیا۔ اس کمپنی کے مالک ریٹائیرڈ صوبیدار نے مجھے تسّلی دی اور اپنا ایک جانباز سپاہی میرے ساتھ کر دیا۔ یہ سماج سیوا ہرگز نہ تھی۔ پورے ایک گارڈ پر مشتمل اس حفاظتی عملے کا مجھے اچھا خاصا پیسہ دینا پڑ رہا تھا۔ خیر جان بچی سو لاکھوں پائے۔ حالات ٹھیک چلتے رہے اور کچھ عرصے بعد دھمکیاں آنا بند ہوگئیں۔

اب کاروباری کھاتے کا حساب کرنے جب جب بیٹھتا مجھے یہ حفاظتی مد میں جاتے ہوئے پیسے برے لگنے لگے۔ پھر کیا تھا، پھر سے اسی سیکورٹی کمپنی کے مالک کے سامنے پیشی دے دی کے جناب اب حالات ٹھیک ہو گئے ہیں لہٰذا آپکی خدمات اب مزید درکار نہیں۔ جناب کچھ نہ بولے اور میں وہاں سے ہنسی خوشی چل دیا۔

کچھ دن ہی گزرے تھے کہ جیسے حالات پھر سے اسی راہ پے گامزن ہو گئے جہاں پہلے تھے۔ وہی دھمکیاں وہی پیسے کی طلبی۔ مرتا کیا نہ کرتا، گھوم پھر کر وہی ایک حل “محافظ “۔ اب تو جیسے وہ محافظ میرا حصّہ بن گیا تھا۔ ایک انسیت سی ہوگئی تھی اس محافظ سے۔ زندگی گزرتی گئی اور سیکورٹی کمپنی کو پیسے کی ادائیگی کرنا اب ایک عادت بن گئی تھی   وقت کے ساتھ ان کی فیس میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ 

ایک دن سکون سے خبرنامہ دیکھ رہے تھے کہ خبر چلی فلاں سیکورٹی کمپنی کا مالک کاروباری حضرات کو جعلی دھمکیاں دلواتا تھا تاکہ اس کا کام چلتا رہے۔ ذہن نے گوارا نہیں کیا کہ اچھا بھلا شخص بھلا کیونکر ایسا کرے گا؟ ابھی ہم اپنی خوش گمانی کی جھیل میں غوطہ زن تھے کہ اچانک ایک غیب سے آواز آئی، میاں “سپلائی اور ڈیمانڈ “۔ کیا تم خود مارکیٹ میں ایسے حالات نہیں پیدا کرتے کے تمہارا مال زیادہ بکے؟ کیا تم خود ایسے حالات پیدا نہیں کرتے کے تمہارا اپنا مال مہنگے داموں بکے؟ جب یہ سب عمل خود کرتے ہو تو اگلے کو کیا کوسنا۔ حالات کے خراب ہونے سے اگر اس سیکورٹی کمپنی کے مالک نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لئے تو کیا گناہ کر ڈالا۔ 

کچھ دن بعد میں اور میرا دوست بیٹھے یہی باتیں کررہے تھے۔ باتوں باتوں میں بات دور تک نکل گئی کہ فلاں ملک اتنا محفوظ ہے کہ وہاں نہ  پولیس ہے نہ فوج ہے نہ جیل۔ 

“ایک منٹ!” دوست مجھ سے مخاطب ہوا۔ “تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر حالات ٹھیک ہو جائیں اور کسی کو اپنے جان و مال کا خطرہ نہ ہو تو اک بہت بڑا طبقہ جو آپ کے جان و مال کے محافظ ہونے کا دعویدار ہے لیکن آپ دراصل کبھی محفوظ نہیں، یہ طبقہ اپنی حیثیت اور نوکری کھو سکتا ہے؟”

Advertisements
julia rana solicitors london

جواباً میں مسکرایا اور دوست سے کہا ایسی باتیں نہیں کرتے۔ سردیاں آچکی ہیں، آؤ مونگ پھلی کے مزے لیں۔ 

Facebook Comments

حارث خان
ایک عام آدمی، معاشرے کا چلتا پھرتا نمائندہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply