• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آئی ایس آئی: ایک معروضی تاریخی مطالعہ۔۔۔۔رشید یوسفزئی/حصہ اول

آئی ایس آئی: ایک معروضی تاریخی مطالعہ۔۔۔۔رشید یوسفزئی/حصہ اول

جاسوسی’ جسم فروشی کے  بعد انسانی تاریخ کا قدیم ترین پیشہ ہے. فرعون راعمیسس نے کادیش میں مخالف فوجوں کے دو جاسوسوں کو پکڑا. بائبل میں ذکر ہے موسی علیہ السلام نے کنعان پر اسرائیلی قبضے کی نظر سے دو جاسوس کنعان بھیجے۔ رومی سلطنت میں جاسوسی نے ایک شعبے کی حیثیت اختیار کی۔ پیغمبر اسلام صلعم نے مدینہ میں اسلامی جاسوسی نظام کی بنیاد رکھی۔کتب روایات کے مطابق جنگ خندق کے  دوران حضرت نُعیم کو آنحضرت ص نے باقاعدہ جاسوسی کیلئے بھیجا اور اسی طرح حضرت نعیم اسلامی تاریخ کے اولین پیشہ ور جاسوس تھے.

قرون وسطی کے عباسی اور خصوصاً فاطمی دور میں اسلامی جاسوسی اپنی انتہا کو پہنچی. اسماعیلی داعی حسن صباح نے جاسوسی کو لطیف و نفیس فن میں تبدیل کیا. اسماعیلی جاسوس اور فدائی خفیہ امور کی تکمیل میں معجزانہ استعداد اور بہادر ی کے مظاہرے کرتے. سنی ترک سلطان سنجر نے حسن صباح کی قلعہ الموط کا  قلع قمع کرنے کی غرض سے ایک لشکر جرار بغداد سے روانہ  کیا. ایک جگہ رات آئی. شاہی خیمہ میں کافور و مشک کے چراغ جل رہے تھے. باہر سینکڑوں سنتری کھڑے تھے. سلطان کی آنکھ بعد از نیم شب کھل گئی. سامنے   خط کیساتھ ایک خنجر زمین میں دھنسا ہوا  تھا۔ سلطان کے سامنے بے نیام خنجر نکالنا ممنوع تھا. اتنی جرات کس نے کی. سلطان پیغام سمجھ گیا. خط اٹھایا لکھا تھا، “من حسن الصباح الی سلطان سنجر۔۔۔۔ حسن صباح کی طرف سے سلطان سنجر کے نام۔۔۔ یہ زمین تمھارے  سینے کی بہ نسبت زیادہ سخت تھی. تاہم آج رات آپ کو مہلت ہے. یہاں سے واپس ہوجاؤ ورنہ دوسری رات نصیب نہ ہوگی!”۔۔۔

تفسیر کبیر کے مصنف امام فخرالدین رازی اپنے دوران تدریس اسماعیلیوں پر سخت نکتہ چینی کرتے تھے. شہرت و مقبولیت سے اپنے وقت کے عالم اسلام کے بے تاج بادشاہ تھے. بارہ سال سے ایک شاگرد ان عقیدت و خدمت کی بناء پر انکا خادم خاص بن گیا تھا. ایک دن بعد از عصر مختصر آرام کیلئے خلوت خانے گئے. اسی طالب خادم نے پیچھے آکر دروازہ اندر سے مقفل کیا اور خنجر نکال کر امام کے سینے پر چڑھے. امام رازی نے خوف و تحیر میں پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ طالب نے کہا تم ہمارے پیشوا پر تنقید کیوں کرتے ہو؟ امام نے پوچھا، مگر میں تیرا پیشوا نہیں؟ طالب نے کہا نہیں، میں حسن صباح کا جاسوس تھا جو  برسوں سے تم پر نظر رکھنے کیلئے مقرر تھا. آج حکم ملا کہ تجھے سمجھاؤں. امام رازی نے کہا. بس جان بخشی کرو. آئندہ اسماعیلیوں کے بارے ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا. طالب نے کہا صرف یہ نہیں ہمارا وظیفہ بھی لوگے. امام نے مجبوراً قبول کیا. اس کے بعد کبھی امام فخرالدین رازی نے اسماعیلیوں پر تنقید نہ کی. کسی نے پالیسی میں تبدیلی کی وجہ دریافت کی. جواب دیا، “آنہا برھان قاطع دارند. اسماعیلیوں کے پاس کاٹنے والی دلیل ہے”۔

یورپی نشاۃ ثانیہ کے  بعد اولین جاسوسی نظام ملکہ الزبتھ نے وضع کیا. لارڈ وال سنگھم Walsingham ملکہ الزبتھ بلکہ سلطنت برطانیہ کے جاسوسی نظام کے بنیانگزار تھے. الزبتھ کا نام جتنا انگریزی ادب اور ڈرامے کیلئے مشہور ہے اتنی انگریزی تاریخ میں خونریزی اور ظالم کیلئے. وال سنگھم، ملکہ الزبتھ کے  حکم پر قید میں کوئین میری آف سکاٹ کی خفیہ نگہبانی پر مامور تھا. میری کے  خطوط پکڑے گئے. زنجیروں میں لندن ٹاور لائی گئی. کٹارے سے سر جدا کرنے کیلئے بڑے  اطمینان اور متانت سے کوئین میری نے لکڑی کے بلاک پر سر رکھا. جلاد اناڑی تھا. پہلا وار خطا گیا. میری نے  اُف تک نہ کیا. دوسرے  وار کیساتھ منہ سے اوہ خداوند Oh, Lord کی آواز نکلی مگر وار پھر خطا ہوا. تیسرا  وار پھر سر دور جا گرا۔۔۔. کسی نے بالوں سے پکڑ کے اٹھایا. یہ بال وگ تھی. ملکہ کا سر زمین پر گر گیا .

تقدیر کی ستم ظریفی دیکھئے. جس تاج کے حصول میں میری آف سکاٹ Merry of Scott سر کھو بیٹھی، چند دن بعد الزبتھ کی موت پر وہی تاج کوئین میری کے بیٹے جان King James کے  سر کی زینت بنی. وہی کنگ جان جو بائیبل کی سب سے ادبی ترجمے Authorized Version کے محرک اول تھے. شیکسپیئر کے پیشرؤ اور انگریزی ڈرامے کا صحیح بانی کرسٹوفر مارلو بھی لارڈ وال سنگھم کادوران طالب علمی سے جاسوس تھا اور آخر لندن کے  ایک کیفے میں اسی جاسوسی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا. سر وال سنگھم کو برطانوی خارجی امور کے جاسوسی ادارے MI6 کا بانی مانا جاتا ہے.

یورپ کے  دوسرے  باضابطہ ادارہ Okhran زار روس نے انیسویں صدی کے اواخر میں تشکیل دیا جو کمیونسٹ انقلاب کے بعد CHEKA میں تبدیل ہوا۔۔ جو بالآخر کے جی بی KGB سے ہوتے ہوئے موجودہ FSB ایف ایس بی پر منتج ہوئی. اس کی معاصر و مقابل جرمن حکومت گسٹاپو تھی. دوسری جنگ عظیم کے بعد ابتدائی دو دہائیوں کو جاسوسی اداروں کی تشکیل کا ادارہ کہا جاتا ہے. امریکی ادارے Office Of Strategic Studies یا OSS کو صدر ہیری ٹرومین نے 1945 میں سی آئی اے Central Intelligence Agency میں تبدیل کیا. 1947 میں فرانسیسی حکومت نے اپنا  جاسوسی ادارہ  SDECE  تشکیل دیا. 1950 میں شہنشاہ ایران نے ساواک بنائی( مؤخر الذکر دونوں کو آئی ایس آئی کا رول ماڈل بتایا جاتا ہے. تاہم یہ بات غلط ہے تاریخی لحاظ سے دونوں کا آئی ایس آئی کا قابل تقلید نمونہ ہونا مشکل ہے) افغانستان کی خاد، خدمات اطلاعات دولتی، اسرائیل کی موساد، امن اور شین بٹ، وغیرہ تاریخ و کارہائے نمایاں دونوں  کے لحاظ سے بعد میں آتے ہیں جبکہ انڈیا کی را کافی بعد میں 1968 کو تشکیل میں آئی. ان تمام اداروں پر سینکڑوں کتابیں اور تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں جن میں سے اکثر  انگریزی   میں ہیں . تحریرہذا پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی ابتدائی تاریخ پہ  اردو میں اولین کوشش ہے.

پاکستانی خفیہ ادارے Inter Services Intelligence آئی ایس آئی کی بنیاد 1948 کو رکھی گئی. ادارے کی ضرورت کی  د وجوہات بیان کی  جاتی ہیں:!

1. اولین کشمیر جنگ میں آئی بی اور ایم آئی کی عدم ہم آہنگی کیوجہ سے ناکامی،

2. کچھ عالمی فوجی ماہرین کے مطابق برطانیہ اور روس کے درمیان The Great Game ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ برطانیہ کو روسی پھیلاؤ Expansion کو روکنے کی ضرورت تھی کیونکہ گرم پانی تک رسائی اور نو آزاد اسلامی مملکت بارے روسی ارادے درست نہ تھے.

کیا 1948 کی کشمیر جنگ آئی ایس آئی کے  قیام کا  باعث بنی؟ متعلقہ تاريخی دستاویزات کے مطالعہ سے عموماً یہی نتیجہ نکالا  جاتا ہے کہ نو آزاد ہمسایہ ممالک میں کشمیر کے علاقائی الحاق پر جو اولین جنگ وقوع پذیر ہوئی اس میں پاکستان کو نقصان، جنگ کی بنیادی اطلاعاتی تجزیے کے فقدان کی وجہ سے ہوا ۔تاہم مذکورہ جنگ میں دونوں کا  نقصان برابر تھا. سنہ 1948 کے  اختتام پر فرنٹ لائن تقریباً وہی تھی جو آج کی لائن آف کنٹرول ہے، جہاں عموماً دونوں طرفین کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ معمول بن گیا ہے. پاکستانی افواج کو اس ابتدائی جنگ میں بلکل ایسی شکست نہیں ملی جو بڑھا چڑھا کر تاریخ کے واقعات میں بیان کیا جاتا ہے. آزاد کشمیر پاکستان کے قبضے میں موجود ہے، گلگت بلتستان کا  موجودہ صوبہ، جسے ناردرن ایریاز کے نام سے زیادہ شہرت ملی پر 3 نومبر 1947 کو گلگت سکاؤٹس نے پاکستانی پرچم لہرا کر پاکستان کے  قبضے میں لایا. اسی طرح پاکستان کو اس سابقہ پرنسپلٹی کے تین چوتھائی رقبے پر قبضہ حاصل ہوا  جو ایک واضح کامیاب فوجی کارروائی تھی. آج پاکستان سابق ریاست جموں و کشمیر کے تقریباً 32 فی صد حصے پر قابض ہے، جبکہ 48 فی صد رقبہ انڈیا اور تقریباً 20 فی صد حصہ اکسائی چن کا چین کے کنٹرول میں ہے۔

گریٹ گیم Great Game کے باقیات بھی، کشمیر جنگ کے نتائج کے ساتھ ہی آئی ایس آئی کے قیام کا  باعث ہوسکتا ہے . کسی حد  تک سابق سامراجی طاقت برطانیہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر روسی جارحانہ عزائم بارے پریشان تھی اور سنٹرل ایشیا اور جنوبی و مغربی ایشیا کی  اطلاعات میں دلچسپی رکھتی تھی. اس لئے برطانیہ کسی مضبوط جاسوسی ادارے کی  تلاش میں تھا  جو حال و مستقبل کی اطلاعات و واقعات پر گرفت رکھ سکے. دونوں وجوہات کا خلاصہ برطانوی راج کے دوران سیکرٹری داخلہ اور بعد میں پاکستان کے مختلف صوبوں کے گورنر سر فرانسس مودی کے اس خط میں ہے جو اس نے لکھنؤ میں ایک دوست کو لکھا. سر فرانسس مودی کے الفاظ میں
The facts of the situation are that Pakistan is situated between hostile– a very hostile– India on the one side and…….an expansionist and unscrupulous Russia on the other. As long as the relations between Pakistan and Britain are good and Pakistan remains in the Common Wealth an attack by Russia–and also I am inclined to believe an attack by India– on Pakistan brings in the UK and the USA on Pakistan’s side.

حالات کے حقائق یہ ہیں کہ پاکستان ایک طرف ایک دشمن…. سخت دشمن… انڈیا اور دوسری  طرف توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے منافق روس کے درمیان واقع  ہے. جب تک پاکستان کے برطانیہ سے تعلقات بہتر ہیں اور پاکستان دولت مشترکہ میں  ہے  تو روس کی طرف سے۔۔ اور میرے خیال میں انڈیا کی طرف سے بھی۔۔ کسی حملے کی صورت میں برطانیہ اور امریکہ پاکستان کے طرفدار ہونگے.

وجوہات جو بھی ہوں، آئی ایس آئی کی بنیاد جنوری اور جون 1948 کے  درمیان میجر جنرل والٹر جوزیف کاتھارن Walter Joseph Cawthorne نے رکھی.( آغاز سے لیکر حسین حقانی تک ہر مؤرخ نے آئی ایس آئی کے اس نیم گمنام بانی کا نام غلط لکھا ہے) جنرل کاتھارن آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں پیدا ہوئے. چند ایک مؤرخین کے مطابق آسٹریلوی نژاد یہودی تھا. انٹیلی جنس میں انتہائی مہارت رکھنے والے اس مستقبل کے پاکستانی میجر جنرل نے پہلی جنگ عظیم میں آسٹریلوی فوج کیساتھ ترکی کے مشہور گالی پولی کی لڑائی اور اس کے بعد فرانس اور بلجیئم کی  لڑائیوں میں شرکت کی. 1919 میں اس نے برطانوی انڈین فوج British Indian Army میں شمولیت اختیار کی. 1930 سے 1935 تک موجودہ خیبر پختونخوا کے مہمند ایجنسی میں مہمند قبائل کے خلاف لڑا اور پانچ سال اس  سخت جان پشتون قبیلے میں گزارے.

دوسری  جنگ عظیم میں(1939-41 )مڈل ایسٹ انٹیلی جنس سروس کا سربراہ مقرر ہواا. اسکے بعد انڈین کمانڈ کے ڈائریکٹر انٹیلی جنس(1941-45) اور پھر جنوبی مشرقی ایشیا کمانڈ کا ڈپٹی ڈائریکٹر انٹیلی جنس مقرر ہوا. تقسیم ہند کے بعد کچھ قابل لوگوں نے پاکستانی شہریت کو ترجیح دی. ان میں قابل ذکر ایک آتش پرست جنرل سام مانک شاہ تھا جو بعد میں سقوط بنگال کے دوران انڈین آرمی کا چیف تھا اور ایک انڈین ایٹمی پروگرام کا بانی ڈاکٹر جے پی عبد الکلام. دونوں کو مفاد پرست پاکستانی اربابان بست وکشاد نے مسترد کیا. انڈیا چلے گئے اور آرمی چیف اور صدر تک بن گئے. نئی اسلامی مملکت پاکستان میں رہنے والے غیر ملکی فوجی افسران میں ایک میجر جنرل جوزیف کاتھارن تھا جسے 1951 ترقی دیکر پاک فوج ڈپٹی چیف سٹاف بنایا گیا. آئی ایس آئی امور کے انڈین ماہر بھورے لال نے جنرل کاتھارن کے بارے میں لکھا ہے۔
General Cawthorne developed the blueprint for the structure and functions of ISI, as of other inter services organizations. He had opted to serve with the Pakistan Army after independence as Deputy Chief of Staff, with his headquarters in the ministry of defense in Karachi. He was a close confidant of Maj. General Sikandar Mirza, who was then serving as Defense Secretary, and General(later Field Marshal) Ayub Khan, first Pakistani C-in-C of the Army. Gen. Cawthorne served as a liaison between the Ministry of Defense and the three Services Headquarters.

آرمی کی زندگی 1951 میں چھوڑنے کے بعد بھی جنرل کاتھارن کی پاکستان سے وابستگی ختم نہیں ہوئی. کچھ عرصے کیلئے آسٹریلیا کی وزارت دفاع کے جائنٹ انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر رہنے کے بعد وہ پاکستان میں آسٹریلیا کا اولین سفیر مقرر ہوا. جنرل کاتھارن کی آخری تعیناتی کینیڈا میں 1969-60 میں بطور آسٹریلیا کے سفیر کی تھی. انٹیلی جنس دنیا کا یہ نابغہ اور مستقبل میں پاکستان کے سب سے طاقتور انٹیلی جنس ادارے کا یہ بانی 1970 میں آسٹریلیا میں وفات پاگیا.

جرنل کاتھارن کے بعد اس ادارے کا سربراہ ہمیشہ آرمی کا حاضر سروس افسر رہا(سوائے بے نظیر بھٹو کے اول دور کے جنرل ریٹائرڈ شمس الرحمن کلو کے جو حمید گل کا جانشین بنا اور جس کی تقرری کو بے نظیر بھٹو نے اپنی سب سے بڑی غلطی تسلیم کیا.( تفصیل آگے آرہی ہے). ادارے کے مختصر عملے اور دائرہ کار کے  تناسب سے  کاتھارن اس  کے اولین جانشین بریگیڈیئر رہے.( سوائے ایک استثنا کے. مئی 1951 سے اپریل 1953 تک جب کرنل محمد افضل ملک ڈی جی آئی ایس آئی رہے) پچاس کی دہائی تک اس عہدے کی مدت دو سال ہوتی تھی ) اولین طویل المدت سربراہ بریگیڈیئر ریاض حسین 1959 میں تعینات ہونے سے چھ سال تک رہے. اولین دو دہائیوں میں بریگیڈیئر سید شاہد حامد، بریگیڈیئر مرزا حامد حسین، کرنل محمد افضل ملک، بریگیڈیئر سید غواث(بعد میں گورنر خیبر پختون خوا)، بریگیڈیئر شیر بہادر، بریگیڈیئر محمد حیات، اور بریگیڈیئر ریاض حسین(1959-66) بالترتیب مقرر ہوئے۔

جیسا کہ اس سے قبل ذکر ہوا ۔۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایس آئی کا خاکہ ایران کے جاسوسی ادارے ساواک SAVAK یا فرانس کے SDECE سے لیا گیا ہے تاہم ساواک 1950 اور  فرانسیسی ادارہ 1947 میں وجود میں لائے گئے اس لئے دونوں کا آئی ایس آئی کیلئے خاکہ ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے. پاکستانی ماہرین دفاعی امور کی اکثریت کی رائے میں British Secret Intelligence Service یا ایم آئی 6 اور امریکی ادارہ سی آئی اے ہی  آئی ایس آئی کے   بنیادی بلوپرنٹ تھے۔

پاکستان کے اس نو تشکیل شدہ ادارے کی ذمہ داری تھی پاکستان کی  حدود سے باہر انٹیلی جنس امور کی تعمیل کے ساتھ باہر دنیا میں پاکستانی ملٹری اتاشیوں کی تعیناتی کیلئے منصوبہ بندی اور ان کی  وزارت خارجہ سے ہم اہنگی تھی. ملک کے اندر شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کے علاوہ آئی ایس آئی کو کوئی انٹیلی جنس مینڈیٹ حاصل نہ تھا .
ادارے کے اعلی حکام کی  مرضی کے خلاف آئی ایس آئی کو ملک کے داخلی اور سیاسی امور میں مداخلت پر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے مجبور کیا.

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply