سوشل میڈیا کے شرپسند اور حفاظتی تدابیر ۔۔۔ معاذ بن محمود

بچپن میں “قلمی دوستی” کا نام سن کر عجیب سا لگتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے ایک مصنوعی رشتہ ہے جو استوار کیا جاتا ہے۔ جو دوست قلمی دوستی کی اصطلاح سے نابلد ہیں ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ قلمی دوستی اصلی یا فرضی نام سے بذریعہ خط و کتابت گفتگو کو کہا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی تک جب انٹرنیٹ، موبائل فون وغیرہ ناپید تھے، قلمی دوستی جیسے تصورات غیر حقیقی اور غیر عملی محسوس ہوتے تھے۔ 

پھر ٹیکنالوجی نے انگڑائی لی اور انٹرنیٹ مختلف ممالک سے ہوتا شہروں، قصبوں، گاؤں دیہاتوں اور پھر ہمارے ہاتھوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ پرسوں موٹا (ایک انمول جگری) فخر سے بتا رہا تھا کہ “یار میں نے لیمپ خریدا سوق ڈاٹ کام سے مجھے پتہ ہی نہیں تھا اسے میں دفتر سے بیٹھ کر آن آف کر سکتا ہوں”۔ (مچھر، ایک اور انمول جگری یہ بات غالباً مس کر گیا ورنہ اگلے پندرہ منٹ موٹے نے کافی پچھتانا تھا)۔ 

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ قریب قریب ایک ہی ساتھ دنیا میں پھیلے ہیں۔ یعنی جیسے جیسے انٹرنیٹ تک رسائی آسان ہوتی گئی ویسے ویسے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا تک صارف کی پہنچ آسان ہوتی گئی اور ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا ان تمام خصوصیات کو حاصل کرتا رہا جو ایک عام سے صارف کی دلچسپی کے لئے کشش کا سامان رکھتی تھیں۔ نتیجتاً وہ سوشل میڈیا جسے ابتداءً امریکی یونیورسٹی کے طلباء و طالبات استعمال کیا کرتے تھے، آج خادم حسین رضوی سے لے کر جبار اگربتی والے تک کے خیالات دنیا میں بکھیر رہا ہے۔ 

سوشل میڈیا صرف سوشل ہوتا تو بات نہ بڑھتی یا صرف میڈیا ہوتا تو عام آدمی کو خاص بنانے کا مؤجب نہ بنتا۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ میرے اور آپ جیسے عام آدمی کے معاملات کو بطور میڈیا نمائش کے لیے پیش کر دیتا ہے۔ یعنی میرے محدود دائرۂ خیال پر آپ کا ردعمل جو اس دائرے کو وسیع کرتا ہے اور پھر ہماری گفتگو پر دوسروں کا اظہار رائے جو اسے وسیع تر کرتا رہتا ہے۔ یوں اس اظہار خیال کی حالات حاضرہ اور عوامی دلچسپی کے امور سے مطابقت رکھنے کے باعث یہ باتیں زبان عام بھی ہوجاتی ہیں جسے سوشل میڈیا کی اصطلاح میں “وائرل” ہونا کہا جاتا ہے۔ 

یہاں یہ بات اہم ہے کہ وائرل ہونی والی کہانی اچھی بھی ہوسکتی ہے، بری بھی اور اس کے مثبت و منفی دونوں اثرات ہوسکتے ہیں۔ مشال خان کا اپنی چند پوسٹس اور کمنٹس کی بنیاد پر بہیمانہ قتل سوشل میڈیا کے منفی اثر کی مثال ہے جبکہ اسی قتل کے خلاف عوام کا احتجاج ایک مثبت اثر۔ 

مچھر، میرا مذکورہ لبگوٹیا، ناصرف ایک (کمینہ مگر) محبت کرنے والا دوست ہے بلکہ مقامی حلقہ احباب میں واحد آدمی ہے جسے میں منطق پر بات کرنے کے قابل سمجھتا ہوں۔ وہ اکثر ایک بات کہا کرتا ہے کہ “لکھنے والے پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اسے اپنی رائے قائم کرنے کو استعمال کرتا ہے”۔ یوں لکھنے والا کسی نہ کسی طرح معاشرے میں افراد کی تشکیل میں حصے دار ضرور بنتا ہے۔ میں اس بات سے ناصرف پوری طرح متفق ہوں بلکہ اس کے چند عملی مظاہرے بھی دیکھ چکا ہوں۔ مضمون کی روح پر آنے سے پہلے چند ایک واقعات گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ 

چند ماہ قبل میں نے مختصر افسانہ نگاری کا تجربہ شروع کیا۔ میری پہلی کہانی کامیاب ثابت ہوئی اور ہزاروں لوگوں نے پڑھی۔ اس کے بعد چند اور کہانیاں بھی قارئین کرام نے پسند کیں۔ میں پراعتماد ہوگیا۔ پھر میں نے ایک اور کہانی لکھی جس میں میرے ہاتھوں بغیر کسی فکری بدنیتی یا تعصب، بدفعلی میں ملوث ایک مذہبی کردار تخلیق ہوگیا۔ “ہوگیا” یوں کہ پچھلے پندرہ سال میں نے مختلف نظریات گھوم پھر کر ایک آزاد سوچ کی جدوجہد میں کسی بھی شخص، کردار یا نظریے سے عشق یا نفرت کی بجائے اس کے فوائد و نقصانات پر نظر رکھنے کی پریکٹس کی ہے۔ اسی لیے ملائیت سے نفرت جو دس سال پہلے موجود تھی، اب نہیں رہی۔ اب شدت میں پسند مولوی کو بھی ایک جذباتی شدت سے مغلوب انسان کے طور پر دیکھتا ہوں جس سے مکالمہ کیا جائے تو اسے ایک نارمل انسان بنایا جاسکتا ہے۔

مولوی کا بدفعل کردار کسی بھی بغض کی تحت نہیں بس کہانی کے ایک کردار کے طور پر تحریر کیا۔ یہ کہانی بیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے پڑھی۔ میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ایک واقعہ ایسا بھی ہوا جو میرے، ہماری سائیٹ کے مدیر اعلی انعام بھائی کے، اور ہمارے خاندانوں کے لیے اذیت بن گیا۔ چند شدت پسند افراد نے پوری کہانی اور مرکزی خیال کو چھوڑ کر مولوی کے کردار کو پکڑ لیا اور اسے لے کر ہمارے خلاف لعنتوں، گالیوں اور قتل کی دھمکیوں کا ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر ڈالا۔ صرف یہیں تک نہیں بلکہ انعام بھائی کی والدہ اور میری بیٹی کی تصویر لے کر ان کے ساتھ ایسی واہیات خرافات لکھی گئیں جسے میں پڑھ نہ سکا۔ میری آئی ڈی رپورٹ کی گئی اور مجھے چوبیس گھنٹے کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ 

میرے لیے یہ مکمل طور پر غیر متوقع تھا۔ مجھے رتی برابر بھی اس قسم کے منظرنامے کا ادراک ہوتا تو میں کہانی لکھتا ہی ناں یا مرکزی خیال بدل لیتا۔ سبق یہ ملا کہ بھلے میری کہانی اچھی تھی یا بیشک جو لکھا گیا وہ معاشرے کی حقیقت کے قریب ترین تھا اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ابھی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور جذبات میں آکر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ موب جسٹس یا مجمع کا انصاف سوشل میڈیا پر بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا حقیقی زندگی میں۔ مشال خان کے کیس میں یہ “انصاف” سوشل میڈیا سے ہوتا ہوا حقیقی زندگی میں پہنچا اور پھر مشال کے قتل کی صورت میں اپنے غیر منطقی غیر انسانی انجام کو پہنچا۔ 

اس واقعے کے بعد میں اپنے جگری مچھر کے خیالات سے مزید اتفاق کرنے لگا اور اب مزید ذمہ داری سے لکھتا ہوں۔

اور اب قمر نقیب خان کی احمقانہ حرکت۔ جن دوستوں کو معلومات نہیں ان کے لیے لکھ دیتا ہوں کہ قمر نقیب نے ایک جعلی فیس بک پروفائل کے ذریعے مکالمہ کے مدیر اعلی اور لندن میں وکالت کے پیشے سے وابستہ انعام رانا کی تصویر لگا کر عنوان دیا کہ یہ ہے وہ وکیل جس نے آسیہ کا کیس لڑا اور اسے رہائی دلوائی۔ یہ حرکت عین اس دن کی گئی جس دن آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ آیا یوں گرم لوہے کو سرد مہری کے ساتھ چوٹ ماری گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ قمر نے آنچل خان کی پروفائل سے یہ تصویر مختلف عدلیہ مخالف گروپس میں بھی شئیر کی۔ نتیجہ اگلی صبح انعام بھائی کے انباکس میں گالیوں سے لے کر قتل کی دھمکیوں تک میں نکلا۔ مزید غلط حرکت یہ کی کہ اپنی حرکت کا الزام امارات میں رہائش پذیر ایک شخص پر لگایا جس کے خلاف قانونی کاروائی اپنے آخری لمحات میں موقعف کی گئی۔ 

ان تمام واقعات کی جڑ دراصل سوشل میڈیا پر کوئی بھی پوسٹ، کمنٹ، تصویر یا ویڈیو شئیر کرنے کا طریقہ کار ہے جس کے تحت صارف کی جانب سے شائع کردہ مواد اس کی پروفائل سے منسلک دوسری پروفائلز یعنی عزیز و اقارب تک قابل رسائی ہوجاتا ہے۔ یوں آپ کی ذاتی معلومات، آپ کی پوسٹ اور کمنٹ کی شکل میں ذاتی خیالات، پسند ناپسند کی بنیاد پر آپ کے لائن شدہ پیج وغیرہ سب ان دوسری پروفائلز کی دسترس میں آجاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ ہر کسی کو یہ بتانا پسند نہیں کریں گے کہ آپ جاکی کا زیریں جامہ پسند کرتے ہیں یا کسی اور برانڈ کا۔ 

چونکہ مارک زکربرگ کی ٹیم نے کسی بھی پروفائل کو اپنے عزیز و اقارب کی فہرست میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا ہے لہذا چند “بیسٹ پریکٹسز” یا اصول وضع کیے جانا بہت اہم ہے جن کے تحت کسی کو فرینڈ لسٹ میں شامل کرنے یا نہ کرنے، کسی کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاسکے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جس کے تحت میری ٹائم لائن دسمبر 2006 سے آج نومبر 2018 تک سوائے ایک ناخوشگوار واقعے کے پرامن ہے۔ اوپر بیان کیے گئے ایک واقعے کے بعد میں نے اپنے اصولوں کو مزید بہتر کیا اور آخری ورژن وضع کیا جو درج ذیل ہے۔ 

۱۔ پروفائل میں دیا گیا نام اصلی ہو۔ پاپا کی پرنسز اور ڈیڈی کے شہزادوں کے ساتھ اپنی نجی تفصیلات شئیر کرنے سے گریز کیجیے۔ 

۲۔ ڈسپلے پر لگائی گئی تصویر انسانی ہو، اور گمان کی حد تک اپنی ہو۔ یعنی عبد الجبار نامی پروفائل پر آرنلڈ شوارزنیگر کی تصویر نہ لگی ہو۔ یا نکول شرزنگر کی تصویر رشیدہ خانم کے نام سے نہ ہو۔ 

۳۔ پروفائل حال ہی میں نہ بنی ہو۔ یہ معاملہ خاص کر اس وقت بہت اہمیت کا حامل بن جاتا ہے جب حالات حاضرہ کے کینوس پر کوئی تازہ اہم واقعہ پیش آیا ہو۔ 

۴۔ پروفائل میں مواد بندے کا اپنا تحریر شدہ ہو۔ صرف کاپی پیسٹ یا شئیرنگ والی پروفائلز ہوں بھی تو کم از کم ان کے کمنٹس مختلف جگہوں پر نظر ضرور آتے ہوں۔ 

۵۔ میوچول فرینڈز کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی اتنی پروفائل کو مثبت وزن دیا جائے۔ یہ بات اس حقیقت کا اظہار کرتی ہے کہ آپ کے علاوہ کس کس نے اس پروفائل پر بھروسہ کیے رکھا ہے۔ تاہم بعض اوقات یہ اصول اتنا اہم ثابت نہیں ہوتا۔ 

۶۔ پروفائل ہر قسم کی شدت پسندی سے پاک ہو۔ یعنی کمیونسٹ ہے تو “ڈیتھ ٹو کیپٹلزم” کا نعرہ متشدد سوچ ہے، لبرل ہے تو “ملائیت ایک ناسور” بھی ناقابل برداشت ہے۔ 

۷۔ پروفائل میں دوستوں کی تعداد پچاس سے اوپر ہو تو بہتر ہے۔ نئی یا فیک ہونے کے چانس کم ہوں گے۔ 

۸۔ مرد کی پروفائل ہے تو تمام فرینڈز خواتین نہ ہوں۔ سخت قسم کے سٹاکر یعنی تاڑو ہونے کا احتمال ہے۔ 

۹۔ پروفائل کے فرینڈز دکھائی دے رہے ہوں تو وہاں بھی پاپا کی پرنسز اور ماما کے لاڈلوں کی تعداد کم سے کم ہو۔ 

۱۰۔ تصاویر میں اسلحے کی نمائش نمایاں نہ ہو۔ کسی مجاہد یا غنڈے کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے۔ 

۱۱۔ پروفائل کسی ایک سیاسی جماعت کی اندھا دھند مقلد نہ ہو۔ یعنی ہر دوسری پوسٹ کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں نہ ہو۔ بعد میں پچھتاوا ہوگا۔ 

۱۲۔ پروفائل کسی ایک سیاسی جماعت کی اندھا دھند مخالف نہ ہو۔ ہر دوسری پوسٹ کسی ایک سیاسی جماعت کے خلاف ہو تو نفرت آمیز مواد آپ کی ٹائم لائن کو بدبودار بنا دے گا۔ 

۱۳۔ اگر آپ پاکستانی ہیں پاکستان میں رہائش پذیر ہیں اور ریکویسٹ تھامس جان بروملے کی ہو تو قبول مت کیجئے۔ کچھ غلط ہے۔ 

۱۴۔ نفرت آمیز مواد یا کسی بھی قسم کی دھمکیوں سے مزین پروفائل کو ہرگز قبول مت کیجیے۔ زندگی خوبصورت ہے اور نفرت بدصورت ہوتی ہے۔ 

۱۵۔ کسی بھی اجنبی کی جانب سے کسی بھی قسم کے ذاتی سوالات پر اپنا شکی راڈار فوری آن کر لیں۔ کوشش کریں کہ ایسے شکاریوں سے دور رہیں۔ 

۱۶۔ سوشل میڈیا پر حتی الامکان اس پر بھروسہ رکھیے جس سے باالمشافہ ملاقات ہوچکی ہو یا ہونی ہو یا ہو سکے۔ ایسے لوگ جو ملاقات سے کترائیں ان پر مکمل بھروسہ نہ کریں۔ آف کورس ہمارے معاشرے کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین اس اصول سے مبرا ہیں۔  

۱۷۔ سوشل میڈیا پر پیسے کا لین دین ہرگز ہرگز مت کیجئے تاوقتیکہ آپ بندے یا بندی سے مل چکے ہوں یا ذاتی طور پر جانتے ہوں۔ پھر لین دین کرنے والا اپنے تئیں کتنا ہی معتبر بندہ یا اس کی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ کسی کی مدد کرنی ہو تو پتہ لیجیے اور خود اپنے ذرائع سے امداد کیجئے۔ یہ بھی صرف اسی وقت جب آپ پہلے ہی اپنے آس پاس کے مستحقین کو ان کا جائز حق دے چکے ہوں۔ 

۱۸۔ اپنے گھر یا دفتر کا پتہ کبھی اپنی پروفائل پر مت لگائیے۔ جہاں کام کرتے ہیں اس کمپنی کا نام چاہیں تو پبلک کر دیں ورنہ صرف دوستوں کے لیے کھلی رکھیے۔ 

۱۹۔ کبھی اپنے خاندان کی تصاویر پبلک مت رکھیے اور ہوسکے تو فرینڈز کے لیے بھی کھلی مت رکھیے۔ صرف خاص دوستوں کو یہ حیثیت دیجیے۔ اس معاملے میں پرائیویسی سخت ترین رکھیے۔ 

۲۰۔ کبھی کسی پبلک یا انباکس میں دیے گئے مشکوک لنک کو سیدھا سیدھا کلک مت کیجئے۔ بہت زور کا آرہا ہو تو لنک کاپی کر کے براؤزر کے پرائیویٹ موڈ (کروم کے انکاگنیٹو موڈ) میں کھول کر چیک کر لیں۔ مشکوک لنک سے مراد وہ جس کا پریویو واضح نہ ہو۔ 

۲۱۔ اپنے فالوورز پر نظر رکھئیے۔ کسی قسم کی دہشتگردی یا کسی اور دوست کو تنگ کرنے والے کو رپورٹ کیجیے۔ رپورٹ کرنا کافی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ 

ان کے علاوہ بھی اور کئی اصول ہوں گے جو شاید میرے علم میں نہ ہوں تاہم یہ وہ باتیں ہیں جن کا خیال میں سوشل میڈیا پر رکھتا ہوں یا کوشش کرتا ہوں کہ رکھتا رہوں۔ اس کے علاوہ میری خواہش ہے کہ فیس بک پر ایک گروپ بنایا جائے جہاں کسی بھی شرپسند کو ثبوت دیکھنے کے بعد متفقہ طور پر رپورٹ کیا جائے تاکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا سوشل میڈیا پر مقابلہ بھی ممکن ہوپائے۔ 

امید ہے ہم سوشل میڈیا پر اپنے ماحول کو مثبت رکھنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سوشل میڈیا کے شرپسند اور حفاظتی تدابیر ۔۔۔ معاذ بن محمود

Leave a Reply to مسعود قریشی Cancel reply