پشتون شاعر۔۔۔۔عارف خٹک

میرا دوست عین غین کہتا ہے کہ پشتون ماؤں نے اتنے بچے نہیں جنے۔ جتنا شاعروں کو جنا ہے۔کوئی بھی دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ہر گھر سے ایک رحمان بابا نکلے گا۔ میرا دوست احساس بونیری پوچھتا ہے،کہ کرک کے کیا حال چال ہیں؟
اب بندہ کیا کہے،کہ کرک والوں کو کسی نے بتایا ہے کہ خوشحال خان خٹک ان کے دادا رہ چکے ہیں۔ لہٰذا ہر باپ اپنے بیٹے میں ستر خوشحال کو دیکھنے کا مُتمّنی ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ ان کی سُن بھی لیتا ہے۔جو بندہ شاعر بن جاتا ہے۔وہ قلم کو بطور تلوار استعمال کرنے لگتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ خاتون کی نازک اندامی، لب شیریں اور سرخ رخساروں کو اپنے اشعار میں سراہنے کے بجائے کسی بارہ سالہ بچے کے گول مول کولہے، اُس کی ہلکی ہلکی بھیگتی مسیں اور سِربازار اُس کی بانہہ میں بانہہ ڈالے، مُنہ سے مُنہ ملائے ساتھ میں جلیبیوں کا شیرہ بذریعہ زبان چاٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے شعراء کے اشعار سُن سُن کر ہم جیسے کمزور ایمان لوگ تلوار کو گھر چھوڑ آتے ہیں۔اور ہاتھ میں کچھ اور پکڑ کر اس کولہوں والے محبوب کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں۔ یہی حال لکی مروت، بنوں، وزیرستان اور میانوالی کا بھی ہے۔ یہ الگ بات کہ محبوب سب کا ایک ہوتا ہے کوئی چھور کہیں، کوئی ٹیسپارائے، کوئی خواژیکسکا یا کوئی بچائے کہیں۔ مطمع نظر سب کا ایک جیسا ہوتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ لکی مروت کے کافی نامی شعراء نے لونڈوں کی عشق بازیوں میں خود کو چاک گریباں کے ساتھ صحرا میں مجنوں کی طرح مجذوب بنے پھرتے بھی دیکھا ہے۔ افگار، ممتلی شاہ، سرکئے کمال، سکندر، شاہد منگر خیل اور سلیم مروت ان کو تو لونڈوں سے اتنی شدید محبت رہی ہے۔کہ اگر کوئی ان کی تاریخ مرتب کرلے۔اور ڈان میں میڈم گل بخاری کو دے کر چھپوا دے۔تو امریکہ کے ہم جنس پرست اگلے دن ان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے سڑکوں پر ننگے نکل آئیں۔
آج کل کرک میں ایک اور شاعر کا ظہُور ہوا ہے۔جو کُھلم کُھلا اپنے محبوب کو مُخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ “انسان بن جاؤ،اور میرے ساتھ فقط ایک رات گزار لو،ورنہ دس قتل تو کرچکا ہوں۔ تجھے مارنے پر میرے ہاتھ بالکل بھی نہیں کپکپائیں گے۔” ان کے اشعار سن کر میرے جیسے مونچھوں والے بھی گھبرا جاتے ہیں۔کہ ایک رات کا مہمان بننے سے اچھا ہے،کہ گولی سے اُڑا دے کیوں کہ مارنا تو ایسے بھی ہے اور ویسے بھی ہے۔

کرک کے سپوت اور مستقبل کا رحمان بابا ممتاز شاعر جناب اشتیاق میرگل خیل فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔

” بھٹہ باندے ناست ڈیر مے پہ نرہ ڈزہ ولی دی
ما خو مڑی کڑی دی۔ ما خو مڑی کڑی دی۔
سگنل باندے ناست ڈیر مے پہ درز باندے ویشتلی دی
ما خو مڑی کڑی دی۔ ما خو مڑی کڑی دی۔”

پوری دنیا میں لوگ قتل جیسا جرم کرکے قانون سے چھپتے پھیرتے ہیں۔ وہاں ہمارے کرک کا شاہد منگرخیل فخریہ قبول کرتے ہیں کہ انھوں نے قتل کئے ہیں۔ ایک نہیں بہت سارے لوگوں کو قتل کیا ہے۔
ہمارے لکی مروت، بنوں اور کرک کے خوبصورت لونڈے بھی بڑے غیرتی ہیں۔ جس نے جتنے قتل کئے ہو ان کو یہ لونڈے اپنا دل، جسم اور جان بھی دیتے ہیں۔
جواباً  وہ بھی عرض کرتے ہیں کہ

“کلی کے فری راسرہ گرزہ، آذادی بہ خود
فل بدمعاشی بہ کوو۔ فل بدمعاشی بہ کوو”

ترجمہ: گاؤں میں فری گھومیں گے، آزادی انجوائے کریں گے اور فل ٹائم بدمعاشی کریں گے۔

اب آپ لوگ بتائیں کہ اس ماحول میں ہماری اپنی مونچھوں کی کیا اوقات رہ جاتی ہوگی۔ شرم کے مارے یا تو ہم کابل جاکر پناہ گزین بن جاتے ہیں یا کراچی آکر منہ چھپا لیتے ہیں۔
قصہ المختصر دنیا میں واحد شعراء ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔جو محبوب کو بہ زورِ بازو اپنا بنانے پر تُلے ہوتے ہیں۔اگر غلطی سے کبھی کوئی شاعر آنسو کی باتیں کرے۔تو لوگ مذاق بنا لیتے ہیں ،کہ ایسے شاعر کےلئے پشتو میں ایک بہت بُرا لفظ ہے۔
مردان اور گردونواح میں پائے جانے والے عموماً شاعر خُسروں سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جب بھی آپ لیلٰی کا نام سُنیں گے۔سمجھو مردان یا صوابی کےمشہور خسرے عبدالشکور عرف لیلٰی کا ذکر خیر ہورہا ہے۔
پشتو فلموں کے ڈائریکٹرز کو پشتونوں کی اس خوبی کا عشروں پہلے اندازہ ہوچکا ہے۔ لہٰذا ہر فلم میں اُنھوں نے جتنی بھی ہیروئنیں نچائی ہیں۔ان کا کیمرہ فقط کولہوں سے پھسل کر کولہوں پر اٹکا ہے۔
میرے دوست عابد آفریدی کہتے ہیں کہ “چہ ٹول دہ پڑتوگ غلۂ دی”۔
ترجمہ: سارے شاعر شلوار چور ہیں۔
اُردو شاعروں کی جہاں تک بات ہے۔اس کا تو ہم ذکر بھی نہیں کریں گے۔ اُردو کے شاعروں کی مثال ان کمزور نوجوانوں جیسی ہے۔ جن کےلئے کراچی کے دیواریں  حکیموں کے اشتہاروں سے بھری  پڑی  ہیں۔ جنھوں نے اپنی جوانی غلط کاریوں کی وجہ سے ضائع کی ہے۔ ان کی شاعری بالوں سے شروع ہوکر گردن پر ختم ہوجاتی ہے۔ پورا  اُردو ادب بس یہیں تک محدود ہے۔ میرا دوست کہتا ہے کہ اُردو کے شاعروں کو بنوں میں دو دن تک چرس پلادو،تو اگلے دن اُردو کا جمُود ختم ہوجائےگا۔ کراچی اور حیدرآباد کی خواتین پردہ شروع کرلیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریک انصاف کے دھرنوں کے بعد جہاں پاکستان میں تبدیلی کی لہر آئی ہے۔وہاں پشتونوں کے عمومی مزاج میں بھی ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔ پچھلے پانچ سالہ حکومت میں پشتونوں کو معلوم ہوا کہ عشق خواتین سے بھی کیا جاتا ہے۔ ہم پشتونوں کو تحریک انصاف کا شکرگزار ہونا چاہیئے ورنہ ہمارے ہاں تو عورتوں نے بچے جننا بند کردیئے تھے۔
یہ پی ٹی آئی کے دھرنوں کا ہی کمال ہے کہ اب پشتون اور خصوصاً  جنوبی اضلاع کے لوگ عابد صاحب اور محترم ممتاز اورکزئی کو بھی سننے لگے ہیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”پشتون شاعر۔۔۔۔عارف خٹک

  1. Homosexuality جیسے حساس اور ممنوعہ موضوع پر ایسی ہلکی پھلکی تحریر پڑھنے کا میرا تو پہلا اتفاق ہے ۔ گو اس مزاح میں چھپے طنز میں ہمارے معاشرے کا ایک گھناؤنا روپ چھپا ہے ۔ اس سب سنگینی اور سنگین صورتحال کے باوجود میں یہ مضمون پڑھتے ہوئے اپنی ہنسی کو نہیں روک ہائ اور سوچا یہی شائد پختہ مزاح کا اور طنز کاُ کمال کہ انسان ایسے موضوعات کو بھی ہنسی میں ڈھال کر ٹال سکتا ہے ۔
    کامیاب تحریر پر خٹک صاحب مبارک قبول کریں ۔
    آپ کا قلم ایسے ہی مستانہ وار چلتا رہے ۔
    دعا گو
    روبینہ فیصل

    1. روبینہ فیصل صاحبہ میں مشکور ہوں کہ آپ جیسی شخصیت نے میری تعریف کی۔ واللہ یہ تعریفی الفاظ میرے لئے ایک ایوارڈ کا درجہ رکھتے ہیں۔
      پشتون ہونے کے ناطے یہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے ان برائیوں پر میں ہنس سکوں جن پر غیر پشتون کا ذکر کرنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ میں جہاں ان برائیوں پر ہنستا ہوں وہاں کچھ برائیاں مجھے بڑی طرح توڑ بھی دیتی ہیں۔
      آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ میرا افسانہ ٹانگری ایک بار ضرور پڑھ لیجیئے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میرے ساتھ کچھ آنسو ضرور بہائیں گی۔
      نوازش
      عارف خٹک

  2. اتفاقاََ آج اس تحریر پر نظر پڑی تو بہت دکھ ہوا۔ کہ کم از کم ایسے الفاظوں کے ساتھ اپنے قوم کو نہیں نوازنا چاہئے تھا۔ مانتا ہوں کہ کرک میں بہت کچھ ہو رہا ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ اپنے ہی قوم کو دوسروں قوموں کے سامنے شرمندہ کریں۔ کہ کل کو کئی بھی کسی کو منہ دیکھانے کے لائق نہ رہے۔ ایک دو کے پیچھے سب کو برا بلا کہنا کہاں کا انصاف ہے۔

Leave a Reply to Rubina Faisal Cancel reply