عید الضحٰی, قربانی یا فضول خرچی؟

عید الضحٰی کے قریب آتے ہی جدید منکرین حدیث، ملحدین اور “دانش گرد” قربانی کے خلاف میدان میں آ جاتے ہیں اور مختلف اعداد و شمار پیش کر کے بتاتے ہیں کہ مسلمان کتنا پیسہ جانور خریدنے اور پھر کھانے پینے میں اڑا رہے ہیں، یہی پیسہ غریبوں کی مدد کرنے، ہسپتال بنانے یا ملکی قرضہ اتارنے کے کام بھی آ سکتا ہے. آئیں پہلے دیکھتے ہیں کہ فضول خرچی کیا ہے اور اسلام اسراف کے بارے میں کیا کہتا ہے. پھر معترضین کے اعتراضات کا بھی جواب دیں گے۔.

اسلام فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO
’’اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘
(سورۃ الاعراف، 7 : 31)
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًاO
“اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘
(سورۃ بنی اسرائيل، 17 : 26، 27)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو وضو کے پانی کو بھی احتیاط سے استعمال کرنے کا حکم دیا ہے، اور فرمایا اگر تم نہر کے کنارے وضو کر رہے ہو تب بھی زیادہ پانی استعمال نہ کرو.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اے سعد! یہ کیا اسراف؟” حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ “کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟” آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ” ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر ہو۔” (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ، مشکوٰۃ، جلد اول، حدیث 402)

اسی طرح فاخرانہ لباس اور تکبر سے منع فرمایا، اللہ کے نبی نے ہمیشہ سادگی سے زندگی گزاری، اپنے تمام کام خود کیے، حتیٰ کہ جوتے بھی خود گانٹھ لیتے تھے. رسول اللہ نے ہمیشہ سادہ اور روکھا سوکھا کھانا کھایا، کھاتے ہوئے لقمہ ہاتھ سے چھوٹ کر گر جاتا تو اٹھا کر کھا لیتے، پانی یا دودھ میں مکھی گر جائے تو مکھی ڈبو کر پھینک دیتے لیکن دودھ ضائع نہیں کرتے. مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام فضول خرچی کے سخت خلاف ہے اور فضول خرچ کو شیطان کا بھائی کہتا ہے. اتنی بات سمجھ لینے کے بعد دیکھتے ہیں کہ فضول خرچی کیا ہے اور جائز اخراجات کیا ہیں.

مصارف یا اخراجات کو تین اقسام میں تقسیم جا سکتا ہیں۔

1. ضروریات زندگی مثلاً کھانا پینا، تعلیم، ٹرانسپورٹ، علاج معالجہ، بجلی، گیس، موبائل فون وغیرہ۔
2. تحسینات یعنی ایسی چیزیں جو ضروری ہیں اور ان پر مناسبِ حال خرچ بھی کیا جا سکتا ہے جیسے آرام دہ سواری، اچھے کپڑے، اچھا اور کشادہ مکان، اہل و عیال پر کشادگی و فراخی وغیرہ۔
3. اسراف یعنی کہ فضول خرچی. مثلاً نارمل مکان کی جگہ عالیشان کوٹھیاں اور محلات، محلات میں آرائش و زیبائش، بیش قیمت گاڑیوں کی قطاریں، کھانے پینے کے لیے سونے چاندی کے برتن، خواتین کا ہیرے جواہرات کا استعمال اور قیمتی ملبوسات کا انبار، دکھاوے کے لیے بڑی بڑی شادیاں اور ولیمے وغیرہ سب فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں. یہ سب قطعاً حرام ہیں۔.

قرآن و سنت کی واضح دلیلوں اور تنبیہات کے باوجود آج کے مسلمان سونے چاندی کے گنبد و مینار بناتے ہیں، مہنگے ترین فانوس اور شو پیس رکھتے ہیں، غلاف کعبہ پر کروڑوں ریال خرچ کر دیتے ہیں، پیروں فقیروں کے مزارات پر سالانہ اربوں روپے کا لنگر اور چندہ ہوتا ہے. اس کے علاوہ اپنے معاشرے پر نظر کیجئے، فضول خرچی کی تمام اقسام نظر آئیں گی. گھر ہے تو بڑا گھر چاہیے، بڑا گھر ہے تو پوش علاقے میں گھر چاہیے، گاڑی ہے تو بڑی گاڑی چاہیے، بڑی گاڑی ہے تو اچھے برانڈ کی گاڑی چاہیے. ہماری خواہشات اور ہوس ختم ہی نہیں ہوتی. جہنم کی طرح ھل من مزید ھل من مزید کے نعرے لگاتے رہتے ہیں. ہمیں اپنے نفسانی اخراجات تو فضول خرچی نہیں لگتے لیکن اللہ کی راہ میں دئیے گئے تھوڑے پیسے بھی زیادہ نظر آتے ہیں. ہزار روپے کا پیزا مہنگا نہیں لگتا لیکن ہزار روپے کسی غریب کو دیتے ہمیں موت آتی ہے۔.

آپ پیسے بچانا چاہتے ہیں، ضرور بچائیں.
آپ غریبوں مدد کرنا چاہتے ہیں، ضرور کریں.
آپ ہسپتال بنوانا چاہتے ہیں، روکا کس نے ہے؟

لیکن یہ کرنے کے لیے نزلہ ہمیشہ اسلام پر ہی کیوں گرتا ہے؟ شعائر اللہ ہی کیوں فضول لگتے ہیں؟ آپ کرپشن کا پیسہ بچائیں، چوری، رشوت خوری اور زخیرہ اندوزی کا پیسہ بچائیں، بڑے بڑے محلات، گاڑیوں اور عیاشیوں کا پیسہ بچائیں، شادی سادگی سے کر لیں، فوتگی پر پورے گاؤں کی دعوت نہ کریں.. وغیرہ وغیرہ۔ اپنے اخراجات سے پیسے بچائیں، اللہ سے نہیں۔.

عید الضحٰی پر قربانی کرنا سنت ابراہیمیؑ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت ہے. مسلمانوں کے تمام مسالک و مذاہبِ نے اس قربانی پر اجماع کیا ہے اور یہ دین اسلام کا مستقل رکن ہے. اسلام میں خوشی کے دو ہی مواقع ہیں عید الفطر اور عید الضحٰی. آپ دیگر مواقع بھی ذوق و شوق سے مناتے ہیں، چودہ اگست، چھے ستمبر، تئیس مارچ مناتے کوئی اعتراض نہیں کرتا، یہاں تک کہ مدر ڈے، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے بھی قبول کر لیتے ہیں. تو بھائی یہ عید بھی قبول کر لیں۔.

اچھا چلیں، قربانی کے جانوروں کی ٹوٹل قیمت لگا لیں، اس سے زیادہ تو پاکستان انڈیا کے عوام چائے پی جاتے ہیں، اس سے دگنے پیسے سگریٹ نوشی پر لگا دئیے جاتے ہیں، اس سے دس گنا زیادہ کی شراب پی لی جاتی ہے، اس سے سو گنا زیادہ پیسہ لاس اینجلس کے کلبوں اور کیسینو میں اڑا دیا جاتا ہے، فٹ بال، کرکٹ، گالف اور گھڑدوڑ میں اس سے کئی گنا زیادہ پیسہ جوئے میں لگتا ہے… لیکن تان آ کر ٹوٹتی ہے تو صرف ایک قربانی کے جانور پر۔۔…

آخر میں ایک گزارش مسلمانوں سے بھی کروں گا کہ قربانی میں نارمل جانور کی قربانی کریں. بیس لاکھ کا شاہ رخ خان اور تیس لاکھ کا سلمان خان قربان کرنا محض دکھاوا ہے، ایسی قربانی ہرگز قبول نہیں. اونٹ، بیل یا بکرا مناسب قیمت پر فروخت کریں اور مناسب قیمت پر ہی خریدیں. آپ نے اس عید کو بھی رمضان المبارک کی طرح کمرشل بنا دیا ہے. عید کے موقع پر جانور کی قیمت ڈبل ٹرپل کر دی جاتی ہے اس گناہ میں بھی سب شریک ہیں.

برائے مہربانی اسلام کی روح کو سمجھیں، اللہ تک خون اور گوشت نہیں پہنچتا، اللہ پاک ماتھے کے محراب اور پیٹ کی روٹیاں نہیں گِنتا.. وہ تو نیتوں سے نتیجے نکال لیتا ہے۔..!

Advertisements
julia rana solicitors

وما علینا الا البلاغ

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply