روحانی تسلّط۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

 خدائے بزرگ و برتر پر یقینِ کامل انسان کو گناہ و ذلّت کی تاریکیوں اور روح و قلب کے عارضہ جات سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے، نہ صرف یہ، بلکہ ان تمام شیطانی طاقتوں سے بھی، جو انسان کے فہم و نفس کو دھوکے و سراب سے زہر آلود کرتے رہتے ہیں۔ حق ہی انسان کو حقیقی آزادی دلا سکتا ہے، جبکہ باطل، غلامی پر مجبور کرتے ہوئے ظاہری و باطنی، غم و الم کا باعث رہا ہے، لیکن اگر یہ تاریکی کا علمبردار، باطل ،جو ذلّت و رسوائی کا منبع، اور رنج و ناکامی کا مآخذ ہے، حق کا لبادہ اوڑھ کر عوام الناس کو گمراہ کرنے پر تُل جائے تو معاملہ گھمبیر تر ہو جاتا ہے، تاریک شب میں پاتال سے اٹھتی قوتّوں کیلئے ، آسمانی طاقتوں کے نائب کو دھوکا دینا اتنا آسان نہیں، اس کیلئےعریاں باطل ، گاہے مقدّس لبادے کا سہارا لینے پر مجبور رہتا ہے، یہ لبادہ اگر رائج مذہب، اور اس رائج مذہب کی بنیاد پر قائم روحانی معیارات کے پیوندوں سے بنایا گیا ہو تو آسمانی طاقتوں کے نائب کو شکست دینے میں دیر نہ لگے گی، اور اگر پاتالی قوتّوں کی مسلّط روحانیت ہی کسی معاشرے کا بنیادی فلسفۂ زندگی ٹھہرے تو ایسی قوم کو غرق ہونے سے کشتئ نوح بھی بچانے سے قاصر ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمیشہ مخصوص قوتّیں انسانوں کی اکثریت کو ، بحیلۂ مذہب و بنامِ وطن، اپنے تسلّط میں رکھنے کی جدوجہد میں ملوّث رہیں اور رہیں گی، اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مذہب کا لبادہ اوڑھے حملہ آور قوتّیں سب سے مآثر و کارگر ثابت ہوئیں۔ اس موضوع کا اہم ترین نکتۂ توجہ یہ ہے کہ ہر انسان، یا ذہن، ان طاقتوں کے جھانسے میں نہیں آ پاتا، آخر وہ کونسے اذہان ہیں جنہیں بآسانی اپنے تسلّط کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے حق میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟

جدید مارکیٹنگ کی زبان میں یہ سوال یوں اٹھایا جا سکتا ہے کہ منفی قوتّوں کی Target Audience کون ہیں؟ یہ جذباتی لوگوں کا ایک خاص گروہ ہے، جو اپنی شخصیت، کردار و شعور میں کچھ کمزوریوں کی شدّت سے خود کو ان خونخوار بھیڑیوں کے حوالے کرنے پر تیار رہتا ہے، یہ کمزوریاں، شخصیت میں لالچ، حسد، غرور، خوف، تکبّر اور شہوت کا حد سے گزرنا ہے، ان میں سے ہر “خصوصیت ” کو ایک بظر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جسے دباتے ہوئے انسان کو کسی بھی ظلم و شر پر بخوشی راضی کیا جا سکتا ہے۔ اگر انسان کو زندگی میں حقیقی خوشی و طمانتِ نفس کسی پہلو سے میسّر نہیں، تو وعدۂ فردا سے جی کو بہلاتے ہوئے اس عارضی دنیا پر چار حرف بھیج کر اس کو مٹانے پر تُل جاتا ہے(یہاں وعدۂ فردا سے انکار نہیں کیا جا رہا، مگر اس کی آڑ میں دنیاوی لوازمات و قوانین کو روندنا دانش مندی نہیں )۔ مگر ان شخصی کمزوریوں میں سب سے اہم کردار انسان کا اپنی ذات کی طرف، توجہ، کا مطالبہ ہے، انسان چاہتا ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، اس کو سراہا جائے، وہ بچے جو عموماً اپنے والدین سے ضروری توجہ اور اپنے اساتذہ سے تعریفی کلمات نہیں سن پاتے، ان کا کسی شیطانی قوت کا آلۂ کار بننے کے امکانات کہیں زیادہ ہیں، ایسے شخص کو جب ایک مذہبی رہنما ” سچّا عاشقِ رسول “، اور “مومنِ حق ” جیسے القابات سے نوازتا ہے تو موصوف اپنے جذبات پر قابو، اور خیر و شر میں تمیز کھوتے ہوئے ہر اس آگ میں کُود پڑنے کو چھلانگیں لگانا شروع کر دیتا ہے، جس سے قرآن و سنت نے منع کیا ہو۔ خود سراہی کی خواہش کے بعد اہم شخصی کمزوری اپنے عقیدے و فکر پہ شک کا ہونا ہے، انسان کی ہر اس فکر پہ اٹھایا سوال، جس کی بابت وہ پُر یقین نہیں، اسے مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اس سوال کے جواب میں اپنے حق پہ ہونے کو ثابت کرے، چاہے اسے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے، کبھی غور کیجیے کہ بعض سوالات جیسا کہ، تم اگر ختمِ نبوت پہ یقین رکھتے ہو تو۔۔۔۔ تم اگر ناموسِ رسالت کے رکھوالے ہو تو۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس “تو ” کے بعد اپنی فکر پر شک کرنے والا انسان شعور و فہم کی بجائے ہاتھ پاؤں، بلکہ ٹھُڈوں، سے اپنے عقیدے کی پختگی کا یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کو اپنا مذہبی و اخلاقی فرض تصوّر کرتا ہے۔ عبادت و تقویٰٰٰ  کی روح ،خود احتسابی کا عمل ہے، مخلوقات میں انسان کو بلندتر مقام پہ فائز رکھنے میں خود احتسابی کی خصوصیت کا مرکزی کردار ہے، مگر یہ عمل انسانی ذہن کیلئے باعثِ تھکان ہے اور انسان بدقسمتی سے ذہنی سستی کا جھکاؤ رکھتا ہے، خود احتسابی و مذکورہ کمزوریاں ( لالچ، غرور، حسد، خوف، تکبّر، شہوت، خود سراہی ) ایک دوسرے کا متضاد ہیں، اگر انسان خود احتسابی کے مشکل عمل سے کنارہ کشی کرتا ہے تو نتیجتاً وہ شخصی و نفسی کمزوریوں میں مبتلا ہوتے ہوئے شیطانی طاقتوں کے شکنجے میں آن پھنسے گا ،خاکسار کے نزدیک انسان کیلئے حقیقی آزمائش یہی انتخاب ہے کہ وہ خود احتسابی کے محنت طلب عمل سے گزرنا پسند کرے گا، یا کہ آسان راستہ اپناتے ہوئے اپنی شخصیت کو اس حد تک گِرانے پر آمادہ ہو جائے گا کہ اپنی کلام و فعل سے باطل کو حق ثابت کرنے پر اصرار کرنے لگے۔ انسان اِس وقت تک تو خود پہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ خود احتسابی کو پسند کرے یا مخالف سمت جائے، اگر انتخاب ثانئ الذکر سمت ہے تو اس کے بعد ، وہ خیر و شر کی تمیز کھو بیٹھتا ہے اور اپنے باطل عمل کو بڑی دیانت داری سے حق جانتے ہوئے اس پر سختی سے پابندی کی کوشش کرتا ہے، گویا کہ انگریزی محاورے کے مطابق، “نیک نیتی کا راستہ سیدھا جہنم کی طرف لے جاتا ہے” پر تیز رفتاری سے کاربند رہتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply