• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ڈاکٹر خالد سہیل اور رابعہ الربا کے خواب ناموں پر تبصرہ۔۔۔ ٹیبی شاہدہ

ڈاکٹر خالد سہیل اور رابعہ الربا کے خواب ناموں پر تبصرہ۔۔۔ ٹیبی شاہدہ

درویشوں کے ڈیرے سے گزرنے کا اتفاق ہوا پر میں آگے نہ بڑھ پائی اور وہیں رک گئی۔ اس مکالمے‘ اس دوستی میں کچھ ایسی خوشبو ہے کہ اس نے مجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔  زندگی کا سفر حیرتوں سے عبارت ہے۔ اس پراسرار دنیا میں جینے کا عمل رنگ رنگ کے اسرار کےسمندر میں ڈوبتا ابھرتا رہتا ہے۔ کبھی کچھ اور کبھی کچھ کی کیفیت میں قید رہتا ہے۔ رابعہ الربا درویشوں کے ڈیرے کی پرانی پر شناسا شناسا سی مکین نظر آتی ہیں۔ زندگی کے راز کھوجتی کھوجتی اب وہ ایک درویش سے ہمکلام ہیں اور وہ درویش کہ جس کا نام خالد سہیل ہے اپنے ڈیرے کے دروازے ہر درویش کے لیے کھلے رکھتا ہے اور اس پراسرار کائنات کے سربستہ رازوں سے آگہی کے سفر میں شامل درویشوں کی کتھا کہانی سنتا اور سناتا ہے ۔

درویشوں کے ڈیرے پر اک بار اور احساس ہوا کہ یہ دنیا محض اک حیرت کدہ ہے اور زندگی ۔۔۔۔حیرت در حیرت کا اک سفر محض ۔درویش نے کب سوچا تھا کہ اسے جس ” رابعہ ” کی تلاش ہے وہ اک دن چلتے چلتے سرِراہ اسے یوں اتنی سہولت سے مل جائے گی ،ہو بہو وہی رابعہ جو اس کے تصور میں تھی ، رابعہ بصری کی محبت و عقیدت سے بھری ہوئی۔ اور رابعہ کے بھی، گمان میں بھی نہ ہو گا کہ رابعہ بصری جیسی دیومالائی شخصیت کے سحر میں مبتلا اک درویش کی تلاش اس کی منتظر ہے۔ اور وہ اور درویش  زماں و مکاں کی بندشوں سے آزاد اک دن سچ کی ازلی و ابدی تلاش کے سفر میں ہمسفر ہونے جا رہے ہیں۔ہے نا یہ بھی مقامِ حیرت !

حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ تضاد جو زندگی کی علامت ہے اور وجہِ حسن بھی وہ اس ساری کہانی کی اساس ہے ۔ درویشوں کا ڈیرہ گویا حیرتوں اور اضداد ہی کی آماجگاہ ہے ۔ درویش اک نامی گرامی دہریہ اور دھرتی ماں کا بیٹا اور سائنس اور نفسیات کا متوالا ، رابعہ وحدانیت کی پرستار اور ولیوں اور پیغمبروں کی فرمانبردار ، اللہ کے سامنے سجدہ ریز  آسمانی باپ کی یہ بیٹی اس بات کی منتظر کہ کب سائنس  اتنی ترقی کرے گی کہ ان دیکھے ” اللہ ” کے ہونے کا ثبوت دے گی ۔سو ایک کی آنکھ  باطنی روشنی سے منور اور دوسرے کی سائنس اور نفسیات کے علم سے خیرہ ۔

ایک نے آزادی کے ،محبتوں کے ، خودمختاری کے، نئی دنیاوں کے اور آدرشوں کے جو خواب دیکھے تو ان کے تعاقب میں ایک ہی  ُاڑان میں مشرق سے مغرب تک کا سفر طے کر لیا۔ دھرتی ماں سے دور اس نے وہ سب پایا جو اور جب چاہا۔ رابعہ کے خواب خواب ہی رہ گئے ، کبھی مذہبی روایات نے اس کے قدم روک لئے اور کبھی معاشرتی اقدار اس کے سامنے  آکھڑی ہوئیں اور خاندان کی محبتوں کی تمازتوں نے تو اس کے پر ہی جلا کے راکھ کر دیے ۔ وہ اپنے خوابوں کے تعاقب میں کبھی بھی نہ ُاڑ سکی وہ منتظر ہی رہی کہ کب کوئی زمینی خدا اس کی  آسمانی خدا کے لئے  شب خیز عبادتوں کی تکریم میں اس کے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ تھمائے گا . ایسا تو نہ ہوا پر اک اور انہونی ہو گئی۔ پابند رابعہ اور آزاد درویش نے برقی خواب ناموں کے ذریعہ درویشوں کا اک ڈیرہ آباد کر لیا ۔

درویش کے ملک سے ہزاروں میل دور شہر لاہور میں بسنے والی رابعہ نے جو چاہا وہ موجودات کی دنیا میں تو نہ ہو سکا لیکن اس کی تصوراتی دنیاجو رات گئے کے سکوت، تنہائی اور اسرار میں جاگ جاتی ہے نے رابعہ کی آرزوں کو خوش آمدید کہا۔ لاہور کی گرمیوں کے تیز وتند سورج کی پگھلاتی کرنوں کے موسم میں وہ اس بھید بھری زندگی کی گنجلوں کو رات رات بھر سمجھنے کی سعی کرتی پر اس بھید بھری زندگی نے کب کس کو اپنا بھید دیا ہے ؟ کب کس کو حق ملا کہ مرضی سے پیدا ہو ۔ ماں باپ، ملک، زبان ، مذہب ، معاشرت ، رہن سہن ،ابتدائی تعلیم ،مال دولت ، خوراک ،دوست ، رشتہ دار وغیرہ کا انتخاب مجبور و بےبس انسان کے بس میں کہاں۔۔ بس جو مل گیا جیسا مل گیا قبولنا پڑتا ہے ۔

حالات کی اسیر رابعہ کو بھی نامہربان موسموں کا پورا ادراک تھا ، دکھ کا بیج ہر انسان کے دل میں مختلف طریقے سے پھوٹتا ہے ، رابعہ کے اندر اس نے روحانیت کی لو جلا دی ۔ یہ نظامِ ہستی اور اس کے اندر نغمہءشادی اور نوحہءغم  سب مرد اور عورت کے رشتے کی کرامت ہے ۔ محبتوں کی لطافتیں اور نفرتوں کی کلفتیں بھی اسی رشتہ کے زخم ہیں ، دنیا میں بس ایک ہی رشتہ ہے اور وہ مرد اور عورت کا رشتہ ہے ۔ ساری کائنات نر اور مادہ کے رشتے پر استوار ہے ۔  محبت اک الوہی جذبہ ہے ، آسمانی عطا اور اک نعمت ۔ محبت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ، ہم مشروط محبتوں میں رہن رکھے لوگ اس عطا سے بےخبر ہیں ۔ روحانیت کی بارگاہ میں حاضر رابعہ محبت کو عاجزی سے تعبیر کرتی ہے ۔ وہ کہتی ہے ” محبت عاجزی ہے ۔ روح کی کشش کششِ ثقل جیسی ہوتی ہے ،دور ہوتے ہوئے بھی انسان انسان میں جذب ہو رہا ہوتا ہے ۔ پھر جدائی ۔۔۔روح سے جسم کی مانند ہوتی ہے۔ پھر سب  کچھ خاموش ہو جاتا ہے ۔ روح کے ساتھ ملنے کے بعد کبھی محبت پھر نہیں ہوتی ۔کیونکہ جنت کے انگور کا مزہ چکھ لینے کے بعد زمین کے انگور کا مزہ چھن جا تا ہے ۔یہ سکون کا سفر ہے ۔چھٹی حس کےآگے ایک ساتواں آسمان ہوتا ہے ۔ وہ آپ کے اندر الارم بجا رہا ہوتا ہے ۔ چاہے وہ خطرے کا ہو یا امن کا ۔ مگر ہم اسے سن نہیں  پاتے ۔ “ رابعہ محبت  میں  بھی توحید کی قائل ہے ۔

سات سمندر پار رہنے والا درویش جو رابعہ کے بالکل بر عکس  پکا  دہریہ  ہے اور برس ہا برس سے ہے اور اس حوالےسےاس  کے پائے استقلال میں کبھی بھی لغزش نہیں  آئی ۔ وہ زندگی اور دنیا کی پر اسراریت کو سائنس کے حوالے سے دیکھتا اور پرکھتا ہے ۔ بقول اس کے ” رابعہ نے سکون و آشتی اور طاقت کے لئے ان دیکھی قوتوں کو اپنا آپ سونپ دیا ، جبکہ درویش آدرش،خواب اور امن کی گود میں جا سویا “ جب رابعہ رات کے کسی سمے گیان دھیان میں محو ہوتی ہے یا تہجد کے تارے کا نظارا کر رہی ہوتی ہے عین اس وقت درویش کے ہاں  دن پوری آب و تاب سے چمک رہا ہوتا ہے . درویش کو دن کی روشنی سے ویسی ہی تخلیقی تحریک ملتی ہے جیسی رابعہ کو رات کے سکوت بھرے اسرار سے ۔ رات رابعہ کی محبت ہے اور دن درویش کی. جہان بے مہر اور آتش بار موسم رابعہ کی رات کو بھی جھلسا دیتا ہے اور  وہان درویش کا دن سورج کی مہربان نرم گرم کرنوں کا تحفہ وصول کرتا ہے ۔

عظیم فلاسفر سقراط نے “ مکالمہ “ کو بہت اہمیت دی اور درویش بھی اس بات پر ایمان رکھتا ہے اسی لئے اپنی  نئی ادبی تخلیق کے لئے اس نے اس فارم کا انتخاب کیا جو کہ اردو ادب میں اس لحاظ سے پہلی تخلیق ہے۔
درویش نے کہا اردو اس کی پہلی محبوبہ ہے ، پر نہیں  اس کی اول و آخر محبوبہ ، اس کی ہمدم دیرینہ اس کی کریٹیویٹی ہے اس سے عداوت سب کو مہنگی پڑی۔  اس کے سامنے کوئی  اورنہ ٹھہر سکا ۔ یہی اس کی دمساز ہے یہی سنگی ساتھی ۔ وہ ہر دن نئے سرے سے اپنے تخلیقی سفر پر روانہ ہوتا ہے بلکہ ہر دم حالتِ سفر میں رہتا ہے جیسے لوگ حالتِ وضو میں رہتے ہیں ۔ اتنا ڈھیر تخلیقی کام کے بعد ۔ ۔ ۔بےشمار افسانے ، ناولٹ، شاعری ، تراجم ،نفسیات  اور فلسفہ کے موضوع پر بہت سی تصانیف اور بہت سے تحقیقی مقالے کے بعد بھی کریٹیوٹی کی پیاس نہ بجھی تو اک نئے تخلیقی معرکہ کی سوجھی ، دو اجنبی مرد و عورت ، دو اجنبی زمینوں کے مکینوں کے درمیان ادبی و تخلیقی مکالمہ کی ۔ اس کے لئے ان کو اک رابعہ کی ضرورت تھی ۔ انتظار بسیار کے بعد اک دن خود رابعہ نے ان کے دروازے پر دستک دے ڈالی اور دروازہ کھل گیا ۔ یہ وہی رابعہ تھی ، ہو بہو وہی جس کا ان کو انتظار تھا ۔ عظیم فلاسفر سقراط   جس نے سچ کہنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ پی لیا تھا اس نے “ ڈائیلاگ “ یعنی مکالمہ کی اہمیت اور عظمت پر بہت زور دیا تھا اور  نفسیات اور فلسفہ سے گہری  محبت رکھنے والے درویش کو بھی مکالمے کی لطافت اور طاقت کا بھرپور احساس تھا تبھی اس نے  برقی  خطوط کے ذریعہ ادبی اور تخلیقی مکالمے کی طرح ڈال دی ہے ۔ اور وہ بھی اک مرد اور عورت کے بیچ ۔ان دو کے روایتی تعلق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے خالص “ دوستی “ کی بنیاد پر ۔ یہ مکالمہ آزاد منش درویش اور روایات کے کلچر میں بدنی طور پر محبوس خدا پرست رابعہ کے درمیان ہوا ۔ جو کہتی ہے “ لوگ مذہب اور روایات کی قید میں  ہیں،اونچی دیواروں والی جیل میں بند “.

Advertisements
julia rana solicitors

درویش نے اسی  رابعہ کے ساتھ “ ست رنگی دوستی “ کی بنیاد رکھی ۔ خدا پرست رابعہ کے اک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں  “   کریٹیوٹی، روحانیت سپرچویلیٹی ان سینٹی پراسرار رشتے ہیں جن میں دیوانے اور صاحبِ دیوان ایک ہی صف میں ہیں “ مزید کہا “ سول اور سائیکی کو جدید ٹرمونولوجی میں اب “ مائنڈ “ کہا جاتا ہے۔۔
درویش کا آغاز تصوف کی گلی سے ہوا تھا اور تب سے اب تک وہ سچ کی تلاش کے سفر میں ہے ۔اور وہ کارل ینگ کا موءقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں “ مذہب ، سائنس ، روحانیات اور نفسیات ایک ہی حقیقت ، ایک ہی سچ کے دو رخ ہیں ۔ان میں بنیادی طور پر کوئی  تضاد نہیں ۔ ایک حقیقت کو وجدانی اور دوسرا منطقی سطح پر جاننے کا نام ہے ۔ ینگ کا موءقف ہے کہ روحانی تجربہ بنیادی طور پرذاتی تجربہ ہوتا ہے ۔ وہ ساری انسانیت کے لئے اس وقت قابلِ قبول ہوتا ہے جب وہ سائنس اور نفسیات کی کسوٹی پر بھی پورا اترے ۔اسی لئے اس نے اپنے روحانی تجربات کو نفسیات کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد پیش کئے  ۔ اس کا موقف تھا کہ سائنسدان ، فلسفی اور صوفی اگر سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر ہیں او ر اپنی تلاش میں محض ہیں تو راستے جدا ہونے کے باوجود وہ ایک ہی منزل پر پہنچیں گے “
تو رابعہ اور درویش کے راستے گو کہ جدا  جدا ہیں پر  سچ کی تلاش کے ان مسافروں کی منزل ایک ہی ہے ۔۔ “
اک سچا درویش  بارش کی دعا کرتا ہے جو ہر کسی پر برسے گی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”ڈاکٹر خالد سہیل اور رابعہ الربا کے خواب ناموں پر تبصرہ۔۔۔ ٹیبی شاہدہ

  1. ٹیبی جی! میں نے آپ کا تبصرہ بہت ذوق و شوق سے پڑھا
    آپ کی شخصیت کا یہ رُخ پہلی بار میرے سامنے آیا ہے
    خالد سہیل میرے بہت عزیز دوست ہیں، اُن سے میری دوستی تقریباً چھبیس سال پر محیط ہے
    رابعہ کے ساتھ ان کا مکالمہ میری نظر سے ابھی تک نہیں گزرا لیکن آپ کے اس خوبصورت تبصرے کے بعد اسے پڑھنے کا اشتیاق ضرور پیدا ہوگیا ہے
    امید ہے کہ آپ کی مزید تحاریر بھی پڑھنے کو ملتی رہیں گی

    آپ کا مخلص
    فیصل فارانی

    1. ڈاکٹر صاحب !
      پلیز مجھے وہ مکالمہ ای میل کر دیجئے
      اگر ممکن ہو تو پرنٹ آوٹ نکال لیں، اس جمعے کو ہماری ملاقات تو ہو ہی رہی ہے

      آپ کا مخلص : فیصل فارانی

Leave a Reply to Dr. K. Sohail Cancel reply