• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایک اور انقلابی معاہدہ۔ یا ایک اور سفید جھوٹ؟۔۔۔۔۔محمد احسن سمیع

ایک اور انقلابی معاہدہ۔ یا ایک اور سفید جھوٹ؟۔۔۔۔۔محمد احسن سمیع

سمجھ نہیں آتا کہ اچھے خاصے “پڑھے لکھے” لوگ کیسے حالات حاضرہ سے اس قدر بے خبر ہوسکتے ہیں؟ کیا واقعی ان میں سے کوئی بھی اخبارات کا منہ تک نہیں دیکھتا یا پھر ہماری اجتماعی یاداشت ہی محض چند دنوں پر محیط ہوکر رہ گئی ہے؟ مہاتما نیازی کے دورہ چین سے جب نقد کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا تو کل سےطفلان انقلاب اس بات پر خوشیوں کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں کہ اب پاک چین تجارت مقامی کرنسیز میں ہوگی!
واللہ خود کو عقل کل سمجھنے والوں کی اس بے خبری پر اور حالات و واقعات سے اتنی شدید بے اعتنائی پر اب تو ماتم کرنے کا بھی دل نہیں چاہتا۔ آپ کو تو خیر کیا ہی یاد ہوگا مگر خوشی سے پھولے نہ سماتے اگر تھک گئے ہوں تو ہم آپ کو یاددہانی کراتے چلیں کہ  پاکستان اور چین میں باہمی تجارت کے لئے مقامی کرنسی کے استعمال کا معاہدہ اصل میں 2011 میں یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں ہوچکا تھا جس پر عملدرآمد کا اعلان اسٹیٹ بینک نے 7 مئی 2013 کو ایک اعلامیہ کے ذریعے کردیا تھا۔ کوئی بھی دو ممالک باہمی تجارت میں ڈالر کو کس حد تک پس پشت ڈال سکتے ہیں، اس بات کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے جن میں سے سب سے اہم دونوں کی باہمی تجارت کا حجم اور ادائیگیوں کا توازن ہیں۔ باہمی تجارت کے لئے مقامی کرنسیوں کا استعمال دو طریقوں سے ممکن ہے اور عموما ً عملی طور پر ان دونوں طریقوں پر بیک وقت عمل کرنا پڑتا ہے۔ پہلا طریقہ جس سے کوئی ملک اپنے تجارتی شراکت دار کو ادائیگیوں کے لئے اس کی مقامی کرنسی حاصل کرسکتا ہے وہ دونوں ملکوں کی حکومتوں یا مرکزی بینکوں کے درمیان مقامی کرنسیوں کے تبادلے (currency swap) کا معاہدہ ہے جس میں ایک طے شدہ ایکسچینج ریٹ کے عوض دونوں ممالک ایک دوسرے کے بینکوں کو اپنی اپنی کرنسیز فراہم کرتے ہیں تاکہ ان کو باہمی ادائیگیوں کے لئے استعمال کیا جاسکے۔
مثال کے طور پر ایک ملک ہے بنانا ریپبلک جس کی دوسرے ملک ایپل کنگ ڈم سے باہمی تجارت کا مجموعی حجم 2 ارب ڈالر سالانہ کے مساوی ہے اور ادائیگیوں کا توازن برابر ہے یعنی کسی بھی ملک کو خسارے کا سامنا نہیں۔ بنانا ریپبلک ایپل کنگڈم کو ایک ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کرتا ہے اور ایپل کنگڈم سے ایک ارب ڈالر کی ہی امپورٹس کرتاہے۔ بنانا ریپبلک کی کرنسی دینار کا ڈالر ایکسچینج ریٹ 50 ہے جبکہ ایپل کنگڈم کے درہم کا ڈالر ایکسچینج ریٹ 100 تصور کرلیتے ہیں۔ اس حساب سے دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا مجموعی حجم بنانا ریپبلک دینار میں 100 ارب اور ایپل کنگڈم درہم میں 200 ارب ہوگا، جبکہ بنانا ریپبلک دینار کی ایپل کنگڈم درہم کے ساتھ شرح تبادلہ 2 درہم فی دینار ہوگی۔ گویا بنانا ریپبلک اگر ایپل کنگڈم کو 50 ارب دینار دے کر بدلے میں 100 ارب درہم لے لے تو دونوں ملک ڈالر کو سائیڈ پر رکھ کر باہمی تجارت کے لئے ایک دوسرے کی کرنسی استعمال کرسکتے ہیں۔ بنانا ریپبلک کا تاجر جب بھی ایپل کنگڈم سے کوئی بھی درآمدی سودا کرے گا تو اپنے مرکزی بینک کے پاس جائے گا، مرکزی بینک سے اپنے دینار کے عوض ایپل کنگڈم درہم حاصل کرے گا اور ایپل کنگڈم میں اپنے ٹریڈ پارٹنر کو درہم ہی میں ادائیگی کردے گا۔ بعینہ یہی طریقہ ایپل کنگڈم کے تاجر بنانا ریپبلک سے اشیاء امپورٹ کرتے وقت اپنے ملک میں اختیار کریں گے۔
اوپر دی گئی مثال میں سب سے اہم نکتہ مگر یہ ہے کہ ہم نے دونوں ملکوں کے مابین تجارتی خسارہ صفر تصور کیا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کی کرنسی کو طلب عملاً برابر ہوگی۔ اب اس مثال کو تھوڑا پیچیدہ کرکے دیکھتے ہیں۔ فرض کریں کہ بنانا ریپبلک کو ایپل کنگڈم سے تجارت میں ایک ارب ڈالر سالہ خسارے کا سامنا ہے۔ یعنی وہاں سے اس کی امپورٹس 2 ارب ڈالر کے مساوی ہیں جبکہ ایپل کنگڈم کو ایکسپورٹس محض 1 ارب ڈالر ہی ہیں۔ سو اب بنانا ریپبلک کے تاجروں کو ایپل کنگڈم میں بیٹھے اپنے تجارتی شراکت داروں کو ادائیگیوں کے لئے ایک ارب ڈالر یا 100 ارب ایپل کنگڈم درہم اضافی درکار ہوں گے، جبکہ ایپل کنگڈم والوں کی ضرورت اب بھی صرف 50 ارب دینار ہی ہیں۔ اس صورتحال میں ایپل کنگڈم کی حکومت یا مرکزی بینک اگر 50 ارب دینار سے زیادہ مالیت کا کرنسی سواپ (کرنسی تبادلہ) کا معاہدے کرتا ہے تو وہ گھاٹے میں رہے گا کیوں کہ اس کے پاس ضرورت سے زائد دینار آجائیں گے اور لازمی نہیں ان اضافی دیناروں کا اس کے پاس کوئی منافع بخش مصرف بھی ہو۔ خصوصاً اگر بنانا ریپبلک دینار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئی خاص پذیرائی نہ ہو تو یہ کرنسی سواپ ایپل کنگڈم کے لئے عملاً بیکار اور اپنے اثاثے ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ ایسے میں ہوگا یہ کہ ایپل کنگڈم وہی 50 ارب دینار مالیت کا ہی کرنسی سواپ کرے گا۔ بنانا ریپبلک کو بقیہ سو ارب ایپل کنگڈم درہم کا بندوبست کسی اور طریقے سے کرنا ہوگا، کیونکہ ایپل کنگڈم کا تاجر یا تو اپنی مقامی کرنسی میں لین دین کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا پھر بین الاقوامی سطح پر کسی مضبوط اور مستحکم کرنسی میں جو روزمرہ کے اتارچڑھاؤ سے متاثر نہ ہوتی ہو۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا میں کس جانب اشارہ کرنا چاہ رہا ہوں؟ یہاں سے اوپر ذکر کئے گئے دوسرے طریقے کا آغاز ہوتا ہے۔ جی ہاں! اب اس خسارے کے طفیل بنانا ریپبلک کو لوٹ کر پھر ڈالر کی جانب آنا پڑے گا۔ یا تو انہیں ایپل کنگڈم کو براہ راست ڈالر میں ادائیگی کرنا پڑے گی (جو کہ ظاہر ہے ایپل کنگڈم کے لئے ترجیحی صورت ہوگی کیوں کہ وہ ان ڈالروں کو اپنے دیگر مصارف میں استعمال کرسکے گا) یا پھر کرنسی مارکیٹس/مرکزی بینک سے ڈالر کے عوض ایپل کنگڈم درہم خرید کر ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔ بہرصورت، کیونکہ بنانا ریپبلک کو ایپل کنگڈم سے تجارتی خسارے کا سامنا ہے اس لئے چاروناچار اسے ڈالر یا کسی تیسری کرنسی پر انحصار کرنا ہی پڑے گا۔
اوپر دی گئی مثالیں بہت سمپلیفائی کرکے بیان کی گئی ہیں، بین الاقوامی تجارتی ڈائنیمکس یقیناً اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں تاہم اگر آپ پاک چین باہمی تجارت کا تجزیہ کریں تو اسے اساسی طور پر اسی مسئلے کا سامنا ہے! 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق پاک چین باہمی تجارت کا مجموعی حجم 16٫9 ارب ڈالر سالانہ کے قریب تھا جس میں چین سے درآمدات کی مالیت 15٫4 ارب ڈالر تھی جبکہ اس کو ہماری برآمدات محض 1٫5 ارب ڈالر کے مساوی تھیں گویا ہمیں 13٫9 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا رہا! 2017 کے ایکسچینج ریٹ کے حساب سے اگر دیکھیں تو چینیوں کو پاکستان میں ادائیگیوں کے لئے تقریباً 160 ( مساوی 9٫4 ارب یوآن) ارب روپے درکار تھے جبکہ ہمیں چین کو ادائیگیوں کے لئے 106 ارب یوآن کی ضرورت تھی۔ گویا ہمیں تقریباً 96 ارب یوآن اضافی درکار تھے۔ چین کے ساتھ 2013 میں جو کرنسی سواپ معاہدہ ہوا تھا اس کی مالیت 140 ارب روپے کے بدلے 10 ارب یوآن تھی، یعنی کم و بیش اتنی ہی جتنے روپے چینیوں کو پاکستان کے ساتھ تجارت کے لئے درکار تھے! میں اس کو چینیوں کی بدنیتی پر محمول نہیں کرتا۔ ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے، پھر ہماری کرنسی کا بین الاقوامی کرنسی مارکیٹس میں کوئی خاص مصرف بھی نہیں کہ اس کے اضافی ذخائر میں چینیوں کو دلچسپی ہو! سو بقیہ ادائیگیوں کے لئے لامحالہ ہمیں ڈالر پر انحصار کرنا پڑا جس کے اثرات ہماری معیشت پر بالعموم اور زرمبادلہ کے ذخائر پر بالخصوض واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
اوپر دی گئی مثالوں اور بیان کی گئی اصل صورت حال سے امید ہے کہ اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہوگی کہ اتنے بھاری تجارتی خسارے کے ہوتے ہوئے مقامی کرنسیوں میں پاک چین تجارت کا اسکوپ بہت ہی محدود رہے گا اور اسی وجہ سے لامحالہ ہمیں اب تک ڈالر پر انحصار کرنا پڑتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرنا پڑتا رہے گا! الا یہ کہ ادائیگیوں کا توازن ہمارے حق میں بہتر ہوجائے۔ جشن منا منا کر خود کو ہلکان کررہے ننھے منے انقلابیوں کو خبر ہو کہ یہ پیش رفت نئی ہے اور نہ ہی ایسی انقلابی کہ ملک کی تقدیر بدل کررکھ دے۔ آپ کے مہاتما نے اپنے پچھلے دور حکومت میں پختونخواہ میں سوائے پرانے منصوبوں پر نئی تختیاں چڑھانے کے اور کچھ نہیں کیا تھا اور اب مرکز میں آنے کے بعد بھی وہ بعینہ وہی کام کرکے میرا، آپ کا اوراس ملک کا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں!

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply