عاشق ۔۔۔مرزا مدثر نواز/قسط1

سر پر سفید ٹوپی‘ بین والی سادہ سی قمیض‘ پاؤں میں لیلن کے چپل پہنے‘ ہاتھوں میں سٹیل یا سلور کی پرات (چنگیر) اور ڈول اٹھائے‘ مدرسہ کے طالبعلم جنہیں درویش کہا جاتا تھا‘ مغرب کے بعد ہر گھر سے روٹی اور سالن لینے کے لیے گاؤں کی کچی پکی گلیوں میں نوّ ے کی دہائی تک عام نظر آتے تھے۔ انہی وقتوں میں جب ابھی انٹر نیٹ کا تصور نہیں تھا اور ٹی وی دیکھنے کی لت بھی عام نہیں تھی ‘بچے مغرب کے بعد گاؤں کی گلیوں میں پکڑن پکڑائی‘ چھُپن چھُپائی اور درختوں کے پتے ڈھونڈنا جیسے کھیل کھیلتے اور شور مچاتے جبکہ لڑکے جھنڈ کی شکل میں بیٹھے نظر آتے تھے۔سن بلوغت کی طرف گامزن دو لڑکے گلی میں گھوم رہے تھے کہ ان کی نظر درویشوں پر پڑی جو ایک گھر سے کھانا لے کر مڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک آگے بڑھا اور درویشوں سے کہا کہ اس گھر سے جو روٹی لے کر آئے ہو وہ مجھے دے دو‘ دوسرے نے پوچھا‘ کیوں؟
پہلا: یہ فلاں نے پکائی ہو گی‘
دوسرا: اگر اس نے نہ پکائی ہو تو؟
پہلا: چلو آٹا تو گوندھا ہو گا ناں!
دوسرا: ہو سکتا ہے نہ گوندھا ہو‘
پہلا: روٹی کو ہاتھ تو لگایا ہو گا‘
دوسرا: ضروری تو نہیں‘
پہلا: روٹی کو دیکھا تو ہو گا ناں!
دوسرا: یقین سے کیسے کہا جا سکتا ہے؟
پہلا: ایسا کچھ ہو نہ ہو‘ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ روٹی اس کے گھر سے آئی ہے۔

حاصل حکایت یہ ہے کہ جو اچھا لگنے لگے یا جس سے عشق و محبت ہو جائے وہ کیا‘ اس سے منسوب ہر چیز پیاری لگنے لگتی ہے‘ اس کی ادائیں‘ باتیں‘ نصیحتیں‘ قول‘ کھانے پینے کا انداز‘ اٹھنا بیٹھنا‘ چلنا پھرنا‘ لوگوں سے میل جول کا انداز وغیرہ وغیرہ‘اور جی یہ چاہنے لگتا ہے کہ میں بھی ویسا ہی ہو جاؤں اور وہی کچھ اپنا لوں۔
وہ ایک بڑے ادارے میں ملازم تھا جسکو اپنی ایک رفیق کار سے محبت ہو گئی جو کہ یکطرفہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ چاہت اگر دو طرفہ ہو تو محبت کہلاتی ہے جبکہ یکطرفہ کو عشق کہتے ہیں۔ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے‘ لہٰذا جلد ہی اس بات کا چرچہ عام ہو گیاجس سے اعلیٰ انتظامیہ بھی باخبر ہو گئی۔ موصوف نے اپنی رفیق کار کے گھر رشتہ بھیجا جہاں سے انکار ہو گیا لیکن وہ اس بات کو بھول نہ پایا اور اس کے دل میں گھر کرنے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھیں مگر بدقسمتی سے لاکھ کوششوں کے باوجود مخالف سمت سے کوئی مثبت جواب نہ آتا تھا۔ ایک دوست نے اسے سمجھایا کہ اب بہت ہو چکا اور حالات کسی بھی وقت نازک صورتحال اختیار کر سکتے ہیں‘ اگر جنس مخالف نے اعلیٰ انتظامیہ کو شکایت کر دی تو بدنامی کا منہ دیکھنا پڑے گا‘
؂ دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی۔
ناکام عاشق نے جواب دیا کہ یہ بدنامی اور لوگوں کی باتیں کیا ہوتی ہیں؟ میں اس بارے میں نہیں جانتا نہ ہی مجھے کوئی پرواہ ہے‘ کیا تم نے یہ نہیں سن رکھا‘
؂ فہم و ادراک سے بالا ہے یہ اندازِ وفا
تم کو اندیشہء رسوائی بھی ہے اور محبت بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مقصد حکایت یہ ہے کہ جب کسی سے عشق ہو جائے تو سچا عاشق ہر قسم کے انجام سے بیگانہ ہو جاتا ہے اور لوگوں کی باتوں اور طعنوں کی مطلقاََ فکر نہیں کرتا۔وہ کیسا عاشق ہے جو زبان سے تو عشق کا دعویٰ کرے لیکن جب اسے ثابت کرنے کا موقع آئے تو دنیاوی مصلحتیں آڑے آ جائیں‘ اپنے محبوب کے طریقوں سے انحراف کرے‘ اس کی سنتوں کو پس پشت ڈال دے‘ او جی! ٹھیک تو نہیں ہے لیکن نہ کرنے سے برادری میں ناک کٹ جائے گی‘ رشتے دار ناراض ہو جائیں گے‘ طعنے سننیں پڑیں گے‘ فلاں نہیں مانتا‘ کیا کروں مجبور ہوں‘ دنیا داری بھی تو رکھنی پڑتی ہے‘ کل کلاں مجھے کون پوچھے گا وغیرہ وغیرہ۔ سچا عاشق وہی ہے جس کے قول و عمل سے عشق جھلکتا ہو نہ کہ صرف زبان کی حد تک محدود ہو۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عاشق اپنے معشوق کی شان میں مدح سرائی ضرور کرتا ہے لیکن سچائی صرف عمل سے ہی ممکن ہے۔ حسان بن ثابتؓ نے اپنے محبوب کی شان میں کیا خوبصورت اشعار کہے کہ
؂وأحسن منک لم تر قط عینی
آپ ﷺسے زیادہ حسین میری آنکھ نے ہرگز نہیں دیکھا
وأجمل منک لم تلد النساء
اور آپ سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں
خلقت مبرا من کل عیبِِ
آپ ہر عیب سے پاک وصاف پیدا کئے گئے
کانک قد خلقت کما تشاء
گویا کہ آپ اس طرح پیدا کئے گئے جیسا کہ آپ نے چاہا۔
لیکن ان کا عشق صرف اشعار کی حد تک محدود نہیں تھا اور کوئی ان کے اپنے محبوب کے ساتھ لگاؤ کو شک کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔شیراز کے رہنے والے کی چاہت کا یہ عالم تھا کہ اس کے کہے ہوئے چند بول رہتی دنیا تک ممتاز رہیں گے اور ہر سننے والا ان کے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ کہنا نہیں بھولتا‘
؂بلغ العلیٰ بکمالہ
پہنچا بلندیوں پہ جو اپنے کمال سے
کشف الدجیٰ بجمالہ
ناپید ظلمتیں ہوئیں جن کے جمال سے
حسنت جمیع خصالہ
حسن صفات ختم اسی خوش خصال پر
صلو علیہ و آلہ
صلوٰۃ اس کی ذات پر اور اس کی آل پر۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply