وہ گھر میں اپنے مخصوص کمرےمیں آئی۔
ہرچیز جوں کی توں تھی جیسے ابھی بھی یہیں رہ رہی ہو۔
اس نے اپنی الماری کامقفل دراز کھولا۔وہ محبت نامے جن میں آج بھی خوشبو رچی ہوئی تھی،یونہی پڑے تھے۔
رومانوی شاعری سے لبریز ، بےپناہ محبت کا اعتراف ، عہد و پیمان ساتھ جینے مرنے کی قسمیں تھیں،
اس نے ایک خط کھولا ۔۔۔آخر پر لکھا تھا ، یہ خط نہیں میرا دل ہے ۔اسے سنبھال کر رکھنا۔۔۔
اس نے سارے کاغذ پھر سلیقے سے واپس رکھے۔
Advertisements

ساتھ ہی اپنے ہاتھ میں پکڑا طلاق نامہ ان کے اوپر سنبھال کر رکھ دیا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں