اس ایک قتل نے کتنوں کی راہیں ہموار کیں ؟۔۔۔۔۔سیدعارف مصطفٰی

طالبان کے بانی اور روحانی باپ کہلانے والے 81 سالہ بزرگ سیاسی رہنماء مولانا سمیع الحق کی شہادت معمولی واقعہ نہیں ، وہ اپنے والد مولانہ عبدالحق کے 71 برس قبل قائم کردہ مشہور و وسیع و عریض مدرسے ،مدرسہ و جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم بھی تھے جو کہ ملک میں قائم ہزاروں دیوبندی مدارس کا مرکز و محور ہے کیونکہ افغان جہاد میں ضیاءالحق کو اپنی اور اپنے رفقاء و طلباء کی مدد فراہم کرنے کے عیوض انہوں نے ملک بھر میں ان مدارس کے قیام کی اجازت لے کر ان مدارس کا جال بچھا دیا تھا – وہ ملک میں متعدد سیاسی اتحادوں جیسے متحدہ دینی محاذ متحدہ مجلس عمل اور دفاع پاکستان کونسل کے بانی رہنماؤں میں بھی شمار کیے  جاتے تھے۔

انکے قتل نے فوری طور پہ تو آسیہ رہائی بحران میں پھنسی حکومت کو یہ ریلف دیدیا  ہے کہ اس سے آسیہ بی بی کیس پہ احتجاجی مہم سے اس پہ بننے  والا دباؤ کم ہونے یا تحلیل ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں – مولانا کے قتل کی  ظاہری تفصیلات سے لگتا یہ ہے کہ فائرنگ سے زیادہ خنجر بازی پہ انحصار کرنے والا کوئی اندر ہی کا آدمی تھا گو خواہ وہ اس وقت باہر ہی سے آیا تھا جو یہ نہیں چاہتا تھا کہ فائرنگ سے ہونے والا شور اسے پھنسوا دے لیکن جب خنجر کے متعدد وار کرنے کے باوجود مولانا فوری جاں بحق نہ ہوسکے تو پھر مجبوراً اسے فائر بھی کرنے پڑے- مولانا کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کرنے والوں کو یہ سفاک حقیقت بھی پیش نظر رکھی جانی چاہیے  کہ مولانا کی شہادت سے کئی لوگو ں  کی  راہ کا بڑا کانٹا دور ہوگیا ہے جسے ان سے ناراض رہنے والوں کی درج ذیل سرسری فہرست کی روشنی میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے
امریکا کی بات نہ مان کے اور حقانی نیٹ ورک کی مخبری نہ کرکے انہوں نے امریکا کو ناراض کیا۔
پولیو کی دوا کو مشکوک قرار دے کر اسکے پلانے کی مہم کی ڈٹ کر مخالفت کرکے پورے مغرب کو ناراض کیا۔
مولانا فضل الرحمان کی سیاسی کج ادائیوں اور بینظر کا اتحادی بن جانے پہ تنگ آکر انہوں نے جمیعت علمائے اسلام میں اپنے ہم خیالوں پہ مشتمل اپنا الگ دھڑا بنا کے مولانا فضل الرحمان کو ناراض کیا۔
صرف ملاء عمر کے پیروکاروں کے علاوہ کسی کو طالبان نہ مان کر طالبان ہونے کے دعویدار باقی سب دھڑوں کو ناراض کیا۔
لال مسجد کے معاملے میں وہاں کے محصور طلباء کی حمایت جاری رکھ کر مشرف کو ناراض کیا۔
مدارس پہ حکومتی گرفت کی کوششیں ناکام بناکے انہوں نے پیپلز پارٹی حکومت کو ناراض کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مولانہ کے قتل کے متعدد سنگین مضمرات بھی ہیں مثلاً یہ کہ اب انکے قتل کے ذریعے ملک میں امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی سازش کرنے والے اس واقعے کو ایران اور شیعہ مسلک کی جانب موڑ سکتے ہیں اور یوں بچا کھچا امن بھی داؤ پہ لگ سکتا ہے اور دھیرے دھیرے بھارت سے پینگیں بڑھانے والا ایران اب مکمل طور پہ بھارت کا لے پالک بھی بن سکتا ہے دوسری طرف ملا عمر کے حامی اور جلال الدین حقانی نیٹ ورک کے افراد اس میں  حکومت کا  ہاتھ ہونے کا الزام لگاکے یہاں دفاعی و حکومتی تنصیابات پہ انتقامی حملوں کا ایک تھکا دینے والا سلسلہ بھی شروع کرسکتے ہیں – یقینی طور پہ اب ارباب حکومت اور اہل سیاست دونوں ہی کی دانش و بینش کا امتحان آن پڑا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس نئے بحران سے کیسے نپٹ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply