مہتاب مناظر کی شادی پسند سے ہوئی تھی، اِس لیے اَکثر اُس کی اپنی بیوی سدرہ سے نوک جھونک چلتی رہتی تھی، گو بیوی اُس کی طرح زیادہ پڑھی لکھی تو نہ تھی مگر حسِ مزاح اُس میں کافی تھی اور حاضر جواب بھی تھی ۔آج دُوپہر کو بھی وہ اپنی گھڑیوں کی دُکان بند کر کے گھر لوٹا تو اُس کی بیوی باورچی خانے میں مصروف تھی ، اور اُس کی اَکلوتی بیٹی بڑے کمرے میں اپنا ہوم ورک کر رہی تھی ۔۔ سدرہ نے اُسے باورچی خانے کی جالی سے اندر آتے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔ اِس لیے وہ جلدی جلدی کھانا گرم کر کے کمرے میں لے آئی۔۔۔۔۔
’’ آہا ! آج تو پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح چہرے پہ دمک رہے ہیں ۔پہلا نوالہ توڑتے ہی وہ حسبِ معمول چہک اُٹھا ۔۔۔۔۔ ’’ ہٹیں ! چھوڑیں بھی ! آٹھ سال ہو گئے شادی کو ۔ مگر آپ کا لہلوٹ پن نہ گیا۔۔ ‘‘ سدرہ نے شرماتے ہوئے گلاس میں پانی بھر دیا
’’ اَرے بھئی ! بیویاں تو ترستی ہیں کہ اُن کو عاشق مزاج شوہر ملے ۔۔ ایک تم ہو ۔۔ اِدھر کوئی بات ہوئی نہیں اور اُدھر تم نے گز بھر کا گھونگھٹ نکال لیا ۔ ‘‘ مہتاب مناظر نے اِس بار کُھل کر ہنستے ہوئے کہا ۔ اِس بار اُس کی بیوی نے اپنی چادر کُچھ اور اپنے جسم کے گرد لپیٹ لی اور بولی ’’ میں کوئی ماڈل نہیں ! اللہ بخشے تاؤ جان کو ۔۔۔۔۔ نویں میں ہی سکول سے اُٹھا لیا تھا ، کہتے تھے لڑکیاں جوں جوں اگلی جماعتوں میں ترقی پاتی جاتی ہیں اُن میں حیا ختم ہوتی جاتی ہے ۔ ‘‘ مہتاب مناظر نے مُسکراتے ہوئے ایک اور نوالہ توڑا اور کہنے لگا ’’ سدرہ! کافی دن ہو گئے ۔۔۔۔تمہاری وہ مردوں کی ستائی ہوئی سہیلی نہیں آئی ۔۔ ‘‘ ’’ ہے ۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔ خے ۔۔۔۔۔ کس ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں مردوں کی ستائی ہوئی ۔۔۔۔۔۔ شرم کریں کُچھ ! ایک تو بے چاری اپنے گھر بس نہ سکی ، اُوپر سے آپ مردوں کی باتیں! اللہ توبہ! توبہ! توبہ! ‘‘ سدرہ نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
مہتاب نے میز سے پانی کا گلاس اُٹھا لیا اور پھر اُس کا ایک گھونٹ بھر کر بولا۔ ’’ کیا کہہ رہی ہو سدرہ ؟ کسی ایک مرد کی بات ہوتی تو میں مان بھی لیتا ۔۔ جو عورت خود تین مردوں سے طلاقیں لے چکی ہو وہ مظلوم کہاں سے ہوئی ؟ ‘‘ بات ختم کرتے ہی اُس نے پھر پانی کا گلاس اُٹھا لیا تھا۔ جب کہ اُس کی بات سُنتے ہی سدرہ تو جیسے بھڑک ہی اُٹھی تھی ۔۔۔۔۔ ’
’ آ گئے حضور اپنی اَصل لائن پہ ۔۔۔ ایک تو پتہ نہیں تم لکھاریوں کو عورت سے خدا واسطے کا بیر کیوں ہوتا ہے ؟ ویسے تو اپنے آپ کو بڑا روشن خیال کہتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ؟
‘‘ یہاں مہتاب اُس کی بات کا جواب دینے ہی والا تھا کہ ایک طرف سے اُس کی بیٹی دوڑتی ہوئی آئی اور اُس کے گال پہ بوسہ دے کر کہنے لگی ۔ ’’ اَبو! آج پتہ ہے ! مس نے کیا کہا ہے ؟ ‘‘ اُس نے اپنی چھے سالہ بیٹی کو گود میں بھر لیا اور لاڈ سے بولا۔۔ ’’ کا کہا ہے میری میکی کو ؟ ‘‘ ’’ اَبو وہ کہہ رہی تھیں تمہارے اَبو ناول لکھتے ہیں اُن سے پوچھنا معاشرے میں اَدیب کا اَصل مقام کیا ہے ؟
‘‘ مہتاب مناظر نے شوخ نظروں سے سدرہ کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا۔۔ ’’ بیٹا ! گھر بھی معاشرے کی بنیادی اِکائی ہوتا ہے ۔ اَمی سے پوچھ لینا تھا۔
‘‘ یہ سُنتے ہی سدرہ نے منہ پھیر لیا اور برتن سمیٹتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ ’ مُجھے تو معاف ہی رکھیں ۔ میں تو اِتنا جانتی ہوں، مرد چاہے باپ ہو یا بیٹا ، شوہر ہو یا محبوب، عورت کو ہمیشہ دُکھ ہی دیتا ہے۔
‘‘ مہتاب نے تولیے سے اپنے ہاتھ صاف کیے اور پھر اپنی بیٹی کے سر پہ ایک پیار دے کر کہنے لگا ۔۔ ’’ بھئی! عورت بھی تو مرد کے سر پہ تلوار لٹکائے رکھتی ہے ۔ چاہے بیوی ہو ‘ بیٹی ہو ‘ بہن ہو یا خوابوں کی رہن ۔ مرد کو ڈر ہی لگا رہتا ہے کہ جانے کب اُس کے سر پہ لٹکی عزت کی یہ تلوار اُسی کے آر پار ہو جائے ۔۔ ‘‘
’’ اَوہو! اَبو آپ بھی نا ۔۔۔ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ مس نے پوچھا تھا اَدیب کا معاشرے میں مقام کیا ہے ؟ ‘‘ میکی نے اُس کی گود میں اِدھر اُدھر ٹانگیں چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ ’’ بیٹا ! اِس وقت تو میں جلدی میں ہوں ، شام کو آ کے بتاؤں گا ۔ تین بج گئے ہیں اور دُکان ابھی تک بند پڑی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ اُس نے جلدی سے بیٹی کو گود سے اُتارتے ہوئے کہا ، اور خود اُٹھ کر صحن میں کھڑی اپنی سائیکل کی طرف چل پڑا ۔
’’ سُنیے! شام کو دہی لیتے آیئے گا ، ‘‘ سدرہ نے اُسے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا،۔۔۔ ’’ اَچھا بھئی اَچھا ! پہلے بھی کبھی بھولا ہوں ، ‘‘ اُس نے سائیکل دروازے سے باہر نکالتے ہوئے کہا ۔ پھر دروازے سے باہر نکلتے ہی وہ اپنی سائیکل پر سوار ہو گیا اور آہستہ آہستہ پیڈل مارنے لگا ، اُس کی دُکان زیادہ دُور نہیں تھی ، جلد ہی آ گئی، شدید گرمی میں پورا بازار سُنسان پڑا ہوا تھا،اکثر دُکانوں کے شٹر نیچے گرے ہوئے تھے، اور جو دُکانیں کُھلی تھیں ۔ ۔ اُن کے آگے دُکانداروں نے بڑے بڑے چق آویزاں کر دیئے تھے ۔ اُس نے بھی اپنی گھڑیوں کی دُکان کھول کر دُھوپ سے بچنے کے لیے آدھا شٹر نیچے کر لیا اور آرام کرسی پر بیٹھ کر اُس نے دراز سے اپنا نامکمل ناول باہر نکال لیا اور اُسے لکھنے لگا ۔ ابھی مشکل سے اُس نے ایک دو لائنیں ہی لکھی ہوں گی کہ بیٹی کے سوال نے اُس کا قلم پکڑ لیا ۔ اُس نے لکھنا بند کر دیا ۔ اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر سوچنے لگا ’’ معاشرے میں اَدیب کا مقام کیا ہے ؟ اور اِس اہم سوال کا جواب وہ اپنی بیٹی کو کیا دے ؟ کیا اُسے کہہ دے کہ اَدیب ایک تھرڈ کلاس شہریا ہے ۔ ‘‘ ایک خیال اُس کے دماغ سے آ کے گزر گیا ۔۔۔۔۔۔ ’’ نہیں ! نہیں !! نہیں !!! ‘‘ اُس کا پورا وجود یک بارگی کانپ اُٹھا ۔ ۔ ’’ مم ۔۔ ۔۔ میں تھرڈ کلاس شہریا تو نہیں ۔ آس پاس کا پورا بازار میری عزت کرتا ہے ۔۔۔ کالجوں ‘ یونیورسٹیوں کی لڑکیاں میرے ناول شوق سے پڑھتی ہیں ۔ ۔ مم ۔۔ ۔ میں تھرڈ کلاس شہریا ؟ نہیں ! نہیں !! یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ‘‘ اُس نے اپنے ماتھے پہ ہاتھ پھیرا تو پنکھے کی تیز ہوا کے باوجود اُس کا ماتھا پسینہ اُگل رہا تھا ۔۔۔
’’ تو پھر کیا اَدیب اول درجے کا شہری ہے ؟ ‘‘ ایک اور سوال اُس کے ذ ہن میں اُبھرا ۔ اور وہ خود ہی بُڑبُڑانے لگا ۔ ’’ اَول درجے کا شہری ؟ اَول درجے کا شہری ؟؟ ‘‘ اِتنا بُڑبُڑاتے ہی اُس کاذہن اپنے دو کمروں پہ مُشتمل کرائے کے مکان میں چلا گیا ۔’’ مم ۔۔ میں اَول درجے کا شہری تو نہیں ۔ مُجھ سے زیادہ اَمیر تو وہ لوگ ہیں جو چاٹ سموسوں کی ریڑھیاں لگاتے ہیں ۔ ‘‘ اچانک ایک چیخ سی اُس کے حلق سے اُٹھی اور پھر اندر ہی گھٹ کے رہ گئی ۔۔ اُس نے دو تین بار اپنے گلے کو مسلا اور پھر گھبرا کر اُس نے اپنی سیٹ چھوڑ دی اور ایک طرف رکھے مٹکے پہ ٹوٹ پڑا ۔۔ دو چار گلاس حلق میں اُنڈیلنے کے بعد اُس کا سانس قدرے بحال ہوا ہی تھا کہ ایک درمیانے درجے کا سوال اُس کے ذہن سے گُزر گیا ۔ ’’ کیا اَدیب درمیانے درجے کا شہری ؟ نہیں ! نہیں !! خُدا کے لیے بس کرو ۔۔۔ ‘‘ اِس بار اُس کی آواز پوری دُکان میں گونج اُٹھی ۔’’ درمیانے درجے کا اَدیب تو بہت برا ہوتا ہے ، بہت ہی برا ہوتا ہے ۔ اُس کا لکھا اَثر ہی نہیں رکھتا ۔۔‘ اب پتہ نہیں اُس کی آواز زیادہ گونج گئی تھی یا آس پاس ہی اُس کے گاہک ٹہل رہے تھے ۔
دو چار آدمی اچانک شٹر اُٹھا کے اندر داخل ہو گئے ۔۔ ’’ کیا ہوا ؟ کیا ہوا ؟ مناظر صاحب ! خیریت تو ہے نا ؟ ‘‘ اُنہوں نے آتے ہی نیچے فرش پہ گرے ہوئے مہتاب مناظر کو سہارا دے اُٹھا لیا تھا اور پھر ہاتھ لگا لگا کر اُس کا چہرہ ٹٹولنے لگ گئے ۔۔ ’’ کک۔ کچھ نہیں ۔۔۔۔ بس یونہی چکر سا آ گیا تھا ۔۔۔۔ باہر گرمی بھی تو بہت ہے نا ۔ ‘‘ اُس نے جلدی سے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا ۔۔ ’’ گرمی!!! یہ کیا فرما رہے ہیں مہتاب صاحب ؟ باہر تو پچھلے ایک گھنٹے سے مُوسلا دھار بارش جاری ہے ۔۔ ہم اُسی سے بچنے کے لیے ہی تو آپ کی دُکان کے باہر کھڑے تھے ۔ کہ اَچانک کسی کے دھڑام سے گرنے کی آواز آئی ۔۔۔ ہم شٹر اُٹھا کر اندر داخل ہوئے تو آگے آپ فرش پر بے ہوش پڑے تھے ۔۔ ‘‘ ایک آدمی نے اُسے سہارا دے کے کرسی پر بٹھاتے ہوئے ساری رام کہانی سنا دی تھی ۔
’’ اَوہ ہاں ! میرا سر اِس وقت درد سے پھٹ رہا ہے ۔ ‘‘ مہتاب مناظر کے منہ سے بڑی مُشکل سے نکلا ۔۔ ’’ میرا خیال ہے مناظر صاحب ! آپ میری چھتری لے جائیں اور اپنے گھر جا کے آرام کریں ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ساتھ ہی ہارڈوئیر کی دُکان والے رفیق صاحب بول پڑے اور اُس کی تائید میں آس پاس کھڑے کئی لوگوں کی گردنیں ہل گئیں ’’ آپ ٹھیک کہتے ہیں رفیق صاحب ‘ بڑی دیر سب کی شکلیں دیکھنے کے بعد مہتاب مناظر کے منہ سے نکل سکا تھا ۔ اور پھر وہ اپنی دراز میں ہاتھ ڈال کر دُکان کی چابیاں ٹٹولنے لگا ۔ ۔۔ اِتنی دیر میں لوگ بھی آہستہ آہستہ اُس کی دُکان سے باہر کھسک رہے تھے ۔ ۔ باہر بارش کا زور بھی ٹوٹ چکا تھا ۔ ۔ اور اب وہ کافی ہلکی ہو چکی تھی ۔۔ ۔۔ جب سب لوگ ایک ایک کر کے اُس کی دُکان سے باہر نکل گئے تو اُس نے بھی دُکان کی چابیاں اُٹھا لیں ۔۔۔۔۔۔ اور ایک ہاتھ میں رفیق صاحب کی چھتری سنبھال کر اپنی دُکان سے باہر نکل آیا ۔۔ ۔ اور پھر اُسے تالے کے حوالے کر کے خود چھتری سنبھالتا ہوا اپنی سائیکل پر سوار ہو گیا ۔ ۔۔ بارش کی وجہ سے جگہ جگہ کیچڑ جمع ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی سائیکل اور کپڑے بچاتا بازار سے باہر نکل آیا ۔۔ سرد ہوا کے ساتھ بارش نے پھر زور پکڑ لیا تھا مگر اُسے یُوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اُس کا پورا جسم کسی سوالی اَنگارے کی زد میں ہو ۔ پھر اُس ایک اَنگارے نے کئی دہکتے ہوئے اَنگاروں کی شکل اِختیار کر لی ۔۔۔۔۔
’’ اَدیب ؟ ۔۔۔ ۔ کیا ہے اَدیب ؟ ۔ ۔ مُفلس ۔۔ ۔۔ تھرڈ کلاس شہریا ۔ ۔۔۔ قلاش ۔ اپنے آپ کو فریب دینے والا ۔۔ ۔۔ پوری قوم کا ضمیر ۔ ۔ اُس کی سوچ کا معمار ۔ آنے والے وقت کو کئی زاویوں سے پرکھ لینے والا ۔۔۔۔۔۔ کُچھ اور ۔۔۔۔۔۔ یا کُچھ بھی نہیں ؟ ‘‘ اِتنا سوچتے ہی اُس کی سائیکل ڈگمگا کر رہ گئی ۔۔ ۔ اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا ۔۔ ایک کار والی لڑکی اُسے یُوں بے دھیانی سے سائیکل چلاتے دیکھ کر منہ ہی منہ میں کُچھ بُڑابُڑا رہی تھی ۔ ۔ مہتاب نے اپنی سائیکل کی رفتار تیز کر دی ۔ ۔ اب وہ جلد سے جلد کسی پناہ گاہ کی تلاش میں تھا ۔ اُسے یُوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ اگر کچھ دیر اور اِن اَنگاروں کی زد میں رہا تو اُس کا پورا وجود خاکستر ہو کر رہ جائے گا ۔ ۔ اور خالی راکھ باقی رہ جائے گی اُس نے دو تین گاڑیوں کے درمیان سے اپنی سائیکل نکال لی اور ابھی اُسے اپنے گھر کی گلی کی طرف موڑنے ہی والا تھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ جانے کہاں سے نمودار ہو گیا ۔۔۔۔۔ مہتاب نے اُس کو بچانے کے لیے سائیکل اپنے دائیں طرف لہرائی ہی تھی کہ اُس کی سائیکل سامنے سے آنے والی ایک ریڑھے سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔۔ مہتاب کی آنکھوں میں ترمرے سے ناچ اُٹھے ۔۔۔۔ چھتری اُس کے ہاتھ سے نکل کر دُور کسی نالی میں جا پڑی اور وہ خود ریڑھے کے اُوپر آ رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اِس سے پہلے کہ وہ اُٹھتا ۔۔۔ ۔ ریڑھے والا شہری اُس کے سر پر پہنچ چکا تھا ۔۔ تھوڑی دیر میں مہتاب مناظر کا گریبان اُسی شہری کے ہاتھ میں تھا اور وہ کہہ رہا تھا ۔ ۔ ’’ تیری ایسی کی تیسی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کرتا کیا ہے اَوئے ؟ ‘‘
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں