• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ادارہ ہو تو غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ کی طرح ہو ورنہ نہ ہو۔۔۔۔اے وسیم خٹک

ادارہ ہو تو غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ کی طرح ہو ورنہ نہ ہو۔۔۔۔اے وسیم خٹک

میں پین دی سری سرکار کا سب سے بڑا ناقد ہوں جو اسلام کے نام پر لوگوں کو مشتعل کرکے معصوم عوام کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں بلکہ یہ سرکار ان کاموں کے لئے اور موٹی موٹی گالیوں سمیت خود اسلامی افکار کی دھجیاں بکھیر رہاے ہیں  ـ جن  کی ویڈیوز یو ٹیوب اور دوسرے  سوشل میڈیا پر موجود ہیں. گزشتہ روز بھی یہی کچھ ہوا، ـ پورے ملک کو  سرکار نے سر پر اُٹھایا ہوا ہے جہاں حالات کی خرابی کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش  کی گئی۔ـ بدقسمتی سے اُس میں ہماری یونیورسٹی وومین یونیورسٹی صوابی بھی شامل تھی، ـ انتظامیہ کی جانب سے یونیورسٹی بند کی گئی تو ہم صوابی میں محصور ہو کر  رہ گئے، اب پورا دن فلیٹ میں گزارنا ممکن نہیں تھا،ـ ایک مہینہ صوابی میں ہوا تھا، مگر یونیورسٹی اور رہائش کی جگہ سے باہر نہیں گئے تھے ـ یہ تو سرکار کا نظر کرم تھا کہ ہماری محصوری ہوگئی اور یوں ہم نے یونیورسٹی کے دوستوں معصوم شاہ صاحب، بلال خٹک اور فہد منیر لکھوی کے ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا  کے بہترین ادارے غلام اسحق خان انسٹی برائے انجینیرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (یہ جی۔ آئی۔ کے انسٹی ٹیوٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) جانے کی منصوبہ بندی کی کہ اس انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا جائے کیونکہ لوگوں سے اس ادارے کے بارے میں کافی باتیں سنی تھیں کہ خیبر پختونخوا میں اس جیسا کوئی ادارہ نہیں اور یہ ملک کے بہترین اداروں لمس ، نسٹ ، آئی بی اے اور این سی اے کے معیار کا ہے جہاں ملک بھر کے ذہین لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں اور جب یہاں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور کسی ادارے میں ملازمت کے لئے اپلائی کرتے ہیں تو پہلی ترجیح جی آئی کے کے طالب علم کو دی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ ادارے کی کریڈیبیلٹی ہے جس کی دنیا معترف ہے ـ۔

یہ ادارہ سابق  صدر مرحوم غلام اسحق خان کے نام پر بنایا گیا ہے اور اس کا افتتاح 1993میں ہوا ـ اب تک ہزاروں طلباء وطالبات  اس ادارے  سے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں ـ اس وقت اس ادارے میں سائنس اور انجینرنگ کی فیکلٹیوں میں اٹھارہ سو سے زائد طلبہ اور چار سو سے زائد فیکلٹی ممبران جی آئی کے میں ہر قسم کی سہولیات سے بہرہ و ہو رہے   ہیں۔ ـ اگر طالب علم ہے تو اسے کتابوں سمیت انٹرنیٹ کی سہولت،  بہترین ہاسٹل جس میں صوبائی حکومت اور سابق صدر ممنون حسین کی ہاسٹل بھی  شامل ہیں ـ موجود ہیں ـ طلبہ کے لئے جمنازیم ، ریسٹورنٹ ، ضرورت کی اشیاء  کی دکانیں اور مفت میڈیکل سہولیات کے علاوہ اُن کے والدین کے لئے بھی پیرنٹس رومز بنائے گئے ہیں جو اپنے بچوں سے ملنے آتے ہیں تو انسٹی ٹیوٹ میں کچھ دن گزار سکتے ہیں ـ جے آئی کے میں انٹرنس بغیر شناخت کے ناممکن ہے کیونکہ جے آئی کے میں کوئی بھی آؤٹ سائیڈرنہیں ہے اور مہمان  اپنے وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتاـ ایک ہزار سے زیادہ جریب پر مشتمل جی آئی کے میں سیکورٹی پر سخت زور دیا جاتا ہے ـ جگہ جگہ پر پیکٹ بنے ہوئے ہیں ـ سٹوڈنٹس کے لئے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں سالہاسال جاری رہتی ہیں ـ جس کی بدولت انسٹی ٹیوٹ کا اپنا ایک مقام بن گیا ہے ـ طلبہ کے لئے ہر قسم کی سہولت کی  دستیابی کے ساتھ ساتھ فیکلٹی ممبران اور ورکرز کو بھی بہترین رہائش مہیا کی گئی ہے ـ جس میں پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسر،  لیکچرر، انجینئرز اور لیب ٹیکنیشن کے لئے عمارتیں موجود ہیں جہاں وہ اپنی فیملی سمیت رہائش اختیار کر سکتے ہیں ـ بیچلرز کے لئے ایک کمرے کا فلیٹ بھی بنایا گیا ہے ـ جے آئی کے میں ساری سہولیات کے برعکس ایک بڑی ڈرا بیک یہ ہے کہ کوئی بھی فیکلٹی ممبر مستقل نہیں ـ ادارہ کسی بھی وقت کسی بھی وجہ پر اپنےملازم کو ادارے سے فارغ کرسکتا ہے ـ جو ملازمین کے سروں پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار ہے ـ ۔
€
انسٹی ٹیوٹ میں غلام اسحق خان نے اپنے لئے اپنی زندگی میں ہی ایک جگہ مختص کی تھی کہ اگر میری موت ہوجائے تو مجھے جی آئی کے میں دفن کر دیا جائے جس کی تعمیر پر اس وقت ایک کروڑ سے زیادہ خرچہ کیا گیا مگر غلام اسحق خان کی وفات کے بعد اس کی  بیوی نےاُسے ڈیفنس پشاور میں دفن کیاـاور وہ جے آئی کے کی جگہ یوں ہی  پیسوں کے ضیاع کا باعث بن کر جھاڑیوں میں اٹی ہو ئی حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے جبکہ غلام اسحق خان کا گھر ابھی تک بہترین حالت میں ہے جسـمیں صدر  ،گورنرز اور بڑی بڑی شخصیات  آکرٹھہرتی ہیں ـ صدر پاکستان لازمی سال میں ایک دفعہ اس کا وزٹ کرتے ہیں ـ اسـلئے گھر بہترین کنڈیشن میں ہے ـ ۔
جی آئی کے میں وزٹ کے دوران ہمیں یہ محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ ہم خیبر پختونخوا کے کسی ادارے میں موجود ہیں کیونکہ ہر چیز ایک منظم طور پر تھی ـ تو ذہن صوبے  کی دیگر یونیورسٹیوں کی جانب گیا  جہاں ہر قسم کی سہولیات کا فقدان ہے ـ طلباء اور طالبات سمیت فیکلٹی کے لئے کوئی بھی سہولت حتی کہ کلاس رومز اور دفاتر نہیں ہیں ـ باقی چیز یں تو دور کی بات ہے ـ بہت سی یونیورسٹیاں اپنی عمارتیں نہیں رکھتیں اور اگر انہوں نے منصوبہ بندی عمارت بنانے کی کی ہے تو وہ جے آئی کے کی طرح کسی بھی طور نہیں ـ لیبارٹریاں،  ہاسٹلز،دفاتر کسی بھی جانب نہیں سوچا گیاـ حالانکہ اس وقت صوبہ بھر میں دودرجن کے قریب یونیورسٹیاں فعال ہیں مگر اُن میں سے کوئی ایک بھی جی آئی کے کے پائے کی نہیں ـ کیونکہ جی آئی کے ایک سوچ اور وژن کے تحت بنی ہے اور باقی صرف سیاسی سکورنگ کے لئے بنائی گئی ہیں جہاں سب اپنے حصے کا حق ادا کررہے ہیں ـ اور ادارے کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں ـ جے آئی کے جیسے ادارےمیں ایک دن گزار کر میں  اس نتیجےپر پہنچا کہ اگر حکومت اور پھر یونیورسٹی کا وائس چانسلر چاہے تو یونیورسٹی کو دوام  بخش سکتا ہے ـ کیونکہ اس کے ہاتھ میں اختیارات ہوتے ہیں ـ اور کبھی بھی کوئی کمزور شخص بڑے فیصلے نہیں لے سکتا ـ دوسری جانب حکومت تب تک یونیورسٹی نہ بنائے جب تک وہاں عمارت مکمل نہ ہو اور اساتذہ سمیت طلبہ کو سہولیات فراہم نہیں کی جاتیںچ، ـاس وقت تک کوئی تقرری بھی نہ کی جائے ـ جب انفراسٹرکچر بن جائے جبکہ میری تو حکومت وقت سے گزارش ہے کہ صوبہ بھر کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کرایا جائے کہ یونیورسٹی کے لئے یہ رول ماڈل اپنایا جائے ـاور اگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا تو یونیورسٹی ہی نہ بنائی جائے ـاگر ادارہ ہو تو جے آئی کے کی طرح ہو ورنہ نہ ہو ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply