ابھی تک ریل کےآگے انجن دوڑ رہا ہے۔۔۔۔۔اسد مفتی

شاید وقت آگیا ہے کہ قوم زندگی،بیداری اور تحریک کا ثبوت دے ۔اور وزیرسفیر ہر قسم کے ذمہ  دار لوگ لیپا پوتی کے روائتی آشوب سے نکل کر بددیانتی اور بد عنوانی کے عفریت پر قابوپانے کی سبیل نکالے ۔آج میں فرزندانِ کوہستان اور رائٹ ہینڈ آف عمران سے امید رکھتا ہوں کہ ریلوے کے مسائل کے ساتھ محنت کشوں کے مسائل پر  بھی توجہ دیں گے اور عوامی آمد ورفت کے اس ذرائع کو خسارے سے نکالنے کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں گے ۔
یہاں میں اس توانائی سے بھرپور شیخ رشید کے ہمسایہ ملک بھارت کے ریلولے نظام کو دنیا کا نمبر ون نظام بنائے  جانے کی تگ و دو کی مختصر کہانی اپنے حساب سے پیش کررہا ہوں   کہ ” دشمنی “کی خوبیوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے ۔

متحدہ ہندوستان میں ریلوے نظام کا آغاز 156 برس پہلے ہوا تھا ۔ پہلی ٹرین نے پوری بندر بمبئی سے تھانے تک 34 کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا ۔ لیکن اس کا رسمی افتتاح 16 اپریل 1853 کو ہوا ۔ یہ ٹرین 14 ڈبوں پر مشتمل تھی اور اس پر 400 مسافروں نے جو سبھی مدعو تھے بغیر ٹکٹ سفر کیا تھا (یعنی اس کی ابتدا ہی بغیر ٹکٹ سفر کے ہوئی تھی ) پہلی ٹرین کو 21 توپوں کی سلامی دی گئی ایک سال کے بعد تھانے سے ریلوے پٹری کو کلیان تک بڑھا دیا گیا تو ایک مرتبہ پھر اس کے افتتاح کی رسم سر انجام دی گئی ۔تب سے آج تک یہ پاک و ہند ریلوے نے کارکردگی کا ایک طویل سفر طے کیا ہے ۔جس میں آزادی سے قبل راجہ مہاراجہ نواب اور والیانِ ریاست کے علاوہ برطانوی دور حکومت نے حصہ لے کر پورے برصغیر میں ٹرینوں کا ایک جال بچھا دیا ۔ تقسیم ملک کے بعد دونوں ملکوں میں یہ ریل ترقی کی پٹری پر خود  ریل پیل سے  دوڑنے لگی۔ایک نظم کے تحت چلنے والا یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ٹرانسپورٹ نظام بن گیا ۔ مگر بھارت کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں رہ گئے۔

کہا جاتا ہے کہ بھارت کو ریلوے خدمات ملک کے جسم میں پھیلی ہوئی سانسوں کی طرح ہے جس میں دورانِ خون کی طرح ٹرینوں کی گردش کا سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔ اس ریلوے نظام کی ہمہ گیری کا اندزہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھارت میں 7 ہزار سے زیادہ اسٹیشن ہیں اور اس سے زیادہ انجن دوڑ رہے ہیں ۔50 ہزار سے زیادہ مسافر ڈبے اور سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والی لگ بھگ 4 لاکھ بوگیاں ہیں ۔
ریل کوچ فیکٹری میں سال میں 2500 ڈبے تیار کرتا ہے ۔ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک 64 ہزار کلو میٹر ریلوے لائنوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔16 لاکھ سے زائد ریلوے ملازمین ایک روڑ سے زائد مسافروں کے سفری انتظام میں ہمہ تن مصروف ہیں۔

گزشتہ تین برسوں میں انڈین ریلوے نے سامان ڈھونے اور مسافر وں کے ذریعے ہونے والی  آمدنی میں جس طرز  کا اضافہ کیا ہے اس کی تعریف ہر طرف سے ہورہی ہے ۔آج بین الاقوامیت کے دور میں بنیادی ڈھانچہ کی صلاحیت اور معیار کا فیصلہ عالمی طور پر “کیا کھویا اور کیا حاصل ہوا” سے طے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں مسافروں سے آمدنی میں سات فیصد اور دھلائی سے 9 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔
زائرین ریلوے کے پاس 4300 ہیکٹر خالی زمین پڑی ہوئی ہے ۔ان میں زیادہ تر ریلوے لائنوں کے دونوں طرف اسٹیشنوں کے قریب اور ریلوے کالونی کے آس پاس کی زمینیں ہیں ۔ان کو تجارتی پیمانوں پر تیار کرکے ریلوے کی آمدنی میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ان فاضل زمینوں کو سامان رکھنے  کے لیے گودام سے بھی محکموں کو فاضل رقم حاصل ہوئی ہے ۔دہلی اور بمبئی جیسے اسٹیشنوں کو جدید بنا کر عالمی پیمانے کی سہولیات اور خدمات فراہم کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچنے والا ہے اس پروگرام کو چلانے کے لیے عوامی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا گیا ۔ جس کے لیے اسٹیشنوں کے آس پاس اور پلیٹ فارم کے اوپر کی جگہوں کو تجارتی طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔پہلے مرحلے میں 22 اسٹیشنوں کا انتخاب کیا گیا ہے ۔انڈین ریلوے کیٹرنگ اور ٹورازم کارپوریشن کے ذریعے کیٹرنگ خدمات ،بجٹ ہوٹلوں اور اہم اسٹیشنوں پر فوڈ پلازہ کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے ۔

مذکورہ ادارہ ابتدائی طور پر 9 برس کے لیے اہم ریلوے اسٹیشنوں پر نیا فوڈ پلازہ کھولنے کےلیے عوامی نجی شرکت داری کو لائسنس دے چکی ہے ۔ابھی تک ایسے 60 پلازہ کھولے جاچکے ہیں ۔انڈین ریلوے کے آئندہ پنج سالہ منصوبے کے دوران ریلوے کی ترقی اور جدید کاری کے لیے 3 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی ۔جس کا 40 فیصد عوامی نجی شراکت داری سے حاصل کیا جائے گا ۔
ان حقائق اور اعداد و شمار کو پیش کرنے کا مقصد صرف انڈین ریلوے نظام کی وسعت اور ترقی کو ظاہر کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان ریلوے پر کیا افتاد آن پڑی ہے جووہ ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ جیسا کہ کہا گیاہے انڈین ریلویز کا آغاز برطانوی دور حکومت میں ہوا ۔آزادی کے 70 سال ہی دونوں ملکوں کے حصے میں آئے ہیں ۔انڈیا کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔اور ہم کہاں رہ گئے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر ہمارے ساتھ خرابی کیا ہے ؟۔۔۔۔ یہ زبوں حالی کیوں ہے ؟ کیا یہاں ذہین لوگوں کا قحط ہے ؟ کیا اس علاقے سے گزرنے والی ہوائیں نا مہربان ہیں۔ ہم نے بہت کچھ سنا اور دیکھا لیکن جو حاصل ہے وہ کیا ہے ؟ہمیں تو آزادی بھی ٹھیک سے نصیب نہیں ہوئی ۔
مانا کہ ہمارے ہاں بھی ریلوں کا جال کچھ نہ کچھ پھیلا ہوا ہے ۔لیکن آزادی کا حلقہ اثر محدودہوتا  چلا گیا ۔ ہماری آزادی کو تیز رفتاری سے چلنا چاہیے ۔نشیب و فراز کو عبور کرنا چاہیے ۔ریل کی پٹری ایک توازن کے ساتھ دوڑ رہی ہے لیکن جمہوریت بارہا اپنی شاہراہ سے بھٹک جاتی ہے ۔جس طرح ٹرین کے ڈبے اپنے انجن کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں عوام اپنی قومی قیادت کو کبھی قبول کرتے ہیں تو کبھی مسترد کردیتے ہیں ۔کثرت میں وحدت ۔۔ہماری  جمہوریت نے ابھی رفتار نہیں پکڑی ،اسے تیز رفتار سے چلنا چاہیے نشیب و فراز کو عبور کرنا چاہیے۔جس طرح ریلوں سے پہاڑوں کو عبور کیا اور دریاؤں کو پار کر گئیں ،اسی طرح جمہوریت کو بھی اپنے سامنے آنے والی تمام رکاوٹوں اور دقتوں سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔
پاکستان میں ریلوے نظام جیسا تیسا بھی ہے ،ابھی تک ریل کے آگے انجن دوڑ رہا ہے ۔لیکن میں سوچتا ہوں اگر اس کے ڈبے بھی اپنی مرضی سے اپنی سمت اور پٹریاں منتخب کرنے لگیں تو کیا ہوگا؟
میں بھی سوچتا ہوں شیخ صاحب آپ بھی سوچیے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply