• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شش!چپ کر جاؤ ورنہ مولوی آجائے گا ۔۔۔۔۔۔روبینہ فیصل

شش!چپ کر جاؤ ورنہ مولوی آجائے گا ۔۔۔۔۔۔روبینہ فیصل

جیسے مائیں بچوں کو ڈراتی ہیں چپ کر جاؤ  ورنہ بھوت آجائے گا بالکل اسی طرح جب بھی کسی مولوی کے خلاف کوئی بات لکھنی ہو تو ہر طرف ایک شور سا پڑ جاتا ہے ۔۔چپ چپ ۔۔ احتیاط سے ۔۔ ۔۔ورنہ ۔۔۔مولوی آجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔دفتر کو آگ لگا دے گا ، گاڑی کے شیشے توڑ دے گا ، عزت پر حملہ کر دے گا ، شہر جام کروا دے گا اور حد یہ ہے کہ قتل کافتوی دے کر مروا دے گا ۔۔۔۔۔ اور سب ڈر جاتے ہیں ، چپ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیر خواہ مجھے بھی سمجھاتے ہیں کہ : ان باتوں پر لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ہم اگلے پانچ سو سال تک جاہل ہی رہنے والے ہیں اور میں کہتی ہوں کہ آج میرے جیسے سر پھروں نے نہ لکھا تو ، وہ اگلے پانچ سو سال بھی ہم پر نہیں آنے والے۔
تو کیا اسلام صرف ایک مولوی ہے یا کیا مولوی ہی اسلام ہے ؟ تو اس کے رویے پر تنقید اسلام کے خلاف کیسے ہو جاتی ہے ؟
کیا سورۃ الکافرون میں اللہ نہیں کہتا “اور تم اپنے دین پر اورمیں اپنے دین پر ۔۔۔”
یاکیا اللہ نے کہیں کہا کہ اے بندے ( مولوی ) آ اور آکرمیری اور میرے پیغمبر کی عزت کو بچا ؟
کیا اللہ نے کہا کہ میری ترجمانی یا پیغام قران پاک نہیں یہ مولوی کریں گے ؟
ہر کوئی کہتا ہے بس احتیاط ۔۔ توہینِ رسالت کا معاملہ انتہائی حساس ہے ۔۔ یہ سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں ۔ مانتی ہوں یہ معاملہ حساس ہے ۔ لیکن کیا کسی نے یہ سوچا توہین رسالت کر کون رہا ہے ۔۔ تو سنیں !۱ توہین رسا لت وہ مولوی کر رہا ہے جو عدالتی فیصلے کے خلاف کھڑا ہو کر عدالت اور حکمرانوں کے خلاف قتل کے فتوے دیتا ہے ۔ کیا میرے پیارے نبی کا یہ انداز تھا ؟ کیا وہ اپنی امت سے یہ چاہتے تھے ؟ عدم برداشت ؟ ناانصافی ؟ حکومتی اور عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑانا ؟ انسانوں کو فتوی دے کر قتل کروانا ؟ گندی اور لغو زبان استعمال کرنا؟ ہڈ حراموں کی طرح لوگوں کی مفت کی روٹیاں توڑنا اور حلوے کھا نا ؟ ملک میں انتشار پھیلانا ؟ مجبور اور بے کس لوگوں پر ظلم کر نا ؟ ان سب احکامات کو نہ مان کر توہین رسالت کون کر رہا ہے ؟ قتل کا فتوی کس کے خلا ف دینا چاہیئے ؟

مجھے ،پاکستان کے ایک بڑے اخبار نے کہا ، انسانی حقو ق کی بات بھی کرنا ہو تو فلاں فرقے کا نام نہ لکھیں ، مولوی ہمارے دفتر کو آگ لگا دیں گے ۔۔۔ واہ واہ ۔۔۔ تو کیا مٹھی بھر آگ لگانے والوں کو پکڑنے کے لئے کوئی قانون کوئی پولیس نہیں ؟یہ کالم بھی نہیں وہاں چھپے گا ۔۔شائد کہیں بھی نہ چھپے ۔۔۔
چند سال پہلے ٹورنٹوکے قونصلیٹ میں ایک پاکستانی سرکاری افسر نے قادیانیوں کے کسی پروگرام کو دفتری ای میل سے یہ سوچ کر اپنے ای میلز ڈیٹا کو فارورڈ کر دیا کہ یہ بھی پاکستانی شہری ہی تو ہیں ۔۔ لیکن ایک ہنگامہ بپاہو گیا ا ،پاکستان میں بیٹھے ایک دو ملا نما صحافیوں نے اس افسر کے خلاف کالم تک لکھ ڈالے ،یہاں تک کہ مقامی مسجدوں کے امام بھی اس سے خفا ہو گئے۔۔ مجھ سے یہ سب دیکھا نہ گیا میں نے اس افسر سے کہا میرے پروگرام دستک میں آئیں اورہم اس جہالت پر پروگرام کرتے ہیں ۔۔ وہ افسر آئے ضرور مگر مجھ پر اس وقت حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب وہ اس موضوع پر بات کرنے کی بجائے، یہاں کی مقامی مسجدوں اور ان کے اماموں کا فردا فردانام لے کر تعریفوں کے پل باندھنے لگے ۔۔ میں سوال کر رہی تھی گندم جواب آرہا تھاچنا ۔۔۔ پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری اور اکیلی جس حد تک اس مذہبی غنڈہ گردی کی مذمت کر سکتی تھی کی ۔۔

اس اخبار کا خوف اور اس سرکاری افسر کا خوف ۔۔۔۔سب کے خوف نے مل کر مجھے اور بے خوف بنا دیا ہے اور مجھے جو کہنا ہے کہہ کے ہی دم لوں گی ۔۔۔ فرقوں کی بنیاد پر یا اپنے مذہب کے غرور میں ، شہریوں کے ساتھ نا انصافی ، میری سمجھ سے باہر ہے اور اس پر آواز اٹھانا میرے ضمیر کی مجبوری ۔ اورمیں ایسے کسی مولوی کو نہیں مانتی جنہوں نے مذہب کو پیشہ بنا رکھا ہے ۔ جسم بیچنے والے کو جسم فروش کہا جاتا ہے تو مذہب بیچنے والوں کو کیا کہنا چاہیے ؟ ۔۔پاکستانی عوام میں تعلیم اور شعور کی کمی اور غربت کی زیادتی کی وجہ سے مذہب ایک ایساشعبدہ بن چکا ہے جسے مولوی کسی سرکس کے مداری کی طرح اپنے حساب سے اندھی عوام کو دکھاکر ان کی آنکھوں کو چکا چوند کر دیتا ہے ۔
پانی کا جھگڑا ہو ، یا کسی کی عزت کے ساتھ کھلواڑ ( میں نے سچے واقعہ پر ایک افسانہ پاک سر زمین ) لکھا تھا ، پڑھیں اور سوچیں ۔۔ توہینِ رسالت اور توہین مذہب و خدا کو کہاں کہاں کس کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے ۔۔ کبھی زمین کے ایک ٹکڑے کے لئے تو کبھی پانی کے ایک گھڑے کے لئے۔۔ بات تو یہ ہے کہ یہ مولوی مذہب کو بیچنا بند کردیں تو کھائیں گے کہاں سے ؟ایک ایک کنال پر پھیلے ان کے پیٹ اور میلوں دور پھیلی زبان ، ان کو کیسے پالیں گے ؟

ڈاکٹر غامدی صاحب اور ان جیسے کئی دوسرے اسلامی سکالرز نے صاف صاف بتایا ہے کہ قران پاک میں کہیں توہین رسالت کا قانون نہیں ہے ۔ایک بات یاد رکھنے کی ہے ، توہین رسا لت کا قانون اسلام کی” آخری کتاب “میں نہیں ہے ، یہ ان گوروں کا بنایا ہوا قانون ہے جن سے نفرت کا درس مولوی کے منبروں سے اٹھتا ہے ۔ جو لاوڈ سپیکر بناتے ہیں تو یہی مولوی کہتا ہے شیطان اس میں بولے گا ، اور جب خود نان سٹاپ اس میں بولتے ہیں تو کوئی یہ کہنے کی ہمت نہیں رکھتا کہ کیا واقعی انگریز کے لاوڈ سپیکر میں شیطان بول رہا ہے ؟ “ہاں” کہیں گے تو خود شیطان کے رتبے پر جا پہنچیں گے ،” ناں “کہیں گے تو خود کو جھوٹا ثابت کریں گے ۔۔ انہی انگریزوں نے پاکستان بننے سے بھی پہلے یہ قانون بنا یا تھا تاکہ کوئی کسی کے مذہب کا مذاق نہ اڑائے ۔ یہ قانون دنیا کے تقریبا ہر ملک میں موجود ہے حتی کہ امریکہ میں بھی مگر جس طرح یہ ماچس ، ہمارے بندروں کے ہاتھ میں ہے ، ایسی کہیں اور نہیں ہے ۔
ان مولویوں کے آگے نہ جھکنا ، ان سے نہ ڈرنا اب یہ ہے “جہاد” ۔ اس جہاد کا فتوی سب پڑھے لکھے، پاکستانیوں جن میں دانشور ، صحافی ، سائنسدان ، معیشت دان،سیاست دان،استاد صاحبان اور افسران کو دینا ہو گا ۔۔

ہم سب کو یہ دہرانے کی ضرورت ہے کہ یہ وہی مولوی ہے جس نے اکبر بادشاہ کو دین میں ترامیم کر کے نیا مذہب بنانے کی اجازت دی تھی اور بدلے میں اپنے گھروں کو اشرفیوں سے بھر لیا تھا۔یہ وہی مولوی ہے جس نے جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو کہا تھا کہ مسجدوں میں گھس جاو اور بس اللہ اللہ کرو ، اللہ کی ابابلیں خود ہی آکرکافروں کو ہمارے ملک سے بھگائیں گی اور ساتھ ہی یہ بھی فتوی دیا تھا کہ انگریزی اور سائنس نہ سیکھناکیونکہ یہ جہنم کا راستہ ہے اوراسی زبان سے انہوں نے انگریز کی اطاعت کا حکم دیا اور اپنے گھروں کو فرنگی دولت سے بھرلیا ۔۔ یہ وہی مولوی ہے جس نے افغانستان میں کمیونزم اور روس کے خلاف فتوے دے کر پاکستان کی کھیتی سے مجاہدین پیدا کئے ۔ لوگوں کے معصوم بچوں کو جہاد کے نام پر افغانستان کی جنگ میں قربان کیاور دوسری طرف اپنے بچوں کو کافروں کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کر نے بھیج دیا ۔ کمیونزم اور یہودیت کے خلاف نعرے لگا کر اپنی تجوریاں بھریں اور لوگوں کے صحنوں کو ان کے بچوں سے خالی کیا ۔ پھر یاد کرو اسی مولوی نے انہی جہادیوں کو دہشت گرد کہنا شروع کر دیا ۔ اب فتوووں کا رخ کچھ یوں ہوا ؟ جو ریاست کے خلاف بغاوت کرے وہ دہشت گرد ہے ۔ اور آج یہی مفاد پرست مولوی عدالتی فیصلوں کو بھی چیلنج کر رہا ہے اور حکومت اور عدالت کے خلاف فتوے بھی دے رہا ہے ۔۔قانون کے مطابق دئے گئے آسیہ بی بی کے فیصلے کو مذہبی جذباتیت کے مقابل لا کھڑا کر رہا ہے ۔ ایسی احمقانہ جرات کا حق اسے عوام کی سادہ دلی اور حکمرانوں کی بزدلی اور نااندیشی نے دیا ہے ۔

مولوی صاحب !!اسلام آپ کی رٹی رٹائی عربی زبان نہیں ہے بلکہ اسلام” انسانیت” ہے ۔ اور اسی لئے اس پر مذاہب کا سلسلہ ختم کیا گیا تھا کہ انسانیت کا پیغام مکمل ہو گیا تھا ۔ ورنہ خدا کی عبادت تو ہر مذہب میں ہو ہی رہی تھی ۔
میں جب بھٹو کی تاریخ پڑھتی ہوں تو سب سے زیادہ  دکھ کا پہلو یہی لگتا ہے کہ اس جیسا زیرک اور ذہین بندہ بھی مولوی کے جال سے نہ بچ سکا اور ڈر گیا ،پھر جب بے نظیرآئی تو سوچا کہ آکسفورڈ کی پڑھی ،سیکولر خیالات والی ، ملک میں انسانیت کا انقلاب لے آئیں گی مگر انہیں بھی سر پر دوپٹہ جمائے ہاتھ میں تسبیح پکڑ ے، پیروں فقیروں کی چوکھٹوں پر جاتے دیکھا تو روشن خیالی کی شمع گل ہوئی. ۔۔ مذہب ذاتی معاملہ ہے مگر ریاستی فیصلوں میں ان کی جھلکیاں ، دل کو تکلیف پہنچاتی ہیں ۔عمران خان کی آسیہ بی بی کے فیصلے کے بعد تقریر قابلِ تحسین ہے ، امید ہے کہ وہ اس سے پیچھے نہ ہٹ جائیں ۔۔پاکستان کی جڑوں سے اس مولوی ذہینت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔عمران خان کر گئے تو کر گئے ورنہ پاکستانی سیاست دانوں میں کسی اور میں نہ اتنی جرات ہے اور نہ اتنی لگن ۔ جتنی محبت لوگ عمران سے کرتے  ہیں ، شاید یہ خدا کی دین اسی لئے ہے کہ اس عفریت کا مقابلہ آہنی ہاتھوں سے کر سکے ۔ اگر مذہب بھی نہیں صرف مذہبی جذبات کو ریاستی اور عدالتی فیصلوں سے آج بھی الگ نہ کیا گیا اور مولوی کے پھیلائے شر سے زندگیاں ڈر ڈر کر ہی گذر تی رہیں تو اگلی نسلوں کے لئے ہم ایک نا ختم ہو نے والا جہنم چھوڑ جائیں گے ۔

ریاست کو چاہیے ایسے شر پسند ، کھلم کھلا ججوں کو ، حکمرانوں کو قتل کی دھمکیاں دینے والوں کو فورا ً سے پہلے گرفتا ر کیا جائے ۔ ان کا دانہ پانی بند کیا جائے ۔ کسی کے قتل کا فتوی دینے والے یہ ہو تے کون ہیں ؟ان کے ہاتھوں سے لاوڈ سپیکر اور پاوں کے نیچے سے منبر کا چبوترہ  کھینچ کے تو دیکھیں ۔۔ یا کم از کم ان تک حلوے اور جنت کے مشروب کی سپلائی بند کر کے دیکھیں ۔۔۔
یہ مذہبی غرور اور عداوتیں ، یہ فرقوں کے تکبر اور یہ لسانیت اور علاقوں کی تقسیم ۔۔ان سب نے ہمیں ایک قوم بننے سے روک رکھا ہے ۔ اسی لئے پاکستان سے غدار نکلتے ہیں ۔ ۔ ٹھکرائے ہو ئے اور نظر انداز کئے ہو ئے ، دوسروں کے ساتھ مل کر ملک کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔ مذہب اور زبان سے بالاتر ہو کر ہم سب برابر کے انسان ہیں ، پاکستان کے شہری ہیں ۔ اور ہر شہری کا اپنے ملک پر برا بر کا حق ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ نقطہ سمجھیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کبھی سوچاکیینڈا میں کیوں مختلف مذاہب اور مختلف ممالک کے لوگ ایک دوسرے سے نفرت نہیں کر رہے کیونکہ یہاں کسی کو کسی پر برتری نہیں ہے ۔ بنگلہ دیشی کو یہ نہیں لگتا کہ کوئی پاکستانی مجھ سے زیادہ مراعات لے رہا ہے یا کسی پاکستانی کو یہ نہیں لگتا کہ کوئی انڈین مجھ سے برتر ہے ۔ معیار بس ایک ہی ہے ۔ محنت ، ٹیلنٹ اور لگن ۔۔۔۔ نہ مذہب ، نہ برداری ، نہ ابا جی کا نام ۔۔
اسی لئے ہزاروں مسجدوں ، مندروں ، چرچوں اور گردواروں کے باوجود ۔۔۔ سب کے اپنی اپنی عبادتیں کر نے کے باوجود ۔۔۔۔امن ہی امن ہے ۔ نہ اسلام خطرے میں ہے اور نہ یہودی اور عیسائی دست و گریبان ہیں ، نہ ہندو پریشان اور نہ سکھ دکھی ۔۔ سب خوش ہیں ، پر امن ہیں کیونکہ قانون سب کے لئے یکساں ہے اور پالیسیاں بلا متیاز سب کے فائدے کے لئے ہیں ۔ ایسے حالات میں مذہبی جنونیت اپنی موت خود مر جاتی ہے ۔
اوریہ ملکی نظام کی بے بسی ، بے انصافی اور غربت ہوتی ہے جو ایسے ان پڑھ مولویوں کو معصوم اور غریب ذہنوں کو بھٹکانے کا موقع دیتی ہے ۔۔۔۔ایسے مولویوں سے جیلیں بھر دینی چاہیءں ۔۔ اور غریب بچوں کو مدرسوں میں نہیں سکولوں میں بھیجنے کے لئے تمام حکومتی وسائل لگا دینے چاہیءں ۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”شش!چپ کر جاؤ ورنہ مولوی آجائے گا ۔۔۔۔۔۔روبینہ فیصل

Leave a Reply