صحافتی بابے اور آف دی ریکارڈ کارگزاریاں۔۔۔۔سید شاہد عباس

پاکستان سمیت پوری دنیا میں جس طرح معاشرتی انحطاط وقوع پذیر ہے اس نے نہ صرف شخصیات کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ معاشرہ بھی اس سے دن بدن تنزلی کی طرف جا رہا ہے ۔صحافت میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی تھی “آف دی ریکارڈ” اور صحافت کا ایک ادنیٰ سا طالبعلم بھی یہ جانتا ہے کہ جب بھی کسی پروگرام کی ریکارڈنگ ہو رہی ہو یا خاص طور پہ کسی کا انٹرویو لیا جا رہا ہو اور شخصیت لفظ آف دی ریکارڈ کسی سوال کے جواب میں یا دوران گفتگو کسی بھی  مباحثے میں کہہ دے تو وہ گفتگو یا جواب نہ تو آن ائیر ہوتا تھا الیکٹرانک میڈیا پہ ،نہ ہی شائع ہوتا تھا پرنٹ میڈیا میں۔ کیوں کہ بعض معاملات پہ سچائی ایسی تلخ بھی ہو سکتی ہے جو اشاعت و نشری تقاضوں کے تحت سود مند نہیں ہوتی۔

پچھلے کچھ عرصے سے آف دی ریکارڈ معاملات جس طرح طشت از بام ہونے لگے ہیں اس سے صحافت نے ایک نیا اور نقصان دہ رخ اختیار کرلیا ہے۔ آف دی ریکارڈ معاملات میں شخصیات کو نقصان کے حوالے سے قارئین کو مبشر لقمان اور مہر بخاری کا لیا گیا ایک کاروباری شخصیت کا انٹرویو یقینا ً یاد ہو گا جس کے معاملات آف دی ریکارڈ بھی آن ائیر ہو گئے۔

حسن نثار صاحب کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے یہ بنیادی طور پر صحافتی بد دیانتی کا معاملہ تھا لیکن کوئی شک نہیں کہ اس کا منفی پہلو حسن نثار صاحب کی طرف بھی جاتا ہے کہ ان کا رویہ انتہائی حد تک غیر ذمہ دارانہ اس لیے تھا کہ اگر بالفرض کیمرہ آف بھی تھا تو ان کے ارد گرد دیگر افراد بھی موجود تھے  اور مغلظات ارشاد فرماتے ہوئے ایک لمحہ بھی انہوں نے سوچنا گوارا نہیں کیا کہ ان میں سے بھی کوئی شخصیت ان کے ارشادات کی ریکارڈنگ بھی کر سکتی ہے یا حوالے کے طور پہ کسی جگہ بیان بھی کر سکتی ہے۔

بہر حال صحافتی حوالوں سے اگر تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس پورے معاملے کو صرف صحافتی بدیانتی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ایک کیمرہ مین نے علم میں لائے بغیر نہ صرف ریکارڈنگ کی بلکہ اس کو میڈیا میں بھی پھیلا دیا (یہاں میڈیا سے مراد سوشل میڈیا ہے کیوں کہ بہر حال ایسی ریکارڈنگ ابھی الیکٹرانک میڈیا پہ آ نہیں سکتی کہ اتنی تو اخلاقیات باقی ہیں)۔
بسا اوقات ایسی آف دی ریکارڈ چیزیں اس وقت سامنے آتی ہیں جب ریکارڈنگ کرنے والا کیمرہ مین یا اس ریکارڈنگ سے منسلک افراد یا تو ملازمت سے برخاست کر دیے جائیں یا ان کا ذاتی کوئی اختلاف صاحب ریکارڈنگ شخصیت سے ہو جائے۔

اور اس معاملے میں پوری تحقیق اس لیے بھی لازم ہے کہ اگر یہ روش نہ رکی تو معاملات مزید تنزلی کی طرف جائیں گے۔ اور معاشرتی سطح پر نقصان بڑھتا جائے گا۔ اگر صحافتی اداروں میں سیکورٹی کا یہ عالم ہے کہ ان کے مرکزی پروگرامز کی ریکارڈنگ اس طرح بیچ چوراہے پہ پھوٹنے والی ہنڈیا کے مصداق ہے تو مزید کیا کہا جاسکتا ہے۔ باقی یہ تو اب کھلا راز ہے کہ ہمارے سینئر صحافی حضرات کس طرح نئے لکھاریوں اور نو آموز صحافیوں کے حق کو کس طرح جونکوں کی طرح چمٹے بیٹھے ہیں۔ ایک نووار پڑھا لکھا،اور صحافتی سمجھ  بوجھ رکھنے والا نوجوان اکثر صحافتی اداروں میں براجمان بابوں کی ہٹ دھرمی، ضد اور اکڑ کی نظر ہو جاتا ہے۔ اور یہ صحافتی بابے اپنے علاوہ کسی کو صحافی تک سمجھنے کے روادار نہیں ہیں۔ اور ان کا بے جا غرور ایسی ہی آف دی ریکارڈ کلپس کی صورت میں ردعمل پاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ مثال صرف ان بابوں کے لیے ہے جو صحافتی اداروں میں نوجوانوں کا   راستہ روکے بیٹھے ہیں۔ اب جو جو بابے خود کو سینئر صحافی بھی کہتے ہیں اور حقیقتاً  نوجوانوں کو ساتھ لے کے چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ خود کو اس مثال سے بلا شبہ باہر رکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply