انتہاپسندی، ردعمل کی نفسیات۔قسط9

نوآبادیاتی نظام، اس کی موجودہ ساخت اور اس کے زیر تسلط علاقوں اور افراد پر اثرات کا مطالعہ اس وقت موضوع گفتگو نہیں ہے۔ تاہم زیر نظر گفتگو اس مطالعے سے باہر بھی نہیں ہے۔ نوآبادیاتی نظام کا مطالعہ علم کے مختلف شعبوں مثلاً اقتصادیات، ادب، سیاسیات، کلچر، نسل، اور نفسیات سے تعلق رکھتا ہے۔ مفکرین کی ایک بڑی تعداد کے لیے نوآبادیاتی نظام کا مطالعہ اپنی نوعیت میں مارکسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ کیونکہ یہ مطالعہ استعمار کے ان طریقوں سے بحث کرتا ہے جو اقتصادی استحصال اور کنٹرول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ شاید یہ بات بیان کرنا اہم ہو کہ کارل مارکس نے برطانوی استعمار کے ہندوستان پر قبضے کو سراہا تھا کیونکہ اس نے اس سرزمین پر اس کے باشندوں کے لیے ریلوے، دخانی جہاز، آزاد پریس، سیاست کے ان اسلوب اور ایک تربیت یافتہ فوج جیسی نعمتیں متعارف کرائی تھیں۔

دور حاضر میں استعمار کے اہم وکیل نائیل فرگوسن (Ferguson) نے اسی طرح کی 9 ایسی اشیا ء اور تصورات گنوائے ہیں جو برطانوی استعمار نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ روشناس کرائے۔ گو بعد میں مارکس نے برطانوی قبضے سے برآمد ہونے والے نتائج خاص طور پر انسانی جانوں کے ضیاع پر کڑی تنقید کی۔ نوآبادیاتی نظام کے مطالعے کے تین اسلوب بہت نمایاں رہے ہیں ۔۔۔ اقتصادی، سیاسی اور نفسیاتی۔ بعدازاں کلچر اور نسل کا مطالعہ بھی اس میں شامل کردیا گیا۔ اشیش نندی صاحب سمیت چند اور مفکرین نے اقتصادی پہلوؤں کو خارج از بحث تو قرار نہیں دیا تاہم اس کو وہ اہمیت دینے سے انکار کیا جو بادی النظر میں محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ کس طرح اقتصادی نقصانات کے باوجود نوآبادیاتی تصرف کو برقرار رکھا گیا۔ کہنا وہ یہ چاہ رہے ہیں کہ نوآبادیاتی غلبے، کنٹرول اور استعمار کی اہم ترین وجہ نفسیاتی ہے جو نفسیاتی مطالعے کے ذریعے ہی سمجھ میں آئے گی۔

نندی صاحب اور دیگر مایرین نے ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہا ایسٹ انڈیا کمپنی کے تنخواہ دار ملازم اور اپنے زمانے کے نائیل فرگوسن، جان سٹوارٹ مل نے برطانوی استعمار کی بھرپور وکالت کرنے کے بعد بھی یہ کہا کہ اس طرح کے قبضے کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ وجوہات گنواتے ہوئےاس نے کہا ایسے قبضے کا بنیادی مقصد دوسروں کی سرزمین سے بغیر محنت کیے زیادہ سے زیادہ دولت اکھٹا کرنا ہوتا ہے جس سے استحصال کے نئے دروازے کھلتے ہیں ۔۔۔۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد کارل مارکس نے برطانوی تسلط کی اقتصادی اصلاحات کی حمایت کے باوجود کہا کہ ان اصلاحات کی انسانی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اس لیے برطانوی قیام کی مدت ہندوستان میں کم سے کم ہونی چاہیے۔ جس انسانی قیمت کی جانب مل اور مارکس نے اشارہ کیا وہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع تک محدود نہیں ہے ۔گزشتہ تحریر میں یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔۔۔۔۔

آئیے ایک مرتبہ پھر مینونی کا تذکرہ کریں جس نے نوآبادیاتی استعمار کو خواہش، شناخت اور خوف جیسے جذبات کی اقتصادیات قرار دیا تھا۔۔۔ اس کے مطابق استعمار کے شکار افراد کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ کس طرح اور کس حد تک اپنے کو استعمار سے الگ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ ذرا اس جملے پر غور کریں اور اس نظر انداز کیے جانے والے نابغے کو اس کی بصیرت پر داد دیں۔ استعمار کو گالی دینا اور اپنے ہر مسئلے کی ذمہ داری اس پر ڈالنا تو ممکن اور آسان ہے اور ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ بھی لیکن اپنے کو استعمار سے الگ کرنا اور ہر ممکنہ پہلو سے الگ کرنا ایک جوے شیر کا لانا ہے۔ جس کے لیے مینونی کے جملے کی تفہیم ضروری ہے۔ ۔۔۔۔ اس سکڑتی ہوئی دنیا میں کسی بھی معاشرے یا افراد کے گروہ کے لیے دیگر معاشروں سے اپنے کو الگ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا مطلب وہ علیحدگی ہے جو طالبان اور داعش جیسے گروہوں نے دنیا سے اختیار کی ہے؟ یا وہ علیحدگی ہے جو مغرب میں کئی عشروں سے آباد مسلمان خاندانوں نے اختیار کرلی ہے؟ یا پھر وہ علیحدگی ہے جس کو گایٔتری سپاؤک نے اپنے ایک مجرد سوال Can Subaltern speak?میں اٹھایا ہے؟

یا پھر اس علیحدگی کا مطلب وہ تنقید ہے جو پاکستانی ناظرین اپنے ٹیلی ویژن پر مغرب کے حوالے سے سنتے ہیں جس مغرب کو اپنی تمام تر بدنصیبیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے؟ یہ طالب علم اصرار کے ساتھ ایک گذارش کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ کہ اس سوال کو روا روی میں نہیں لینا چاہیے اس لیے جتنا نظر آتا ہے یہ سوال اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے۔ تاہم اس کے چند سادہ اسلوب ضرور موجود ہیں۔۔۔ چند ایک اس سلسلے کے ابتدائی مضامین میں بیان بھی ہوچکے ہیں۔ کچھ اور ملاحظہ فرمائیں۔ ایک خاتون سیاستدان نے کئی عشرے قبل یہ کہا تھا کہ آج امریکہ کے خلاف مظاہرے کرنے والا اگلے دن امریکی ویزے کے لیے سفارت خانے کے باہر قطار میں موجود ہوتا ہے۔ ۔۔ ٹاک شوز میں مغرب کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے دانشور مغرب ہی کو علم و ترقی کی مثال سمجھتے اور بیان کرتے ہیں۔ اس تضاد آلود تعلق کی ایک اور صورت دیکھیے جو کسی اور نے نہیں خود فرانز فینون نے بیان کی ہے۔

ایک محکوم (Colonized) قابض/ آباد کار (Colonizer) کی میز پر بیٹھنا چاہتا ہے اس کے بستر پر اسی کی بیوی کے ساتھ سونا چاہتا ہے۔ محکوم انسان بنیادی طور پر حاسد ہے۔ محکوم کی اس ذہنی حالت سے آباد کار بہ خوبی واقف اور آگاہ ہے۔۔۔۔
محکوم انسان قابضین کو ہٹا کر ان کے محلوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ ان پر اسی طرح کا تشدد کرنا چاہتے ہیں جس کا وہ خود نشانہ بنتے ہیں لیکن جیسا کہ ظاہر ہے ایسا صرف تصورات میں ہی ہو پاتا ہے۔ یہاں شاید یہ یاد دلانا ضروری ہو کہ یہ فینون ہی تھا جس نے محکوموں کے شہوت (Lust) اور تشدد پر مبنی تصورات اور جذبات کے بارے میں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ آباد کار نہ صرف یہ کہ ان کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے بلکہ ان جذبات کا رخ اپنی طرف سے موڑ کر کس طرح دیگر ٘محکوم طبقات کی طرف کر دیتا ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ محکوم طبقے ایک دوسرے کو شہوت آمیز تشدد کا نشانہ بنا کر اپنے جذبات کی تسکین کرتے اور اپنے کو فاتح محسوس کرتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت بھی دیں کہ شہوت آمیز تشدد شاید تشدد کی سب سے خوفناک ترین شکل ہے۔ عام تشدد کے بعد مجرم احساس گناہ کا شکار ہوتا ہے اور عام حالات میں اذیت رسانی سے گھن کھاتا اور نفرت کرتا ہے۔

عام لوگ ایسے مناظر بھی دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا پسند نہیں کرتے۔ مگر شہوت آمیز تشدد سے ایک طرف تو تشدد کرنے والا جنسی عمل جیسا حظ اٹھاتا ہے اور دوسری طرف وہ احساس گناہ سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اب میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کی نفسیات پر غور کریں۔ ان کی نفسیات پر غور کریں جو انسانوں کو قتل کرکے ویڈیو فلمیں بنواتے ہیں۔ سر کاٹنے کی فلمیں بنواتے ہیں۔ اور اب ذرا موازنے کے لیے ان پر بھی غور فرمائیں جو اپنی جنسی سرگرمیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی فلمیں بنا کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مینونی اور فینون کی بیان کردہ توجیہات کا اطلاق اب سماجی، سیاسی اور اخلاقی صورت حال پر کیجیے اور نتائج اخذ فرمائیں اور واپس اس سوال کی جانب چلیے کہ محکوم کا قابض/ آباد کاریا استعمار سے الگ ہونے کا کیا مطلب ہے۔ اس علیحدگی سے مینونی کی مراد محکوم طبقات کے استعمار کے ساتھ اس الجھے ہوئے تعلق کی نشاندہی کرنا ہے جو ان دونوں کے درمیان استوار ہوجاتا ہے۔ رشک، رقابت، نفرت، اطاعت، نقصان پہنچانے کی شدید خواہش اور حسد جیسے جذبات میں گندھا یہ تعلق بتدریج محکوم طبقات کی شناخت بنتا چلا جاتا ہے۔ جو اس تعلق کا سب سے گھمبیر پہلو بن جاتا ہے۔ جب محکوم طبقے اپنی شناخت استعمار کے ساتھ اپنے منفی یا مثبت تعلق کی بنیاد پر استوار کرنا شروع کردیں سمجھ لیجیے اب محکوم اور استعمار دونوں ایک انتہائی الجھے ہوئے، پیچیدہ اور بیمار تعلق میں بندھ گئے ہیں جس سے فرار کا راستہ نہ استعمار کے پاس ہے اورنہ افتادگان خاک کے پاس۔۔۔۔ اسی پیچیدگی سے رد عمل کی نفسیات جنم لیتی ہے (جاری ہے)
لنک ،آٹھویں قسط:
https://mukaalma.com/article/Dr.AkhtarAlu/4562

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انتہاپسندی، ردعمل کی نفسیات۔قسط9

  1. These articles are written with the skill set and sureness of a born storyteller. Your writing does call attention to itself for it’s smoothness and gracefulness and evocativeness . It has a way of poking like an acupuncture needle exactly the cluster of problems that need to be addressed by the authorities asap.
    Respect. ??????????

Leave a Reply to U. Nauman Cancel reply