پنچھی۔۔۔صبا ممتاز بانو

رات نے ہر چیز کو تاریکی کی چادر اوڑھا دی تھی۔ دھیمی دھیمی سی ہوا چل رہی تھی۔ پھولوں کی خوشبو مانو کو مدہوش کیے دے رہی تھی۔پلکوں کو ہجر اب گوارا نہیں تھا۔ آنکھیں خود بخود بند ہوتی جارہی تھیں۔اس نے خود کو نیند کے سپرد کردیا۔
رات کے راجانے دن کے راجا کی  دستا ر بندی کی تو تاریکی کی چادر سمٹ گئی۔ اُجالے میں ہر چیز برہنہ ہو گئی۔شعاعوں نے آنکھ مچولی شروع کی تو مانو کے بدن نے آفتاب کے حرارت بھرے لمس کو محسوس کرتے ہوئے انگڑائی لی۔ پلکیں رات بھر کے وصال کے بعد تازہ دم ہو چکی تھیں۔ اس نے منڈیروں پر نگاہ ڈالی۔ آج بھی کوئی پرندہ نہیں بیٹھا تھا۔اس نے مایوس ہو کر کونڈے کی طرف دیکھا۔پانی شفاف تھا۔۔ روٹی کے ٹکڑے چپ سادھے ہوئے تھے۔ سب کچھ ویسے کا ویسا تھا۔کوئی بھولا بھٹکا پنچھی بھی نہیں آیا تھا۔اس کا دل بھر آیا۔

اس کے گھر کے ساتھ والا باغ، مٹی کی سوندھی خوشبو، گلاب کے مہکتے ہوئے پھول اور باغ میں تنہا کھڑا ایک درخت، یہ سب بھی ویسے کے ویسے تھے۔اس کی عادت تھی کہ وہ نیند محل میں جانے سے پہلے اور نیند محل سے آنے کے بعد اپنے گھر سے ملحقہ اس باغ کوضرور دیکھتی تھی جس میں ایک بڑا سا درخت اسے اپنی جانب پکارتا ہوا لگتا تھا۔۔ کبھی کبھی کوئی شاہین آکر اس پر بیٹھ جاتاتو اسے لگتا کہ اسے کائنا ت مل گئی ہو۔ کہاں سے آتا تھا وہ۔ کدھر کو جاتا تھا وہ۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو کچھ دیر دیکھتے۔ پھر مانو سونے کے لیے اپنی چار پائی کی طرف چل دیتی اور وہ اپنے ٹھکانے کی طرف۔ اسے کسی کے ہاتھ آنے کا شوق نہیں تھا اور مانو کو اسے ہاتھ لگانے کا شوق نہیں تھا۔کبھی کبھی وہ صبح کے وقت بھی آجاتا تھا مگراب وہ اس درخت پر موجود نہیں تھا۔ مانو نے اس کے تصور سے دل کو شاد کیا۔

سپیدی سحر میں یہ باغ حسن کی جاگیر لگ رہا تھا۔پھولوں کی روشوں میں خراماں خراماں چلتی ہوئی ہوا کے راج پرصرف پھول ہی نہیں جھوم رہے تھے۔ یہ جشن مسرت چند کتے بھی منا رہے تھے جو ہواکی اٹھکیلیوں پر پاگل سے ہو ئے جارہے تھے۔
”یاالہی، ہوا ان کے بدن میں بھی مستی دوڑا دیتی ہے، یہ دیوانگی، یہ جذب و جنوں ان پر بھی بے خودی کی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔۔ کیسے مستیاں کرتے ہیں یہ۔ کیسے شوخیاں کرتے ہیں۔“سوچتے سوچتے وہ بھی بے خود ہو گئی۔ اس نے مست ہوا میں آنچل کو لہرایا۔سورج راجا کو ہٹنے کااشارہ کیا۔ پھر کائیں کائیں کرتے ہوئے کووؤں کو پکارا۔چوں چوں کرتی ہوئی فاختاؤں کو آواز دی۔کسی نے بھی تو نہیں سنا۔وہ دکھ کی لہروں کو اپنے وجود میں سمیٹے ہوئے نیچے اتر آئی۔شانو آٹا گوندھ رہی تھی۔ پلکوں پر بیٹھے ہوئے آنسو اسے دیکھتے ہی نیچے لڑھک گئے۔

”کیا ہوا، رو کیوں رہی ہو۔“ اس نے تڑپ کر پوچھا۔
”صبح دم آنچل کو پھریرا بھی دیا، ان کو پکارا بھی۔ مگر وہ پھر بھی نہیں آئے۔“وہ اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
”پگلی کہیں کی۔ ارے کیا ہوا۔؟نہیں آتے تو نہ آئیں، ان کو دانہ دنکا بھی ڈالتے ہیں۔ روٹی چاول بھی رکھتے ہیں۔ پانی کا کونڈا بھی رکھا ہے۔ پھر بھی نہیں آتے تو ہم کیا کریں۔“۔ شانو نے اسے تسلی دی۔
”شانو۔ یہ چھوٹی بات نہیں۔ بابا کہا کرتے تھے۔ پرندے خدا کے دوست ہوتے ہیں۔ ان کو دوست بنا کر رکھو گے تو سب ٹھیک رہے گا۔بابایہ بھی کہا کرتے تھے۔ چھوٹی سی یہ مخلوق بڑی سی مخلوق کی خدا تک رسائی کا اہم ذریعہ ہے۔“ مانو نے بابا کی بات شانو کو یاد دلائی۔

”بابا ٹھیک کہا کرتے تھے لیکن یہ چھوٹی سی مخلوق بڑی نخریلی ہو گئی ہے۔ ہماری بات نہیں سنتی تو ہم کیا کریں۔“ شانو نے ہمیشہ کی طرح اسے تسلی دی۔
”مگر جب بابا تھے تب تو ہمارے گھر میں بڑے پنچھی آتے تھے۔۔ کچھ بھی تو نہیں چھوڑتے تھے۔ ایک دفعہ تو امی کا چھوٹا پرس بھی کھانے کی چیز سمجھ کر لے گئے تھے۔۔‘‘ مانو کو بھولی بھٹکی کوئی بات یاد آگئی۔
”ہاں۔ پھر وہ گھر کے قریب جھاڑیوں میں اٹکا ہوا ملا تھا۔وہ سمجھے تھے کہ یہ کوئی کھانے پینے کی چیز ہے۔“ شانو نے لقمہ دیا۔
” یقیناًًً  اس کوے کی نگاہ کمزور ہوگی۔“ مانو کی اداسی اب ہنسی میں ڈھل گئی تھی۔

”ابا کا بس چلتا توا سکو بھی عینک لگوا دیتے۔“ شانو کی رگ ظرافت بھی پھڑک چکی تھی۔
”کچھ بھی تھا شانو، ابا ہوتے تھے تو پرندے صبح دم ہی آکر بیٹھ جاتے اور شام کو جاتے تھے اور یہاں دن سے رات ہو جاتی ہے۔ میں ان کی راہ تکتی رہتی ہوں لیکن کوئی نہیں آتا۔ کوئی بھی تو نہیں آتا۔“ مانو نے دکھ سے کہا۔

”ارے وہ گھر بھی تو دوسرا تھا نا۔ اس گھر میں ہم اوپر والے حصے میں ہی آباد تھے۔ وہیں کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، ان کی دوستی ہو گئی تھی ہم سے۔ یہاں ہم نیچے رہتے ہیں اور وہ دوستی کیا کریں، ان کو تو ہماری شکل بھی یاد نہیں ہو گی۔“شانو نے منطقی بات کی۔
”ہاں۔ تب ہمارا بسیر ا چھت پر تھا۔ وہ تو ہمارے ہاتھ سے اچک کر کھا لیتے تھے۔ اب تو ہم صرف ان کو کھانا ڈالنے ہی اوپر جاتے ہیں۔۔“۔ مانو کی سمجھ میں شانو کی یہ بات آگئی تھی۔
’’چلو شکر ہے کہ تم بھی کسی بات کو مانی۔۔لیکن جانتی ہوں،کل پھر صبح اٹھتے ہی تم نے مجھ سے پو چھنا ہے،”شانو ہمارے گھر میں پنچھی کیوں نہیں آتے۔“شانو نے منہ بنا کر کہا۔
”ہاں کہتی تو تم ٹھیک ہو لیکن اپنا کھانا تو کھا لیا کریں نا۔“ مانو نے دکھ سے کہا۔
کھا لیں گے۔کھا لیں گے۔۔شانو نے بڑی بہن مانو کو تسلی دی۔

مانو کو گرمی میں چھت پر سونے کی عادت تھی۔ اسے تاروں سے بھرا آسمان امید کا جہان دکھتا تھا۔ افق پر محو پروازپرندوں کو دیکھ کر اسے ایسا لگتا جیسے وہ خودبھی کسی ڈار سے بچھڑ ی کوئی فاختہ ہوجو اپنے غول کی تلاش میں ہو۔ ایک آہ اس کے سینے سے نکلتی۔
؎”یہ انسان کا جسم مجھے کس نے اوڑھایا ہے۔۔یہ بدن تو کسی پرواز پر تھا۔ “

کبھی کوئی درد بھری آوازوہ افق کی وسعتوں میں بھٹکتی ہوئی سنتی تو فریاد کی بستی پر مصلے بچھا دیتی اور اس کا دل اس پر بیٹھ کر دعا گو ہو جاتا۔میرے رب، مسافر قافلے سے بچھڑ جائے تو منزل کو کھو دیتا ہے۔نیلگوں آسمان کی وسعتوں پر اُڑنے والے قافلوں کو بھٹکنے سے بچا۔ دھرتی ان کا درد نہیں سہار سکتی۔یہ اونچی پروازوں کے راہی ہیں۔“
دونوں یادوں کے جنگل میں بسیرا ڈالے بیٹھی تھیں کہ دانی آگیا۔ اس نے آٹا گوندھتی ہوئی شانو کو دیکھ کر اس کے ارد گرد پھرنا شروع کردیا۔مانو کو دیکھ کر تو وہ نہال ہی ہوگیا۔ اس کے پاس آکر دم ہلانے لگا۔
مانو نے سب بھول بھال اسے گود میں اٹھا لیا۔اسے بانہوں سے پکڑا، جھولا دیا اور پھر نیچے اتار دیا۔۔دانی خوشی سے دم ہلاتا ہوا چھت پر چلا گیا۔۔
”جتنے چکر یہ چھت کے لگاتا ہے۔ ہم لگائیں تو تھک ہی جائیں۔“ شانو نے دانی کو پھرتی سے سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر کہا۔
”بھئی اس کا واش روم جو اوپر ہے۔ اوپر نہ جائے تو کیا کرے۔“ مانو نے دانی کی حمایت کی۔
”ساری رات میرے ساتھ سکون سے سوتا ہے۔ صبح ہوتے ہی اس کی دھینگا مشتی شروع ہو جاتی ہے۔“
شانو نے دانی کی شکایت کی۔
”ارے جا۔ میرا بلاشرارتی ضرور ہے مگر بدمعاش نہیں ہے۔ رات بھر تمہارے ساتھ سوتا ہے۔ کبھی اس نے چھیڑا تمہیں۔۔“ دانی کی شکایت پر مانو تو برس ہی پڑی۔
”چھیڑ کر دیکھا توتھا ایک دن اس نے۔“ شانو نے کہا تو مانو نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
”پھر۔۔؟“۔۔ مانو کے لہجے میں حیرت تھی۔
”پھر کیا،اسے پتا چل گیا کہ میں بلی نہیں ویسے کبھی ساتھ سلا کر دیکھو نا۔۔“ شانو نے کہا۔
”جس دن میرا میاں گھر نہ ہوا تو میں سلا لوں گی۔“مانو نے فوراًجواب دیا۔

دونوں کوبھورے سفید دھاری دار بلے سے بہت پیار تھا۔اس گھر کی رونق تھا یہ بلا۔ وہ بھی سمجھتا تھا کہ اس گھر کے مردوں سے زیادہ عورتیں اس کی رفیق ہیں۔ اسی لیے ان سے ہی فرمائشیں کرتا تھا۔ وہ بھی اسے چوکے پر بٹھاتیں۔ تحت پر سلاتیں۔ شیمپو سے نہلاتیں اور تھک جاتا تو دباتیں۔دانی کا اس گھر میں راج تھا۔
”اگر دانی نہ ہوتا تو میں تو مر ہی جاتی۔اس میں لگی رہتی ہوں تو غم کا احساس نہیں ہوتا۔“ مانو نے سوچا۔
پرندوں اور جانوروں سے پیار اسے ورثے میں ملا تھا۔ ابا ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس کے دل میں بھی ان کے لیے جیسے کوئی انجانی سی کشش اٹکی ہوئی تھی۔ اسی لیے وہ پرندوں کے پیچھے بھاگتی تھیں تو کبھی جانوروں کے لیے ہلکان ہو تی تھیں۔مانو اور شانو دونوں کی کائنات ان میں سمٹی ہوئی تھی۔ اس کائنات میں فلک پر پرندے رقص کرتے تھے اور زمین پر جانور دھما چوکڑی مچاتے تھے۔ وہ ان دونوں کے بیچ کوئی ایسی مخلوق کی طرح جی رہی تھیں جن کی زندگی کا واحد مقصد ہی ان کا خیال رکھنا اور ان سے پیار کرنا رہ  گیا تھا۔
پنچھیوں کو پکارتے پکارتے سمے بیت رہا تھا۔ مانو کی فریاد انہوں نے نہیں سنی۔ شانو کو کوئی غم نہیں تھا۔ اس کا دانی اس کے پاس تھا۔ اس کو بس دانی سے لگاو تھا۔ اس نے پرندوں کی بجائے کھانا پینا گلی کے کتوں کو ڈالنا شروع کردیا تھا۔ پرندوں کی چھٹی ہوگئی تھی۔ مانو کی اداسی کبھی کبھی پھر عود کر آتی۔ شانو اس کی گود میں دانی کو ڈال دیتی اور ہنستے ہوئے کہتی۔
” چھوڑو یار، دانی کو جُھلاؤ۔“وہ بھی ہر غم بھلا کر دانی کو پیار کرنے لگتی۔

آج بھی یہی ہوا۔مانورات کی بے وفائی کاغم بھلا کر دن کے جھمیلوں میں مصروف ہوگئی۔وقت اپنی تقسیم کار نبھاتا رہا۔ایک اور دن ڈھل گیا۔رات کی سیاہی نے ہر چیز کو دھندلا کردیا۔مانو نے آس کی دنیا پھر بسائی اور روٹی کے ٹکڑے پلیٹ میں ڈال کر پنچھیوں کے لیے لے گئی۔بستر پر کسمساتے ہوئے مانو رب سے باتیں کرنے لگی۔
؎چاند راجا چمک چمک کر مانو کے چہرے کو فروزاں کیے دے رہا تھا۔ اس نے چٹخی ہو ئی چاندنی میں اردگرد کے منظر کو دیکھا۔ چاندنی کا حسن ہر چیز سے جھلک رہا تھا۔اس سحر آفریں منظر میں نیند کا خمار ایسا چڑھا کہ سارے منظر تحلیل ہوگئے۔تسبیح نے اس کے ہاتھوں سے نکل کر چارپائی سے گرہ باندھ لی۔ وہ نیند کے آسمان پر تخت  نشین ہو گئی۔رات کھٹے میٹھے خوابوں میں گز ر گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

چاند راجانے سورج راجا کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔ سورج راجا ابھی تحت ضیاپر براجمان ہوا ہی تھاکہ مانو کی آنکھ کھل گئی۔تاریک سلطنت روشن ہو چکی تھی۔ویرانی آباد ی میں ڈھل چکی تھی۔
کوے روٹی کے ٹکڑے لیے منڈیروں پر چڑھے بیٹھے تھے۔چھت کائیں کائیں کی آواز سے گونج رہی تھی۔ فاختائیں دانہ دنکاچگ رہی تھیں۔چوں چوں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔پنچھی گھر کو آگئے تھے۔مانو کے دل میں مسرت کی لہریں پھوٹنے لگیں۔وہ خوشی سے ہمکتی ہوئی نیچے آئی۔ ”شانو۔۔۔او شانو“،اس نے سیڑھیوں سے ہی آواز دینا شروع کردی۔
شانو رو رہی تھی۔ دانی رات کو گھر نہیں لوٹا تھا۔ جانے راستہ بھول گیا تھا یا پھر گھر چھوڑ گیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply