1991 ستمبر کی صبح قومی اخبارات میں ایک تین کالم کی خبر لگی،اسلام آباد ، نشے میں چُور لڑکی نے رات گئے اہسپتال سے واپس آتے موٹر سائکل سوار میاں بیوی کو کُچل دیا۔نیلور تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا، لڑکی کی عمر 20 سے 21 برس کے درمیاں بتائی جا رہی ، ڈرائیو کرتے وقت لڑکی کی حالت نارمل نہیں تھی ، اور وہ مسلسل رو رہی تھی ، لڑکی کا تعلق سندھ کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے ہے اور وہ اسلام آباد آئی ہوئی تھی۔ خبر ختم
1991 ستمبر ،چیف آف آرمی اسٹاف کی کور کمانڈر سے ملاقات ، جواں سال بیٹے کی ناگہانی مرگ پر تعزیت، نامہ نگار کے مطابق نوجوان کالج سے واپس آ رہا تھاکہ چند موٹر سائکل سواروں نے اسے لوٹنے کی کوشش کی اور مزاحمت پر گولیاں مار دیں ،
1991اکتوبر سندھ سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس۔۔ کے بیٹے کو بازیاب کروا لیا گیا، بدین سے ملحقہ کچے کے علاقے میں اطلاع ملنے پر فوری کاروائی کی گئی، اغوا کار گرفتار نہیں ہوسکے، مغوی زندہ بازیاب کروا لیا گیا ، اغوا کاروں نے اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی، تشدد سے جنسی اعضا بھی بری طرح متاثر۔
1991 اکتوبر کراچی کے ایک مشہور کاروباری * سیٹھ کے بیٹے کی لاش ملیر ندی سے برآمد مقتول کو تین روز قبل اغوا کیا گیا تھا،کاروباری شخصیت نے کراچی کی ایک سیاسی جماعت اور سندھ کے وزیر اعلی پر اس واردات کا الزام عائد کر دیا۔
1992 جنوری نواب اور جام قبیلے کے سردار کی اسلام آباد آمد ، اعلی عدلیہ کے جج اور ایک اہم پوسٹ پر تعینات لیفٹیننٹ جنرل سے ملاقات، دیگر سیاسی شخصیات سے بھی رابطے، ذرائع کے مطابق یہ ملاقاتیں آپس میں جاری رنجش کو ختم کرنے کے لیے تھیں تا کہ آنے والے عام انتخابات میں یکسوئی سے کام کیا جا سکے ۔
1992 کراچی،اختیارات سے تجاوز کرنے پر ایس ایس پی ملیر کو آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی تعینات کر دیا گیا۔
1992کراچی کی بڑی سیاسی جماعت کے سیکٹر انچارج اور رابط کمیٹی کے رکن کا بہیمانہ قتل
2018: سندھ کے ایک معروف سیاسی گھرانے اور نواب خاندان کی نواسی کی شادی، پنجاب کے بڑے فوجی گھرانے میں کر دی گئی، گویا سیاست کو فوجی طاقت مل گئی۔
ایک کہانی۔۔۔۔!
وہ خوبصورت تھی ، نوجوان تھی سندھ کے ایک بہت بڑے سیاسی گھرانے کی عزت تھی لیکن بہت ماڈرن تھی، طاقت کے ایوانوں تک اس کے خاندان کی رسائی تھی۔
وہ خوبصورت نوجوان تھا باپ فوج میں اعلی ترین عہدے پر تھا، لہجے میں حاکمیت فطری تھی پھر دوست بھی اس جیسے ہی تھے ، ایک کا باپ اعلی عدلیہ کا جسٹس تھا جس کا چیف جسٹس بننا ناممکن نہیں تھا، ایک کاباپ کراچی کا معروف صعنت کار اور کاروباری شخصیت تھا
اسلام آباد کے کسی کلب سے نکلتے وقت انہوں نے اُسے دیکھا، گوری رنگت خوبصورت نین و نقش،دل کو دیکھتے ہی بھا گئی، شکار تیار تھا۔۔۔ گاڑی پیچھے ڈال دی ۔۔۔ ایک جگہ کراس کیا اور اُسے روک کر اپنی گاڑی میں ڈال لیا،
اُس رات اسلام آباد کی تاریک سڑکوں پر اُن کی گاڑی گھومتی رہی ، باری باری تینوں جوانوں نے اس لڑکی کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اسے اس کی گاڑی میں پھینک کر فرار ہو گئے۔۔! غلطی کر گئے انہیں معلوم نہیں تھا کہ ہر سیر کو کبھی کبھی سوا سیر بھی ٹکر جاتا ہے ،
لڑکی اپنےہوش و حواس میں نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور تیز رفتاری سے چلا دی،گھبراہٹ میں اس سے ایک جان لیوا حادثہ بھی ہو گیا، تھانے لے جائی گئی۔ اس کے گھر والوں کو فون کیا گیا، ابھی تک اس کے گھر والوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس پر کیا قیامت گزر چُکی ہے، تھانے میں براہ راست وزیر اعظم ہاوس سے فون آتا ہے عملہ ہر طرح سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ لڑکی کا چچا زاد جو ایک ایم پی تھا اسے تھانے سے آ کر لے جاتا ہے ، لڑکی اسی رات کراچی اور کراچی سے پھر اپنے آبائی علاقے روانہ کر دی جاتی ہے۔
بات آن کی تھی، ایک سردار اور سردار بھی وہ جس کا خاندان دو صدی تک سندھ کا حکمراں رہا تھا اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا گیا تھا۔ کس نے ڈالا نہیں معلوم ،کون تھے نہیں معلوم۔۔۔! لیکن انہیں مرنا تھا یہ معلوم تھا ،انہیں عبرت کا نشان بنانا تھا یہ معلوم تھا، 90 کی دہائی کا یہ وہ وقت تھا جب غیرت سیاست سے اوپر تھی بس مفاد پیش ِ نظر نہ ہو۔۔۔
لڑکی کا ایک بھائی ایس ایس پی تھا، خاندان سندھ کا وزیر اعلی تھا۔۔۔! بھائی نے اسلام آباد پولیس کا بھرپور استعمال کیا، لڑکی کو واپس اسلام آباد لے کر گیا، صرف 4 دن میں مجرم شناخت ہو سکے تھے۔۔۔!
مجرم کمزور تھے مگر ان کے وارث مگرمچھ تھے!
بھائی نے لڑکی کو واپس آبائی علاقے روانہ کر دیا۔
سندھ کی وزارت اعلی کے منصب پر فائز شخصیت نے اپنے سارے تعلقات استعمال کیے ۔۔۔!
ایک مجرم کو اسلام آباد کی سڑکوں پر گھات لگا کر بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا، ایک کو اغوا کر کے سندھ لے جایا گیا جہاں اس کی زندگی کو اس کے لیے عذاب بنا دیا گیا، ایک کو کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔۔۔!
پھر، سب مل کر بیٹھے کہ یہ کیا ہو گیا۔۔۔! ایک مگر مچھ تھا تو دوسرا بھی سندھ کے جنگلوں کا شیر تھا، صلح نامہ ہوا ، جسٹس سب سے زیادہ اچھلا، اپنے حلقے میں وہ اے کے فورٹی سیون کے نام سے مشہور تھا، اس کا بیٹا تو زندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ نہیں تھا، اسے چیف جسٹس بنانے کا لارا لگایا گیا(جو بعد میں پورا نہیں ہوا) دوجے کو 2 سے 3 اسٹار بنانے کا وعدہ کیا گیا جو پورا ہوا، کراچی کے صعنت کار کو کچھ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے اجازت نامے دیے گئے، باقی مہرے اپنی اپنی باری پر مار دیے گئے۔۔۔۔!
کہانی ختم۔نوٹ یہ ایک بہت مشہور کہانی ہے ہو سکتا ہے کہ اس پر آپ نے کوئی فلم بھی دیکھی ہو یا پھر کہیں کسی رسالے میں پڑھا ہو،مجھے تو بہت مزے دار لگی۔۔ ایسا فکشن اب خال خال ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔۔ خبردار جو کسی نے کرداروں کو کہیں سے کہیں ملایا۔۔ کہانی کو کہانی رہنے دو۔۔۔!
منصور مانی، میں عوام
1991 ستمبر ،چیف آف آرمی اسٹاف کی کور کمانڈر سے ملاقات ، جواں سال بیٹے کی ناگہانی مرگ پر تعزیت، نامہ نگار کے مطابق نوجوان کالج سے واپس آ رہا تھاکہ چند موٹر سائکل سواروں نے اسے لوٹنے کی کوشش کی اور مزاحمت پر گولیاں مار دیں ،
1991اکتوبر سندھ سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس۔۔ کے بیٹے کو بازیاب کروا لیا گیا، بدین سے ملحقہ کچے کے علاقے میں اطلاع ملنے پر فوری کاروائی کی گئی، اغوا کار گرفتار نہیں ہوسکے، مغوی زندہ بازیاب کروا لیا گیا ، اغوا کاروں نے اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی، تشدد سے جنسی اعضا بھی بری طرح متاثر۔
1991 اکتوبر کراچی کے ایک مشہور کاروباری * سیٹھ کے بیٹے کی لاش ملیر ندی سے برآمد مقتول کو تین روز قبل اغوا کیا گیا تھا،کاروباری شخصیت نے کراچی کی ایک سیاسی جماعت اور سندھ کے وزیر اعلی پر اس واردات کا الزام عائد کر دیا۔
1992 جنوری نواب اور جام قبیلے کے سردار کی اسلام آباد آمد ، اعلی عدلیہ کے جج اور ایک اہم پوسٹ پر تعینات لیفٹیننٹ جنرل سے ملاقات، دیگر سیاسی شخصیات سے بھی رابطے، ذرائع کے مطابق یہ ملاقاتیں آپس میں جاری رنجش کو ختم کرنے کے لیے تھیں تا کہ آنے والے عام انتخابات میں یکسوئی سے کام کیا جا سکے ۔
1992 کراچی،اختیارات سے تجاوز کرنے پر ایس ایس پی ملیر کو آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی تعینات کر دیا گیا۔
1992کراچی کی بڑی سیاسی جماعت کے سیکٹر انچارج اور رابط کمیٹی کے رکن کا بہیمانہ قتل
2018: سندھ کے ایک معروف سیاسی گھرانے اور نواب خاندان کی نواسی کی شادی، پنجاب کے بڑے فوجی گھرانے میں کر دی گئی، گویا سیاست کو فوجی طاقت مل گئی۔
ایک کہانی۔۔۔۔!
وہ خوبصورت تھی ، نوجوان تھی سندھ کے ایک بہت بڑے سیاسی گھرانے کی عزت تھی لیکن بہت ماڈرن تھی، طاقت کے ایوانوں تک اس کے خاندان کی رسائی تھی۔
وہ خوبصورت نوجوان تھا باپ فوج میں اعلی ترین عہدے پر تھا، لہجے میں حاکمیت فطری تھی پھر دوست بھی اس جیسے ہی تھے ، ایک کا باپ اعلی عدلیہ کا جسٹس تھا جس کا چیف جسٹس بننا ناممکن نہیں تھا، ایک کاباپ کراچی کا معروف صعنت کار اور کاروباری شخصیت تھا
اسلام آباد کے کسی کلب سے نکلتے وقت انہوں نے اُسے دیکھا، گوری رنگت خوبصورت نین و نقش،دل کو دیکھتے ہی بھا گئی، شکار تیار تھا۔۔۔ گاڑی پیچھے ڈال دی ۔۔۔ ایک جگہ کراس کیا اور اُسے روک کر اپنی گاڑی میں ڈال لیا،
اُس رات اسلام آباد کی تاریک سڑکوں پر اُن کی گاڑی گھومتی رہی ، باری باری تینوں جوانوں نے اس لڑکی کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اسے اس کی گاڑی میں پھینک کر فرار ہو گئے۔۔! غلطی کر گئے انہیں معلوم نہیں تھا کہ ہر سیر کو کبھی کبھی سوا سیر بھی ٹکر جاتا ہے ،
لڑکی اپنےہوش و حواس میں نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور تیز رفتاری سے چلا دی،گھبراہٹ میں اس سے ایک جان لیوا حادثہ بھی ہو گیا، تھانے لے جائی گئی۔ اس کے گھر والوں کو فون کیا گیا، ابھی تک اس کے گھر والوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس پر کیا قیامت گزر چُکی ہے، تھانے میں براہ راست وزیر اعظم ہاوس سے فون آتا ہے عملہ ہر طرح سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ لڑکی کا چچا زاد جو ایک ایم پی تھا اسے تھانے سے آ کر لے جاتا ہے ، لڑکی اسی رات کراچی اور کراچی سے پھر اپنے آبائی علاقے روانہ کر دی جاتی ہے۔
بات آن کی تھی، ایک سردار اور سردار بھی وہ جس کا خاندان دو صدی تک سندھ کا حکمراں رہا تھا اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا گیا تھا۔ کس نے ڈالا نہیں معلوم ،کون تھے نہیں معلوم۔۔۔! لیکن انہیں مرنا تھا یہ معلوم تھا ،انہیں عبرت کا نشان بنانا تھا یہ معلوم تھا، 90 کی دہائی کا یہ وہ وقت تھا جب غیرت سیاست سے اوپر تھی بس مفاد پیش ِ نظر نہ ہو۔۔۔
لڑکی کا ایک بھائی ایس ایس پی تھا، خاندان سندھ کا وزیر اعلی تھا۔۔۔! بھائی نے اسلام آباد پولیس کا بھرپور استعمال کیا، لڑکی کو واپس اسلام آباد لے کر گیا، صرف 4 دن میں مجرم شناخت ہو سکے تھے۔۔۔!
مجرم کمزور تھے مگر ان کے وارث مگرمچھ تھے!
بھائی نے لڑکی کو واپس آبائی علاقے روانہ کر دیا۔
سندھ کی وزارت اعلی کے منصب پر فائز شخصیت نے اپنے سارے تعلقات استعمال کیے ۔۔۔!
ایک مجرم کو اسلام آباد کی سڑکوں پر گھات لگا کر بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا، ایک کو اغوا کر کے سندھ لے جایا گیا جہاں اس کی زندگی کو اس کے لیے عذاب بنا دیا گیا، ایک کو کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔۔۔!
پھر، سب مل کر بیٹھے کہ یہ کیا ہو گیا۔۔۔! ایک مگر مچھ تھا تو دوسرا بھی سندھ کے جنگلوں کا شیر تھا، صلح نامہ ہوا ، جسٹس سب سے زیادہ اچھلا، اپنے حلقے میں وہ اے کے فورٹی سیون کے نام سے مشہور تھا، اس کا بیٹا تو زندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ نہیں تھا، اسے چیف جسٹس بنانے کا لارا لگایا گیا(جو بعد میں پورا نہیں ہوا) دوجے کو 2 سے 3 اسٹار بنانے کا وعدہ کیا گیا جو پورا ہوا، کراچی کے صعنت کار کو کچھ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے اجازت نامے دیے گئے، باقی مہرے اپنی اپنی باری پر مار دیے گئے۔۔۔۔!
کہانی ختم۔نوٹ یہ ایک بہت مشہور کہانی ہے ہو سکتا ہے کہ اس پر آپ نے کوئی فلم بھی دیکھی ہو یا پھر کہیں کسی رسالے میں پڑھا ہو،مجھے تو بہت مزے دار لگی۔۔ ایسا فکشن اب خال خال ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔۔ خبردار جو کسی نے کرداروں کو کہیں سے کہیں ملایا۔۔ کہانی کو کہانی رہنے دو۔۔۔!
منصور مانی، میں عوام
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں