• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کوئٹہ میں پبلک لائبریریز اور ہاسٹلز کا قیام، کیا حکومتی ترجیحات میں شامل ہے ؟۔۔۔۔شبیر رخشانی

کوئٹہ میں پبلک لائبریریز اور ہاسٹلز کا قیام، کیا حکومتی ترجیحات میں شامل ہے ؟۔۔۔۔شبیر رخشانی

آج کا نوجوان چاہتا کیا ہے وہ کون کون سی خواہشات دل میں بسا کر کوئٹہ جیسے شہر کا رخ کرتا ہے جہاں مسائل ہی مسائل کا راج ہے۔ اندرونِ بلوچستان کا نوجوان کئی سو کلومیٹر کی مسافت طے کرکے کوئٹہ پہنچتا ہے۔ اسے ایک ہی خواہش کوئٹہ بسنے پہ مجبور کرتی  ہے وہ ہی اس کے اچھے مستقبل کا خواب۔والدین کی توقعات پہ پورا اترنے کا خواب۔
کوئٹہ شہر میں بڑے بڑے پلازے بنے ہیں پہلے بوائز ہاسٹلز کا تصور نہیں تھا اب کوئٹہ شہر میں چند ایک پلازے پرائیوٹ بوائز ہاسٹلز کی شکل میں نظر آتے ہیں اِن ہاسٹلز میں رہائش پذیر  نوجوان مختلف بولی بولنے والے لوگ ہیں۔ یا کہیں چند نوجوانوں کا مجموعہ۔۔۔ کوئی کرائے کے فلیٹ میں رہائش کرتے ہوئے ملے گا۔یہ وہ نوجوان ہیں جنہیں وعدے وعیدوں اور اعلانات کے باوجود تعلیم ان کے دروازے پہ نہیں ملی ہے یہ کوئٹہ شہر کا رخ کرنے پہ مجبور ہو چکے ہیں۔یہ وہ نوجوان ہیں جن کے والدین بمشکل اپنا گزر بسر کرتے ہیں ۔ اپنی گزر بسر کی کمائی کا آدھا حصہ اپنے بچوں کی تعلیم پہ لگا لیتے ہیں ان سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ کئی سالوں کی محنت کے بعد یہ بچوں سے رزلٹ مانگتے ہیں۔ بچے والدین کی توقعات پہ پورا اترنے کے لیے دن رات ایک کرکے محنت میں جت  جاتے ہیں۔یا وہ نوجوان ہیں جنہیں حصولِ روزگار نے قیام کرنے پہ مجبور کیا ہے۔

کوئٹہ کی سطح پہ ان بچوں کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اول تو یہ کہ حصولِ رہائش ان کے لیے مشکل ہوجاتی ہے۔ بچے کم عمری میں بڑی مشکل سے پرائیوٹ ہاسٹلز  میں ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں اگر ہوبھی جائیں توانہیں وہ سہولتیں نہیں ملتیں جو ان سے ماہانہ فیس کی مد میں لیا جاتا ہے۔ دوسرا جو اہم مسئلہ ہے وہ ہے بچوں کے لیے پبلک لائبریری کا نہ ہونا۔ یہاں میں صرف بچوں کی بات کر رہا ہوں بچیوں کے لیے مسائل اور بھی مختلف اور حالات مشکل ہو سکتے ہیں۔
کہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک نوجوان پریشانی کے عالم میں ہمارے پاس آیا۔ پریشانی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ لائبریری میں ممبرشپ نہیں مل رہی۔ ممبر شپ نہ ملنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ لائبریری ممبرشپ کی حدود کراس کر چکا ہے۔ سائیڈ پہ بیٹھا میرا دوست مجھ سے کہنے لگا کہ لائبریری میں 350افراد بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ ممبرشپ دس ہزار افراد کو مل چکی ہے۔ اب نوجوان آتے ہیں ان کے لیے بیٹھنے کی جگہ نہیں۔ بات ہو رہی تھی کوئٹہ شہر میں عدالت روڑ پہ واقع قائداعظم پبلک لائبریری کی۔

یہ وہ نوجوان ہیں جو کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں سے جناح روڑ کا رخ اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں ان کے لیے ٹیوشن کا نظام موجود ہے جبکہ وہ اپنا فارغ وقت لائبریری میں علم کے حصول میں گزار دیتے ہیں لیکن حصولِ سیٹ کی تمنا لیے وہ لائبریری سے اکثر واپس ہی لوٹ جاتے ہیں یا جونہی کوئی سیٹ خالی ہوجائے تو وہ مالِ غنیمت سمجھ کر اس سیٹ پہ قبضہ جما لیتے ہیں۔ یہیں سے حسرتوں کا اعلیٰ امتحان لیا جاتا ہے۔
بچیوں کے لیے اور بھی زیادہ مسائل ہیں۔ مکران کے لوگ اہلِ علم ہیں وہ اپنی بچیوں کوحصو لِ علم کے لیے کوئٹہ بھیجتے ہیں زیادہ تر بچیاں وہ ہوتی ہیں جو اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرتی  ہیں اور حصولِ علم کے لیے سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔یا قلیل تعداد ان بچیوں کی ہے جو بولان میڈیکل کالج میں اپنی فیملی طالبہ کے ساتھ رہتی ہیں ایک ہی روم میں چار یا چھ بچیوں کا رہنا ان کی تعلیم متاثر کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ کبھی کبھار ہاسٹلوں میں سختی کی وجہ سے انہیں مزید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پھر ان بچیوں کے لیے ٹرانسپورٹیشن کا مسئلہ الگ ہے۔ گھر یا ہاسٹل سے سینٹر یا لائبریری تک پہنچتے پہنچتے ایک بچی کو کن کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے یہ بچیاں ہی بہتر طور پر بیان کر سکتی ہیں۔

سینئر لکھاری محمود شام کوئٹہ آئے تھے۔ان کی کوئٹہ آمد کا بنیادی مقصد نوجوان لکھاریوں میں انعامات تقسیم کرنا تھا۔ واپس کراچی پہنچنے پہ انہوں نے اپنی آمد سے متعلق کالم میں لکھا تھا کہ تقسیم اسناد و انعامات کے موقع پر صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے اپنی تقریر میں فخریہ انداز میں کہا تھا کہ انہیں خوشی اس بات کی ہو رہی ہے کہ پہلی دو پوزشنیں اس کے علاقے سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں نے لی ہیں۔ میرے  ذہن میں برجستہ سا خیال آیا کہ آیا ظہور بلیدی کے علم میں ہے کہ ان ہی کے علاقے سے کوئٹہ کا رخ کرنے والے نوجوانوں کی کثیر تعداد پبلک لائبریری میں سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنا قیمتی وقت لائبریری کے گیٹ پر گزارتا ہے۔ ظہور صاحب! خوشی اہلِ بلوچستان کو اس وقت ہوگی جب شہید ایوب بلیدی کے نام سے ایک پبلک لائبریری کا قیام آپ کی حکومت آپ کے مطالبے پہ کرے گی۔ پھر آپ فخر سے کہہ بھی لیں تو لبِ مسکراہٹ لیے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قائداعظم پبلک لائبریری کے علاوہ ایک اور پبلک لائبریری اسپنی رووڑ پہ واقع ہے۔بچے اور بچیوں کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے دونوں لائبریریاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ موجودہ حکومت کے پاس اختیارات ہیں بجٹ ہے۔ پانچ یا چھ بلڈنگیں لائبریری کے نام پہ قائم کرنا کونسا مشکل کام ہے۔ یا گورنمنٹ بوائز یا گرلز ہاسٹل قائم کرنا کونسا مشکل کام ہے۔ انہی بوائز اور گرلز ہاسٹل کے ساتھ پبلک لائبریری کا قیام کونسا مشکل کام ہے۔ اگر کوئٹہ شہر میں بڑے بڑے پلازے بن سکتے ہیں تو لائبریریز کا قیام کونسا مشکل کام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی منصوبے حکومتی ترجیحات میں شامل ہیں؟
یہ کام صوبائی حکومت کا ہے حکومتی نمائندگان کا ہے۔ صوبائی اسمبلی سے قائداعظم لائبریری تک کا فاصلہ اتنا دور بھی نہیں ہے۔ حکومتی نمائندگان پیدل واک کرکے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ وہاں کی حالتِ زار کا اندازہ اپنی آنکھوں سے لگا کر اچھی حکمتِ عملی مرتب کر سکتے ہیں۔ لائبریریز یا ہاسٹل کسی ایک ریجن کی ضرورت نہیں گوادر سے لے کر چمن تک سب نوجوانوںْ کی ضرورت ہے۔ حکومت میں بیٹھے لوگ انہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیکھنا ہے کون سا نمائندہ اس کارِ خیر میں میدانِ عمل میں آئے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply