اپنی دنیا۔۔۔۔ احمد نصیر

کہنے کو ہم سب اس دنیا میں رہتے ہیں لیکن یہ پوری بات نہیں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر کسی کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ جو ان واقعات اور حالات سے بنتی ہے۔ جو اس کی پیدائش کے بعد اس کے ساتھ پیش آتے ہیں یا سامنے سے گزرتے ہیں۔ یہ بات قدیم وقتوں سے ثابت شدہ ہے کہ ہمیں وہی نظر آتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اسے ہمارا دماغ پروسس نہیں کرتا۔ چنانچہ ہمارا لاشعور جس کے اندر ہماری اصل شخصیت بیٹھی ہوتی ہے اس تک وہی کچھ پہنچ پاتا ہے جو اس کے اپنے متعلق ہوتا ہے۔

یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنی اپنی جو بھی دنیا بنائی ہوئی ہے اس میں ہمارے علاوہ کسی کے بھی رہنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کوئی بھی نہیں جو ہمارے نظریات اور اصولوں کی کسوٹی پر فٹ آ سکے۔ ہمیں اپنے بہن بھائیوں، والدین، بچوں، کولیگز، دوستوں حتیٰ کہ اپنے محبوب سے بھی بے شمار شکائتیں ہر وقت رہتی ہیں۔

ہم سہولت محسوس کرتے ہیں کہ ہم زندگی جئیں اپنے اصولوں کے مطابق۔ ہمارے اصول بنے ہوتے ہیں ہمارے نظریات سے اور نظریات بنانے کے لئے ہم نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے معاشرے کو۔ اور یہ ہوتا اس وجہ سے ہے کہ ہمارا دماغ ہمیشہ کمفرٹ زون میں رہنا چاہتا ہے اس لئے معاشرے کے بنے بنائے اصولوں کو من و عن قبول کر لیتا ہے انہیں حقائق کی چھلنی میں چھاننے کی تکلیف نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں جھٹلانے کی جرات کرتا ہے۔ معاشرے میں عام طور پر اصول گردش کر رہے ہوتے ہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دو، ہر کوئی مطلبی، دھوکہ باز، لالچی اور موقع پرست ہے محتاط رہنا، حق مانگنے سے نہیں چھیننے سے ملتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

چنانچہ ایک سٹریس ہر وقت قائم رہتا ہے اور ہم ہمیشہ بے چینی پریشانی اور تکلیف میں رہتے ہیں۔ ہم اس سب کی وجہ دنیا کو قرار دیتے ہیں۔۔۔۔۔ بالکل درست ۔اس کی وجہ دنیا ہی ہے۔ وہ دنیا جو ہم نے خود بنائی ہوئی ہے۔ جس میں ہمارے علاوہ کسی کے رہنے کی گنجائش نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply