• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کوک سٹوڈیو، چوری کی دھنیں اور اسٹیبلشمنٹ کے گلوکار ۔۔ علی نقوی

کوک سٹوڈیو، چوری کی دھنیں اور اسٹیبلشمنٹ کے گلوکار ۔۔ علی نقوی

اس ملک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوفت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، جہاں ہزاروں باتیں آپ کو ہر روز مختلف قسم کی ذہنی اذیتوں سے دوچار کرتی ہیں وہیں ایک بات معیار کی تنزلی بھی ہے ۔ ہر چیز اپنا معیار کھو رہی ہے سیاست کی بات کریں یا سیاسی نظریات کی سیاسی لیڈران ہوں یا کارکنان ہر جگہ ایک واضح پستی نظر آتی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہماری یہ سیاسی جماعتیں کہاں سے شروع ہوئی تھیں، کس مائینڈ سیٹ کے لوگوں نے ان کی بنیاد رکھی اور اب یہ کہاں پہنچ گئی ہیں ۔ پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر سے شروع ہوکر آصف علی زرداری تک پہنچی، مسلم لیگ جناح صاحب جیسے آدمی سے نواز شریف، شہباز شریف، شیخ رشید، چودھری شجاعت، پرویز الٰہی اور ون اینڈ اونلی پرویز مشرف تک پہنچی جنہوں نے مسلم لیگ کے آگے ن، ش، ق، ع اور پتہ نہیں کیا کیا لگا لیا۔ جماعت اسلامی مولانا مودودی جیسے جید عالم سے شروع ہوئی اور اعلیٰ حضرت سراج الحق اس کی معراج ہیں اور ابھی چشمِ فلک جانے کیا کیا دیکھے گی ۔ اسی سطح کی پستی اور تنزلی سیاسی نظریات اور کارکنان کے ضمن میں بھی دیکھی جاسکتی ہے اور جب سے پی ٹی آئی معرضِ وجود میں آئی ہے کارکنان کی پستی کی وہ سطح دیکھنے میں آئی ہے جس کی نظیر ہی نہیں ملتی۔ اسی طرح آپ اس ملک کا کوئی ادارہ یا شعبہ اٹھا لیں یہ زوال آپ کو واضح نظر آئے گا ۔ انیس سو اسی کے نشتر ہسپتال اور آج کے نشتر ہسپتال کو دیکیھے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ کس کس طرح سے اس کو نوچا اور لوٹا گیا ہے ۔ آج کے ڈاکٹروں میں انسانی ہمدردی اور اخلاقیات نام کی چیز ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ دس سال پہلے کی زکریا یونیورسٹی اور آج کی یونیورسٹی میں کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی ۔ آج سے دس سال پہلے جب میں وہاں کا سٹوڈنٹ تھا اس وقت یونیورسٹی نسبتاً لبرل جگہ تھی جہاں ڈرامہ ہوتا تھا، میوزک ہوتا تھا، ڈیبیٹ ہوتی تھی اور دو چار باوقار اساتذہ بھی موجود تھے اب یا تو گھٹیا قسم کی سیاسی بھرتیاں ہیں یا جاہل ترین لوگ یورپ کی دو نمبر یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر کے یہاں بھرتی ہوگئے ہیں، وژن نام کی کوئی چیز یہاں نظر نہیں آتی ۔ سٹوڈنٹس کا حال یہ ہے کہ وہ ان گھٹیا لوگوں کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہیں، اسی طرح عدلیہ دیکھیں کوئی وقار نامی شے آپ کو دِکھ جائے مجال ہے ۔۔ چند روز پہلے ایک سینئر وکیل صاحب سے ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ یہ کون سے جج آ گئے ہیں جو ایک انتہائی حساس نوعیت کے کیس کے فیصلے میں فلموں کے کرداروں کا حوالہ دیتے ہیں کیا گاڈ فادر اور سسیلین مافیا جیسے الفاظ ایک ملکی نوعیت کے انتہائی حساس کیس کے فیصلے میں لکھے جانے کے قابل ہیں؟ یقیناً نہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ وکلاء گردی پولیس گردی کی طرح ایک اصطلاح بن چکی ہے۔ جب جی چاہتا ہے وکلاء ہڑتال پر چلے جاتے ہیں اور جب دل کرتا ہے ڈاکٹر میدان میں آ جاتے ہیں‌۔
بات کرتے ہیں ذرا شوبز کی ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی کا ڈرامہ اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں لوگ اپنے گھروں کی تقریبات ڈرامہ ٹائم کے بعد شروع کیا کرتے تھے ، اب جب کہ ہمارے پاس ڈرامہ چینلز کی بھرمار ہے ایک عجیب وحشت کا سماں ہے ایک تو چند لوگوں کی اجارہ داری قائم کرائی گئی ہے (ایک زمانہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ صرف مولویوں، ججوں اور سیاست دانوں کو قوم پرمسلط کیا کرتی تھی اب بہت سے گلوکار، فنکار اور اداکار بھی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں) دوسرے جن موضوعات پر ڈرامہ بن رہا ہے وہ شادی، طلاق، ایکسٹرا میریٹل افئیرز سے باہر ہیں ہی نہیں سالی کا بہنوئی سے چکر ہے، بھابھی کا دیور سے چکر تھا لیکن اسکی شادی بڑے بھائی سے ہوگئی ہے، ہر ڈرامے میں ایک آدھی طلاق لازم کر دی گئی ہے، کروڑوں کے بنگلے، چمچماتی گاڑیاں، بے پناہ گلیمریس لڑکے لڑکیاں نجانے ہمیں کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں ۔ پستی کا عالم یہ ہے کہ ایک اچھا مزاحیہ ڈرامہ (سٹکام) اس وقت کسی چینل پر نہیں دکھایا جا رہا، مزاح کے نام پر خبر ناک، حسبِ حال، مذاق رات ٹائپ پھکڑ پن خوب بِک رہا ہے اور آہستہ آہستہ ہوگا یہ کہ لوگ اسی کو کامیڈی سمجھنا شروع کر دیں گے جس طرح لوگوں نے مبشر لقمان، سمیع ابراہیم، عامر لیاقت، حسن نثار، اوریا مقبول، ارشد شریف، کاشف عباسی، حامد میر، رؤ ف کلاسرا اور کئی دیگر احباب کو دانشور سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ایک نیا کام پکڑا ہوا ہے پہلے بات کرتے ہیں پیپسی بیٹل آف دی بینڈ کی کیا کہنے کہ جب آپکی نظر ججز پر پڑتی ہے وہی اسٹیبلشمنٹ کے گلوکار، اس ملک میں موسیقی کی سب سے زیادہ سمجھ بوجھ فواد خان اور میشا شفیع کو ہے ۔کیا کہنے اور جب ان سے معاملہ باہر ہو جائے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں عاطف اسلم ہے نا … فرعونیت کا عالم یہ ہے کہ ایک لڑکے نے آڈینشز کے دوران فواد صاحب کو فواد بھائی کہہ دیا تو فرمانے لگے کہ “ہم بھائی نہیں ہیں” جس کو اپنی سماجی بنُت کی سمجھ تک نہ ہو کیا وہ آرٹسٹ ہو سکتا ہےکہ ہمارے یہاں اپنے سے بڑے کو بھائی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں وہ آرٹسٹ ہی نہیں بلکہ آنے والے نئے آرٹسٹوں کی تقدیر کا فیصلہ بھی کرتا ہے اور تو اور فیض احمد فیض کی اولاد اس کو صرف ریٹنگز کے چکر میں فیض میلے کا گیسٹ سپیکر بھی بناتی ہے۔
ایک اچھی چیز شروع ہوئی تھی اور وہ تھی کوک سٹوڈیو لیکن وہاں جو حال ہو رہا ہے اب برداشت سے باہر ہے اسٹیبلشمنٹ کے گلوکار وں کا راج ہے۔ شروع کے چار سیزنز بہت اچھے تھے جب تک ایک جینوین میوزیشن روحیل حیات اس کے سُرخیل تھے اسکے بعد جب لوگوں میں مقبولیت بڑھی تو اسٹیبلشمنٹ متحرک ہوئی اور اسکو آلودہ کرنا شروع کیا گیا ایک تو ہماری جان عاطف اسلم، علی ظفر، راحت فتح علی خان اور عابدہ پروین جی سے نہیں چھوٹتی ہر سیزن میں یہی لوگ اور کام ٹکے کا نہیں ۔۔ ابھی ہم یہ لیجنڈز بھگت ہی رہے تھے کہ ہم پر میشا شفیع، عزیر جسوال جیسے عظیم گلوکار حملہ آور ہوئے معاملہ سٹرنگز کے ہاتھ میں آیا تو کوک سٹوڈیو انور مقصود صاحب کے قبضے میں چلا گیا کچھ اچھے گانے بھی بنے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسرار شاہ، نبیل شوکت، علی سیٹھی اور ساحر علی بگا بھی مسلط کر دیے گئے ابھی اس شاک سے نکلے نہیں تھے تو معلوم ہوا کہ مہوش حیات اور عائشہ عمر بھی گلوکاراؤ ں کی لسٹ میں شامل کر دی گئی ہیں اس کے بعد آسمان نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ نصرت فتح علی خان کا جانشین سفید رنگ کا کوٹ پہن کر ایک خوبرو حسینہ کے پہلو میں بیٹھا آفریں آفریں کا قتلِ عام کر رہا تھا اور سننے والی پست مزاج اور گھٹیا آڈینس اس پر جھوم رہی تھی۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کیا راحت فتح علی خان نے نصرت صاحب سے کچھ بھی نہیں سیکھا کہ ان سے آفریں آفریں تک نہیں گایا جاتا؟ (شاید استاد کے فن میں بھی مسائل تھے کیونکہ مرحوم نے بھی اپنے بزرگوں کی چیزیں کچھ اسی انداز سے برباد کی ہیں، یہاں قارئین کے لیے ایک بات آفریں آفریں کی دھن بھی ایک پرانی قوالی “اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا” سے چوری شدہ ہے اور یہ دھن نصرت فتح علی خان کے بزرگوں کی دھن ہے) خیر بات ہو رہی ہے کوک سٹوڈیو کی سیزن نائین سے لے کر سیزن الیوین تک صرف ٹریش پروڈیوس کیا جا رہا ہے، میرا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ آپ کے پاس بے پناہ پیسہ ہے پاکستان کے بیسٹ سیشن پلیئرز آپکے پاس ہیں وسائل کی کوئی کمی آپکو درپیش نہیں ہے پھر کیوں آپ سے نیا کام پروڈیوس نہیں ہو پا رہا؟ چند سوالات گزشتہ کئی سیزنز سے میرے دماغ میں گھوم رہے ہیں کہ کیوں پرانے گانوں کا ستیاناس مارنے پر آپ تُل گئے ہیں؟ کیا آپکو کوئی نیا کلام میسر نہیں ہے؟ کیا کسی جینوین میوزک کمپوزر تک آپکی رسائی نہیں ہے؟ کیا اس ملک کے کسی قریے، قصبے، گاؤں یا شہر میں کوئی ٹینلٹڈ گلوکار آپ نہیں ڈھونڈ سکے؟ وہ کیا مجبوری ہے جو ہر سیزن میں آپکو علی ظفر اور عاطف اسلم تک لے جاتی ہے؟ وہ کون سا تجربہ ہے جو آپ مہوش حیات سے گلوکاری کی دنیا میں کرانا چاہتے تھے یا ہیں؟ عائمہ بیگ اور مومنہ مستحسن میں کیوٹ ہونے کے علاوہ کسی قسم کے ٹیلنٹ کی نشاندہی آپ کر سکتے ہیں؟ ساونڈ آف دی نیشن آپ کی پنچ لائن ہے پر مجال ہے کہ جو کوئی ایک ایسا کام ہوا ہو جو ایک قومی علامت بن سکے کروڑوں روپے برباد کر کے آپ پروڈیوس کر بھی رہے ہیں تو یہ ٹریش ۔ علی سیٹھی کی ذہانت کا میں متعرف ہوں کہ وہ کیمبرج کا ایک ذہین ترین سٹوڈنٹ رہا ہے لیکن وہ ایک نان جینوین گلوکار ہے اور اس کا ثبوت وہ بددماغی ہے جو شہرت حاصل کرنے کے بعد اس میں آئی ہے، اس وقت پریکٹیکلی صورتحال یہ ہے کہ جتنے لوگ کوک سٹوڈیو میں پرفارم کر رہے ہیں یا تو ان میں سے کسی کا باپ جنرل ہے کسی کا باپ بہت بڑا صحافی ہے، کوئی علی ظفر کا بھائی ہے کوئی کسی کی گرل فرینڈ ہے، جو کوک سٹوڈیو پہنچ جاتا ہے وہ انسانوں کو انسان سمجھنا بند کر دیتا ہے ساحر علی بگا صاحب خود کو اے آر رحمان کے لیول کا میوزک کمپوزر سمجھتے ہیں، کوئی انکو جا کر بتائے کہ حضور آپکی ریٹنگز کی اصل وجہ اس ویڈیو میں کھڑی عائمہ بیگ اور اس ملک میں موجود مردوں کی جمالیاتی بدذوقی ہے نہ کہ آپکی گلوکاری، لہذا ابھی پیدا ہو لیجیے کام کیجیے اور بیس پچیس سال تک موثر رہ کر دکھائیے اے آر رحمان بننے کے لیے ٹیلنٹ کی ضرورت ہے نہ کہ عائمہ جی کے ساتھ کی… آخر میں درخواست صرف اتنی ہے کہ جتنا خرچہ اور محنت آپ نے سیٹ اور چمک دمک پر کی ہے اسکی آدھی بھی اگر آپ نیا ٹیلنٹ جس میں نئے گانے والے نئے شاعر نئے میوزیشن ڈھونڈنے پر کرتے تو کوک سٹوڈیو ایک سماجی علامت کے طور پر ابھرتا نہ کہ ملامت کے طور پر جو کہ وہ بن چکا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

http://www.girdopesh.com/ali-naqvi-9/

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply