قربانی اور معاشیاتی انڈیکس

بعض اوقات انسان کو ایسے موضوعات پر لکھنا ضروری ہو جاتا ہے جن میں اس کی بنیادی تعلیم نہیں ہوتی۔ میں ایسے لکھنے والوں کی تحریروں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھتا کیونکہ یہ جہاں وقت کا ضیاع ہوتا ہے وہیں غلط بنیادوں پر اخذ کیے گئے نتائج سے اپنے ذہن کو مسموم اور بعض اوقات مسمیرائز کرنے کا سامان ہوتا ہے۔ یوں بعض اوقات ایسی چیزیں دماغ میں بیٹھ جاتی ہیں جن کی نفی یا ارتداد کرنا محدود انسانی ذہن کی اوقات سے باہر ہو جاتا ہے۔ معاشیات ایک ایسا ہی شعبہ ہے جس کی میری بنیادی تعلیم نہیں ہے لیکن ایک خاص وجہ سے آج معاش کے نام پر کھڑے کیے گئے ایک مغالطے کا فسوں توڑنا ضروری خیال کر رہا ہوں۔ اور اس کام کے لیے خود میدان میں اس لیے اترا ہوں کہ کوئی اور صاحب یا کوئی اہل صاحبِ فن اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ آج کل جدید معاشیات پر بڑے کینوس پر لکھی جانے والی اہم تحریریں برادرم ذیشان ہاشم کی ہیں۔ کاش وہی اس جانب کچھ توجہ فرما لیں۔
پچھلی صدی کے وسط میں انتقال کرنے والے ایک معروف باخدا بزرگ کا یہ مقولہ کبھی کبھی گردش میں آ جاتا ہے کہ مسلمانوں کے دماغوں میں عقل کی جگہ بھی اخلاص بھرا ہوا ہے۔ اس اخلاص کی وجہ سے مسلمانوں سے وہ وہ کام سرزد ہوتے ہیں کہ عقل و دانش منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ تین سال ہوتے ہیں کہ بکرعید کے دنوں میں ایک مضمون چھپا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ قربانی سے مسلمانوں کو بہت معاشی فائدہ ہوتا ہے۔ اس بے مثال تحقیق کا آغاز اس الہامی جملے سے ہوتا ہے کہ &:عید پر ایک اندازے کے مطابق 2 کھرب روپے سے زیادہ کا مویشیوں کا کاروبار ہوا۔" اس "تحقیق" کے اعداد و شمار میں غالبًا سال بہ سال ترقی ہو رہی ہے چونکہ آج کل سوشل میڈیا ہر جو گمنام پوسٹ وائرل ہو رہی ہے اس میں 2 کھرب کے 4 کھرب ہو چکے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
"عید پر ایک اندازے کے مطابق 4 کھرب روپے سے زیاده کا مویشیوں کا کاروبار ہوا۔
تقریبًا 23 ارب روپے قصائیوں نے مزدوری کے طور پر کمائے۔
3 ارب روپے سے زیاده چارے کے کاروبار نے کمائے۔
پاکستانی کاروبار کی دنیا میں سب سے بڑا کاروبار عید پر ہوا۔
نتیجہ: غریبوں کو مزدوری ملی۔ کسانوں کا چاره فروخت ہوا۔ دیہاتیوں کو مویشیوں کی اچھی قیمت ملی۔ گاڑیوں میں جانور لانے لے جانے والوں نے اربوں روپے کا کام کیا۔ بعد ازاں غریبوں کو کھانے کے لیے مہنگا گوشت مفت میں ملا۔ کھالیں کئی سو ارب روپے میں فروخت ہونی ہیں۔ چمڑے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو مزید کام ملا۔ یہ سب پیسہ جس جس نے کمایا ہے وه اپنی ضروریات پر جب خرچ کرے گا تو نہ جانے کتنے کھرب کا کاروبار دوباره ہوگا۔ یہ قربانی غریب کو صرف گوشت نہیں کھلاتی بلکہ آئنده سارا سال غریبوں کے روزگار اور مزدوری کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک کروڑوں اربوں روپے امیروں پر ٹیکس لگا کر پیسہ غریوں میں بانٹنا شروع کر دے تب بھی غریبوں اور ملک کو اتنا فائده نہیں ہونا جتنا اللہ کے اس ایک حکم کو ماننے سے ایک مسلمان ملک کو فائده ہوتا ہے۔ اکنامکس کی زبان میں سرکولیشن آف ویلتھ کا ایک ایسا چکر شروع ہوتا ہے کہ جس کا حساب لگانے پر عقل دنگ ره جاتی ہے۔ تو کیا قربانی کا یہ عظیم الشان عمل بیکار ہے؟"
یہ اس قدر عظیم معاشی نظریہ ہے جسے پیش کرنے والے کو ہر مہینے سونے میں تولنا چاہیے۔ واقعی اسے پڑھ کر عقل دنگ رہ گئی اور ابھی تک دنگا کر رہی ہے۔ میری عقل تو اس سوال کے جواب میں بھی اب تک دنگ کی دنگ ہے کہ اللہ کے اس ایک حکم کو مسلمان 1436 سال سے ادا کرتے آ رہے ہیں اس کے باوجود دنیا میں سب سے غریب صرف مسلمان کیوں ہیں؟ دنیا گھوم کر دیکھ لیجیے، جو پھٹیچر ٹٹ پونجیا ملے گا وہ مسلمان ہی ہوگا۔ اس ڈیٹا کے مطابق مسلمان 3 ارب روپے صرف مویشیوں کے چارے کی گھاس سے کما رہے ہیں۔ میری عقل دنگ ہے کہ چند فیصد آسودہ مسلمانوں کے علاوہ ساری دنیا کے مسلمانوں کا زیست کاٹنا اور گھاس کاٹنا ہم معنی کیوں ہے؟ ڈیٹا کے مطابق 23 ارب روپے مسلمان قصائیوں نے کمائے۔ یقینًا یہ وہ قصائی نہیں ہیں جو کلمہ گوؤوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلتے ہیں اور مسجدوں میں بیٹھ کر زندہ اور مردہ مسلمان کے گوشت پر ڈالر لیتے دیتے ہیں۔
غلط ڈیٹا سے درست نتائج اور درست ڈیٹا سے غلط نتائج کس طرح لیے جاتے ہیں، ان کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ایک حیاتیاتی سائنسدان نے مکھی کی قوتِ سماعت پر تجربہ کیا۔ اس نے مکھی کا ایک پر توڑا اور اسے چھوڑ دیا۔ وہ لڑکھڑانے لگی اور اڑنے کے لیے کوشش کرنے لگی۔ سائنسدان نے دوسرا پر بھی توڑ دیا۔ اب مکھی حرکت سے بھی گئی۔ اب سائنسدان نے مکھی سے کہا کہ اُڑ۔ مکھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ تجربے کا نتیجہ سائنسدان صاحب نے یہ لکھا کہ جب مکھی کے دونوں پر توڑ دیے جائیں تو وہ قوتِ سماعت محروم ہو جاتی ہے۔ تفنن برطرف، کیا ہمیں یہ بات تسلیم نہیں کرنی چاہیے کہ ہم مسلمان بحیثیتِ قوم قربانی جیسی ساڑھے چار ہزار سالہ تاریخ رکھنے والی عبادت سے بھی کچھ نہ سیکھ پائے؟ ہم کیوں قربانی کو گوشت اور چارے اور قصائیوں سے ناپتے تولتے ہیں؟ اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ مجھ تک گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے، ہم اس سائنسدان کی طرح اللہ کو بتانے ہیں کہ مسلمانوں تک 4 کھرب روپیہ پہنچتا ہے۔
قربانی سنت ہے اور ہر گھرانے پر ایک کے حساب سے، اور یہ بہرحال کرنی چاہیے خواہ اس کے لیے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ قربانی کو تنگ دست مسلمانوں پر ایسے لاد دیا گیا ہے کہ اس سنتِ ابراہیمی کی حیثیت مسخ ہوکر رہ گئی ہے۔ خدا کے آخری پیغمبر نے دین مکمل ہوتے ہوتے بھی کسی مرحوم کی طرف سے قربانی نہیں کی لیکن ہم چونکہ نعوذ باللہ رسول اللہ سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہیں اس لیے شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں کسی نہ کسی مرحوم کی طرف سے قربانی نہ کی جاتی ہو۔ حد تو یہ ہے کہ حاجی پر عید کی نماز نہیں ہے، اور ہم حاجی سے حج کی قربانی کے ساتھ ساتھ عید کی قربانی بھی کرا لیتے ہیں۔ قربانی کی یہی وہ معاشی بے اعتدالیاں ہیں جن کا دینِ اسلام میں کوئی وجود اور کوئی مطالبہ نہیں ہے اور جن پر خرچ پوری امت کو غریب تر کرتا چلا جا رہا ہے۔ ہے کوئی ماہرِ معاشیات جو یہ بتا سکے کہ سالانہ 4 کھرب کی سرکولیشن آف ویلتھ کے باوجود محمدِ عربی کا کلمہ پڑھنے والا شخص ہر آسودہ ملک میں ڈِش واشر، کلینر اور بِن مین کیوں ہوتا ہے؟

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قربانی اور معاشیاتی انڈیکس

  1. اچھا دل چسپ مضمون ہے۔ اگر ممکن ہوتو بتادیں کہ یہ مقولہ کس کا ہے کہ مسلمانوں کے دماغوں میں عقل کی جگہ بھی اخلاص بھرا ہوا ہے۔ اس اخلاص کی وجہ سے مسلمانوں سے وہ وہ کام سرزد ہوتے ہیں کہ عقل و دانش منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔

Leave a Reply to شکیل چودھری Cancel reply