گوگل خان

گوگل کو گوگل کیوں کہتے ہیں ۔ یہ واحد "گل"ہے جو خود گوگل کو نہیں پتہ ۔ اس کے علاوہ اس کوبوگل سے ٹوگل اور باگل سے چھاگل تک ہرگل پتہ ہے ۔ میرے پلیٹھی کے بیٹے کا ہانی ہے اس لیے مجھے ذرا زیادہ عزیز ہے۔اور ویسے بھی میں دن اتنی بار اپنے بیٹے سے نہیں ملتا جتنی بار اس سے ملتا ہوں۔ خیر سے بیس سال کا ہونے کو ہے، اس لحاظ سے یہ واحد امریکی ہے جو اٹھارہ سال سے بڑا ہو کر بھی جواب دیتا ہے ۔ ورنہ امریکی تو اٹھارہ سال اور ایک دن کا ہو تو ماں باپ کو بھی سیدھا جواب ہی دیتا ہے ۔ اپنے سگے باپ کو کہے گا، ہاؤ آر یو مسٹر ڈیوڈ؟. گوگل لڑکا ہے یا لڑکی، ایک دن ہم نے اپنے دوست قابل خرگوشوی سے پوچھا ۔ کہنے لگا نہ صرف لڑکی ہے بلکہ شادی شدہ بھی ہے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کیسے، بولا۔۔۔"آدھی بات سن کر دس اندازے لگانا شیوہ نسوانی ہے کہ نہیں" ۔ ہم نے اثبات میں سر ہلایا، اور اگلی پچھلی سب باتوں کا علم ہونا اور موقعہ ملتے فوراً حوالہ منہ پر مارنا کس کا کام ہے؟ عرض کیا بیگم کا ۔ کہنے لگا تو پھر ۔۔۔ہمارے خیال میں لیکن گوگل لڑکا ہی ہے کیونکہ اسکی بڑی بہن "گوگلی"سے ہمارا تعارف کرکٹر عبدالقادر اسی کی دہائی میں کروا چکے ۔
گوگل اگر ہزاروں سال سے ہوتا تو اس کے نام کے متعلق لوگوں نے اس طرح کی تاویلیں کی ہونی تھیں۔ ایک کمزور سی روایت ہے کہ شروع میں یہ ایک نالائق سا سرچ انجن ہوتا تھا۔ کسی گل کا فوراً جواب نہ دیتا، ہرگل کو گومگو کے فولڈر میں ڈال دیتا۔ اس لیے لوگوں نے اسے گومگوگل کہنا شروع کر دیا ۔جو بعد میں سدھر کر گوگل ہو گیا ۔اسی طرح ایک طاقتور سی روایت ہے کہ جب بھی اس سے کوئی بندہ کوئی ایک گل پوچھتا یہ اس کو آگے سے سوگل بتاتا، اس طرح اس کا نام سوگل پڑ گیا ۔ پھر ایک دن جب سب سو رہے تھے تو کوئی جو نہیں سو رہا تھا وہ سو کو گو کرگیا ۔اس طرح یہ راتوں رات گوگل بن گیا ۔
آپ کو نہیں لگتا کہ یہ الہ دین کے چراغ کے جن کا کوئی پنجابی ایڈیشن ہے ۔ سر پر پگڑی اور کمر پر دھوتی باندھے ہر وقت خدمت کیلیے تیارمنہ میں پنجابی میں سوال دہرا رہا ہو. "کیہ گل""کیہ گل" اور جیسے ہی کوئی سائل آسان سی بات پوچھے تو فورا ًجواب حاضر کرکے زیرِ لب بڑبڑاتا ہو گا …."اینی گل"سی۔ کوئی مشکل سوال ہو تو تھوڑی دیر بعد جواب دیتا ہے اور ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے سوچتا ہے "اوکھی گل"سی ۔کوئی بری بات پوچھے تو منہ بسورے ناک پہ ہاتھ رکھے جواب دیتے ہوئے سوچتا ہے "گندی گل"۔ اگر کوئی غلط ہجے لکھے یا احمقانہ سا سوال کرے تو منہ بسور کر بھوئیں چڑھا کر جواب دیتے ہوئے کہتا ہو "عجب گل" اے۔
ہماری زندگیوں میں اس کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے ،کہ پہلے پہل کسی کو کوئی مسئلہ ہوتا تو اس کو کسی بزرگ کے پاس لیجاتے اور بزرگ سے کہتے اسکو دم کریں، اب مسئلہ ہو تو کہا جاتا ہے اسکو گوگل کریں۔ گمانِ فاضل ہے اگلے وقتوں میں بڑے لوگوں کا خاکہ یوں لکھا جائے گا، انہوں نے ابتدائی تعلیم کڈل اور اعلیٰ تعلیم گوگل سے حاصل کی ۔ محتاط لوگ اب گفتگو یوں شروع کیا کریں گے ۔ دروغ بر گردنِ گوگل ۔ بی اماں اپنے بیٹے کو کہہ رہی ہونگی "ابے نفیس سنا ہے اپنی راحت اور اسکا ہم جماعت راحت ایک دوسرے میں دلچسپی لیوے ہیں۔ تو گوگل سے ذرا اس کے گھر بار کی سن گن تو لیو۔" بیگم میاں سے جھگڑ رہی ہو گی۔ کہاں تھے اتنی رات تک …….وہ آفس میں کام بہت تھا ۔…. "ہونہہ آفس، ابھی پوچھتی ہوں گوگل سے کس آفس میں تھے۔"
گوگل کا آغاز دو امریکی دوستوں سرگئی برن اور لیری پیج نے ستمبر1998 میں کیا۔ اس وقت لائیکوس، آلٹا وسٹا، ہاٹ باٹ، ڈاگ پائل اور یاہو وغیرہ موجود تھے لیکن اپنے سادہ پیج اور جواب دینے کی بہتر رفتار اور شاید کسی حد تک نام کی وجہ سے شہرت میں سب سے آگے نکل گیا۔اس وقت گوگل پانچ سو ارب ڈالر سے زائد اثاثوں اور ساٹھ ہزار سے زائد ملازمین کے ساتھ امریکہ کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ تاحال گوگل کے پاس موجود ڈیٹا پندرہ ایکسا بائیٹ سے زیادہ ہے ۔ جس میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ پندرہ اکسابائیٹ کو آسان لفظوں میں آپ یوں سمجھ لیں کہ پانچ سو جی بی والے تین کروڑ کمپیوٹر ۔اتنے ڈیٹا کو ہر وقت آن لائن رکھنے کے لئے چھ سو میگاواٹ بجلی درکار ہوتی ہے ۔
سوچتا ہوں گوگل اگر پاکستان میں ہوتا اور اتنا ہی مقبول ہو جاتا تو ہماری اور خود اس کی زندگی ہی مختلف ہوتی ۔ سب سے پہلے تو چاہنے والوں نے سرگئی اورلیری کو ہی آپس میں لڑوا دینا تھا ۔ کسی نے سرگئی کو کہنا تھا "یہ لیری نکھٹو کرتا کیا ہے سارا دن دوستو کا جمگھٹا لگا کر بیٹھا رہتا ہے ۔ سارا کام تم کرو اور آدھا منافع وہ لیجائے"۔ اور کسی نے لیری کے کان بھرنے تھے "یار یہ گوگل میں گ جتنا بھی کردار نہیں برن کا ۔ گیارہ بجے تو یہ گھر سے آتا ہے ۔اورگھمنڈی اتنا جیسے سارا گوگل کاندھوں پہ اٹھایا ہوا ہو"تیسرے سال ہی ان بیچاروں نے آپس میں جوتم بیزار ہوئے ہونا تھا ۔پھر انہیں دوستوں نے پنچایت لگا کر فیصلہ سنا دینا تھا کہ "گو"برن کا اور "گل " پیج کا ۔تیسرے برس"گو"علیحدہ انجن ہوتا اور "گل" علیحدہ ۔اور ا ن دو کےعلاوہ باقی سب ہنسی خوشی رہ رہے ہوتے۔ اگر اس بانٹ سے بچےرہتے اور پھر بھی مشہور ہوجاتے تو پھر شریکوں نے مقابلے میں اتنے گوگل کھول دینے تھے کہ ایک دن کسی انگریز نے لکھنا تھا گوگل تو سامنے نتائج دیکھ کر اس کو دندل پڑ جانے تھے ۔ جواب کچھ اس طرح کے ہوتے
آپکی تلاش "گوگل " کےنتائج 0.000074 سیکنڈز میں
حاجی گوگل سیکنڈوں میں ہر سوال جواب ۔
میاں گوگل سب سے تیز
جٹ گوگل، اوہ گیا تے ایہہ آیا
اصلی تے پرانا گوگل ،صرف گوگا گوگل۔
اصلی گوگل پہلوان سیلیکون ویلی والے
چرسی گوگل ،جو کوئی اور چرسی گوگل ہوگا وہ نقلی ہوگا ۔
اعلیٰ حضرت گوگل شریف اسلام آبادوی
کوگل. COOGLE
گوکل. GOOCLE
گووگل GOOOGLE
ان سب آزمائشوں کے بعد بھی اگر یہ ایسا کامیاب ہو جاتا تو عوام نے اس کی دل و جان سے پذیرائی کرنا تھی ۔ پٹھان بھائیوں نے بچوں کے نام رکھنے تھے ۔ گوگل خان ۔۔۔ہمارے تو رکشوں کے پیچھے لکھا ہوتا "گوگل خان سواریوں کی جان"….ہر طرف رونق ہی رونق ہوتی ۔۔گوگل پان مصالحہ۔۔گوگل نسوار۔۔۔ گوگل واشنگ مشین ۔۔۔گوگل وائیٹنگ کریم ۔۔۔۔گوگل گولا ٹھنڈا اور میٹھا ،گوگل فرائیڈ چکس۔۔۔اور کالے علم کی کاٹ پلٹ کے ماہر عامل کامل گوگل ۔
بستیوں اور سڑکوں کے نام اس پر ہوتے، چنگ چی والے آوازیں لگا رہے ہوتے ۔گوگل چوک آلے، گوگل چوک آجاؤ کلی سواری ۔
ہماری تو فلموں کے نام اس طرح کے ہوتے گوگل تے گجر، گوگل دا کھڑاک ۔ نصیبو لعل گا رہی ہوتی
پھکی پے گئی چن تاریاں دی لو
توں اجے وی نہ آئیوں گوگلا ۔۔۔
ٹیچر بچوں کو ڈانٹ رہے ہوتے "جے توں کل وی سبق نہ سنایا میں تیری گوگل تے سوٹیاں مارنیا نیں ۔
بہرحال جی جہوندا رہے گوگل تے جوانیا مانے ساڈا تے ایہو ای نعرہ
گل گل تے گوگل
پل پل تے گوگل

Facebook Comments

ابن فاضل
معاشرتی رویوں میں جاری انحطاط پر بند باندھنے کا خواہش مندایک انجینئر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply