• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • نفسیات:احساسِ جرم, ایک نفسیاتی عارضہ۔۔۔۔ڈاکٹر مختار مغلانی

نفسیات:احساسِ جرم, ایک نفسیاتی عارضہ۔۔۔۔ڈاکٹر مختار مغلانی

انسانوں کی اکثریت احساسِ جرم کو سمجھنے کا تکلّف نہیں برتتی، یہ احساس کم و بیش ہر شخص میں موجود ہے، ممکن ہے اچھا انسان بننے یا رہنے کیلئے اس احساس کی ایک خاص اہمیت ہو، مگر زیادہ تر لوگوں میں اس کی شدّت معیارِ ضرورت سے کہیں زیادہ ہے، یہ سراسر منفی احساس ہے، عمومی تصوّر ہے کہ یہ ایک بالغ الشعور انسان کی علامت ہے، مگر حقیقت میں یہ احساس نفسیاتی طور پر نابالغ ذہن میں پرورش پاتا ہے۔
یہاں ، جرم، کی بجائے لفظِ قصور بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اور شاید مضمون کو بہتر سمجھنے کیلئے اسی لفظ کو استعمال کیا جانا چاہئے، دیکھا گیا ہے کہ بزرگوں کی اکثریت اس احساس کو معاشرتی طور پر مفید سمجھتی ہے، بلکہ فرد کے اندرونی رویوں کیلئے منظّم تصوّر کرتی ہے، جبکہ نوجوان محققین اسے ایک مسخ شدہ ذہن کی علامت گردانتے ہیں۔
خود تنقیدی کا جذبہ عام طور پر کسی غلط کام کے کرنے، یا کرنے کی خواہش کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، جس سے انسان خود کو قصور وار سمجھنا شروع کر دیتا ہے، لیکن یہ فرق ہمیشہ مدنظر رہنا چاہیے کہ قصور وار ہونا اور خود کو قصور وار سمجھنا، دو مختلف حالتیں ہیں، انسان کے کسی فعل کو قصور تب ہی کہاجا سکتا ہے گر اس فعل کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے فرد جانتا تھا کہ اس کا یہ عمل کسی دوسرے یا خود اس کیلئے نقصان دہ واقع ہوسکتا ہے،
لوگوں کی ایک بڑی تعداد بہت سے معاملات میں خود کو قصور وار ، مجرم یا گناہ گار گرداننے پر مصّر ہے، حالانکہ ان سے کوئی ایسا فعل واقعتاً سرزد نہیں ہوا ہوتا، ان کا یہ رویہ اس “اندرونی آواز” کا مرہونِ منت ہے جو کسی بھی ناکامی یا برائی میں انہیں موردِ الزام ٹھہراتی ہے، یہ “اندرونی آواز” ضروری نہیں کہ آوازِ حق یا آوازِ ضمیر ہو، یہ فرد کا دھوکہ بھی ہوسکتا ہے، کہ وہ آواز جسے وہ ضمیر سمجھ رہا ہے، درحقیقت اس کی نفسیات میں پلنے والا ایک مصنوعی اور ظالم دروغہ ہے جس کی پرورش فرد کے بچپن میں اس پر مسلّط کئے گئے غلط تصورات، غلط ایمانیات اور غلط رسومات کے نتیجے میں ہوئی.
خودتنقیدی درحقیقت ایک غیر فعال اور تباہ کن جذباتی ردّعمل ہے جس کے نتیجے میں انسان خود کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے خود کو سزا دینے پہ تُل جاتا ہے، یہ اپنے خلاف بطور دشمن وار کرنا ہے، اس “اندرونی قاضی” کے زیرِ اثر ، جو فرد کو مجرم قرار دیتے ہوئے غرّاتا ہے کہ “یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا”، لوگ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ تو ایسے کسی فعل کے خواہشمند نہ تھے کہ جس سے کسی کو نقصان پہنچے، بلکہ گاہے یہ بھی نہیں جانچ پاتے کہ نقصان تو کسی کا ہوا ہی نہیں۔ انسان اس خود تنقیدی کا شکار زیادہ تر ان خیالات سے ہوتا ہے کہ اس سے “یہ کام نہ ہو سکا، یا وہ کام نہ ہو سکا”، وہ یہ نہیں سوچتا کہ کیا وہ اِس یا اُس کام کی تکمیل کا اہل بھی تھا ؟، اور اگر واقعی کہیں غلطی ہوئی، حقیقتاً قصور سرزد ہوا، تب بھی یہ احساس تباہی کے علاوہ کچھ نہیں دے پاتا۔
ضروری ہے کہ اس تباہ کن احساس کو ، ضمیر اور احساسِ ذمہ داری سے الگ سمجھا جائے، اگرچہ یہ احساسات مختلف انتہائیں واقع ہوئی ہیں مگر بہت سے لوگ ان میں فرق کرنے سے قاصر ہیں ، ان احساسات کو ایک سمجھنا ہی سب سے بڑی اور پہلی غلطی ہے۔
ضمیر نیک و بد میں تمیز کرنے والی حِس کا نام ہے جو ضبطِ نفس اور بنیادی اخلاقیات کے نفاذ میں مددگار کا کردار ادا کرتا ہے، ضمیر ہی ایسے افعال کی ممانعت کا درس دیتا ہے، جو انسان کی اندرونی اقدار اور شناختِ خودی کے خلاف ہوں۔
اسی طرح احساسِ ذمہ داری کو، اپنے اور دوسروں کی دیکھ بھال، یا خیر خواہی، کی ضرورت کا مخلص اور رضاکارانہ اعتراف قرار دیا جا سکتا ہے، ذمہ داری کا احساس اپنے فرائض کو نبھانے کی کوشش ہے ۔
ضمیر اور احساسِ ذمہ داری کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اگر ضمیر روشن و زندہ ہے تو ذمہ داری بھی شدت کے ساتھ موجود ہوگی، مردہ ضمیر کی کوکھ احساسِ ذمہ داری سے بانجھ ہے۔ ان دو کے زنگ آلود ہونے کی صورت میں رجوع و توبہ کی تلقین کی گئی ہے۔
خود تنقیدی کا مریض خود کو ہر برائی اور ناکامی کا موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور خود سے یوں مخاطب ہوتا ہے، “میں ہی برائی کی جڑ ہوں، مجھے سزا ملنی چاہیئے، میرے لئے کسی معافی کی گنجائش نہیں”، جب انسان اپنے قصور وار ہونے پر یقین لے آتا ہے، تب نفسیاتی طور پر وہ اس قابل نہیں رہتا کہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے سکے، چہ جائیکہ انہیں سلجھانے کی سعی کرے، اپنے ذہن کو خود ساختہ الزامات کی بارش سے سیراب کرتے ہوئے، “اگر میں یوں نہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا، اور اگر یہ ہو جاتا تو یوں ہو جاتا وغیرہ”، انسان اپنے شرمسار ماضی میں پھنس، بلکہ دھنس کے رہ جاتا ہے، جبکہ احساسِ ذمہ داری اگر غالب ہو تو انسان مستقبل کو دیکھتا اور بہتر منصوبہ بندی کر پاتا ہے، احساسِ خود تنقیدی، احساسِ ذمہ داری کی نسبت دھندلا ، تباہ کن و غیر حقیقی ہے، یہ احساس انسان سے اس کا اعتماد و حوصلہ چھین لیتا ہے، اور اس خلا کو بد اعتمادی، خوف و ناامیدی سے پر کیا جا تا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کا بچپن ہی ایسے احساسات کی پرورش کا زمانۂ خاص و اوّل ہے، اور اس کی آبیاری میں سب سے اہم کردار والدین کا ہے، نفسیات سے نابلد والدین ، اپنے بچے کے کسی فعل پر ،تنقید، اور بچے کی ،ذات پر حملے، کے فرق کو نہیں سمجھ پاتے، اور اپنے غلط رویے کی وجہ سے بچوں کو زندگی بھر کیلئے نفسیاتی اپاہج بنا ڈالتے ہیں، اس کو ایک مثال سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے، فرض کیجیے اگر بچے نے روٹی کے ٹکڑے کو اٹھا کے زمین پر پھینک دیا، اور اس کے والدین اسے، “تم جاہل ہو، تم بے وقوف ہو” جیسے القابات سے نواریں گے تو یہ بچے کی ذات پر گھناؤنا حملہ ہے اور یہیں سے اس احساس کی بنیاد ڈلنا شروع ہو جاتی ہے، لیکن اگر بچے کی اس حرکت پر اس کے والدین اسے یوں سمجھائیں کہ ” یہ رزق ہے، اس کو اس طرح پھینکنا اچھی بات نہیں”، تو بچہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کے اسی مخصوص فعل پہ تنقید کی جا رہی ہے، نہ کہ اس کی ذات پر حملہ کیا جا رہا ہے، یہ مقامِ فکر ہے کہ ہم بچوں کی پرورش میں ان چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتوں کو نظرانداز کر ڈالتے ہیں۔
اس سے اگلا قدم مزید بھیانک ہے، بچے پر جبراً ایسی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے، جس کا وہ اہل نہیں ہوتا، مثلاً اس کی تعلیم اور کیریئر کو لے کر اس سے بڑی بڑی امیدیں باندھ لی جاتی ہیں، یہ سمجھے بغیر کہ بچے کی دلچسپی کس مضمون یا کس شعبے سے ہے، والدین اسے اپنی مرضی سے ایک سمت میں دھکیلے جاتے ہیں اور روزمرہ بنیادوں پر یاد دہانی کو فرضِ عین سمجھا جاتا ہے کہ تمھاری تعلیم، کیریئر اور خوشی کیلئے ہم رُوکھی سُوکھی پہ گزارہ کر رہے ہیں، اور جب یہ مظلوم بچہ کسی مقام پہ ناکامی کا منہ دیکھتا ہے تو والدہ کی بیماری، بہنوں کی شادی کا نہ ہونا، گھر میں غربت کا ذمہ دار اسی کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ تمام محنت و کمائی اسی نالائق پر لگ گئی ، جو کہ کسی کام نہ آئی، ساتھ میں زخموں پر آئیوڈین والا نمک چھڑکتے ہوئے، رائج طنز و کنایہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ فلاں کا بیٹا، اور فلاں کا پوتا، جنہیں ہم پرلے درجے کا بےوقوف سمحھتے تھے، تم سے تو وہ بھی بہتر کارکردگی دکھا پائے ہیں۔۔۔۔
اس سے اگلا مرحلہ، زندگی کے مختلف مراحل میں خود کو بے یارومددگار محسوس کرنے کا ہے، اگر اقارب و رشتہ داروں میں کوئی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے، یا کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے اور ایسی صورت میں انسان خواہش کے باوجود کوئی مدد نہیں کر پایا تو یہاں ایک احساسِ لاچارگی اسے لپیٹ لیتا ہے، اس کیفیت سے نبرد آزما ہونے کے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ ان حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے یہ سمجھ لیا جائے کہ نہ صرف میں لاچار ہوں، بلکہ کوئی دوسرا بھی اس وقت کسی قسم کی مدد کے قابل نہیں، یہ راستہ نفسیاتی طور پر مشکل ہے کیونکہ اس کیلئے مضبوط اعصاب شرطِ لازم ہے، دوسرا راستہ آسان ہے کہ فرد اندرونی احتجاج کرتے ہوئے سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ میں کیوں ایسے حالات کو سدھار نہ سکا، میں ہی قصور وار ہوں، میں کسی کام کا نہیں وغیرہ وغیرہ، اس حالت میں ایک اندرونی تسلّی کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ اگرچہ میں عملی طور پر کچھ نہ کر سکا مگر پشیمان تو ہوں، ماتم و سینہ کوبی کا مآخذ یہی نفسیات ہے۔
آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر جائزہ لیجئے، آپ کو ہر تیسرا شخص اس نفسیاتی الجھن میں مبتلا نظر آئے گا، جو اپنے والدین، اساتذہ اور معاشرے کے ہاتھوں اس مقام تک پہنچا جہاں وہ اپنی ذات کو ناکامی و برائی کا گڑھ مانتا ہے، ایسے افراد گاہے انتہائی ذہین یا کسی فن میں ماہر ہو سکتے ہیں،اور ہوتے ہیں، مگر ان کی ذہانت یا فن سے یہ معاشرہ اپنے کئے کرائے کہ وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا، اجمتاعی طور پر یہ نفسیات قوموں اور گروہوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، خاکسار کا مشاہدہ ہے کہ ایشیائی اقوام میں، عربوں اور پختونوں میں یہ مرض ، یا نفسیات بہت کم دکھائی دیتی ہے، جبکہ فارس و ہند کے باشندوں میں یہ کثرت سے موجود ہے، اسی طرح راقم الحروف کا گمان ہے کہ صوفیاء، درویش و فقراء کی اکثریت کے اس مخصوص ڈگر کے منتخب کرنے میں اہم ترین کردار، یا کم ازکم ابتدائی کردار اسی نفسیات کا ہے ، (اس نکتے پر بحث کا سامان موجود ہے اور دروازے کھلے ہیں)،
زندگی کے ایک مرحلے میں یہ کیفیت مستقل شکل اختیار کر لیتی ہے، جو کہ یقینا اذیت ناک اور انسان کی ذہنی، روحانی و جسمانی ترقی میں رکاوٹ ہے، اس سے کیسے نجات پائی جائے؟
پرہیز علاج سے بہتر ہے، والے محاورے کےمطابق ہر شخص کو انفرادی طور پر ، دورانِ پرورش بچوں کے ساتھ اپنے رویوں کا جائزہ لینا چاہیے ، ان کی ذات پر حملہ نہ کیا جائے، ان سے متعلق کسی بھی فیصلے سے پہلے ان سے مشورہ کیا جائے، بچوں کو کبھی دوسروں سے موازنے کی اذیت سے دوچار نہ کیا جائے، ایسی صورت میں احساسِ کمتری جنم لیتا ہے، یہی احساس گاہے انتقامی جذبے میں بھی بدل سکتا ہے، ان پر اپنی قربانیوں کے احسانات نہ تھوپے جائیں، اساتذہ و دوسرے ذمہ دار بزرگ افراد نوجوانوں کو مسائل و مشکلات سے نمٹنے اور انہیں جھیلنے کے عملی و حقیقی راستے دکھائیں، اس کیفیت پہ قابو پانے کیلئے یہ اجتماعی کوشش ناگزیر ہے۔
آخری نکتہ، اگر کوئی بالغ شخص کسی بھی وجوہات کی بنیاد پر اس کیفیت، یا بیماری، میں مبتلا ہے، تو اس کا کیا علاج ہے؟ یہ ایک طویل بحث ہے، اور ماہرِ نفسیات اس کی تفصیلات بہتر بتا سکتے ہیں۔
اس کیلئے ایک طویل سائیکو تھراپی کی ضرورت ہے، فرد کو یہ باور کرایا جائے کہ جہاں جہاں وہ لاچار تھا، وہاں اس کا کوئی قصور یا جرم نہیں، اگر اس کا بچپن ایک پیچیدہ ماحول میں گزرا تو اسے یقین دلانے کی کوشش کی جائے کہ اس کے والدین یا اساتذہ نے شعوراً منفی طرزِ عمل نہ اپنایا تھا، بلکہ وہ اپنی ناسمجھی سے اس کے مرتکب ہوئے، اس سے بزرگوں کو معاف کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہو پائے گا،
مریض کو بتلایا، بلکہ جتلایا جائے کہ انسان اپنی حدود میں مجبور بھی ہے، ہر دوسرے شخص پر آفت کی ذمہ داری وہ اپنے سر لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا،
مریض کو چاہیے کہ اپنے حلقۂ یاراں کو ازسرِ نو مرتب کرے، ایسے افراد جو ہر معاملے میں ناقد کا کردار ادا کرتے ہیں، ان سے کنارہ کشی اختیار کی جائے، اور حوصلہ افزاء طبیعت کے حامل لوگوں سے روابط رکھنے کی کوشش کی جائے۔
ایک کاغذ پر مریض وہ تمام حالات قلم بند کرے، جن میں وہ خود کو مجرم گردانتا ہے، اس کاغذ کو جلا کر اس کی راکھ ہوا میں بکھیر دی جائے، یہ عمل نفسیاتی آسودگی کا باعث بنتا ہے،
یقینا یقینِ کامل اور مثبت طرزِ زندگی اس کیفیت سے چھٹکارا پانے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔
اگر طبی علاج کی ضرورت ہو تو کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورہ پر ذہنی دباؤ سے چھٹکار ے کی ادویات کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply