ٹیلی کام انجینئرکی مفلوک الحالی اور حکومتی کردار (حصہ دوم)

اب وینڈر کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے جودراصل ٹیلی کام سیکٹر کا کرتا دھرتا ہے۔ ارکسن نوکیا سیمنز ، ہواوئے ، الکیٹل اور زیڈ ٹی وغیرہ کا شمار وینڈر کمپنیز میں ہوتا ہے۔ جس دور میں ایشیاء اور با لخصوص پاکستان میں ارکسن کا طوطی بولتا تھا اسوقت یقیناً ٹیلی کام سے وابستہ افرارد اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا کی مخلوق تصور کرتے تھے۔ اعلیٰ سروس اور ملازمین کے بنیادی حقوق کا جس طرح خیال رکھا جاتا تھا آپکی خواہشات اور امنگیں برسوں بلکہ مہینوں میں پوری ہوتی نظرآتی تھیں۔ گورے جتنے بھی برے ہوئے لیکن انکی پالیسیاں انسان کو انسانیت کا احساس دلاتی ہیں آج ہم سب امریکہ اور یورپی ممالک کو برا بھلا کہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سپر پاور کوئی اور طاقت ہو اور سب کی نظر کم و بیش چائنا کی طرف ہے۔ چائنیزقوم بہت محنتی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن جس دن چائنا سپر پاور بنا تو اخلاقی اقدار ختم ہو جائیں گی، انسان اور روبوٹ میں تفریق بھی ختم ہوجائےگا اور خاکم بدہن پوری دنیا کا مذہب بھی لادینیت ہوگا۔
چائنا کا کلچر یہ ہے کہ 18 گھنٹے کام کریں باقی وقت میں عیاشی کریں اور سوتے رہیں نہ کوئی فیملی کا تصور ناں ہی کوئی مذہب ناں رسومات ناں ہی کوئی خدا کا تصور۔
بقول شاعر
کھا ؤ کٹے دے کباب پیو گھڑے دی شراپ
جدوں ہوئے گا حساب ، اسین ویکھ لواں گے۔
خیر بات وینڈر کی ہو رہی تھی وہ ہمارا موضوع نہیں ہے کسی اور تحریر میں اس پر سیر حاصل گفتگو کی کوشش کریں گے۔ جس قوم میں 2،2 مہینے نہانے کا تصور ہی نہ ہو اس پر کالم لکھنے کے لئے بھی کم از کم ایک ہفتہ بغیر نہائے کچھ لکھنا ہوگا تاکہ احساسات الفاظ کا حقیقی روپ دھار سکیں۔چائنا کمپنیز نے گوروں کو ایشیا سے چلتا کیا ،صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس سستی بلکہ مفت مشینیری اور وہ پیشہ وارانہ مہارتیں تھیں، جس کی وجہ سے آپریٹر کو وہ سبز باغ دکھا سکیں۔ اس میں وہ 70 فیصد کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان ایشیائی غلام ملکوں میں انہوں نے بھی 1800 کے ادوار کے گوروں کی پالیسی اپنائ،ی کچھ کو نوازا اور خوب نوازا اور جو نوازے گئے وہ بہت سے غلاموں کی کھیپ سستے داموں انکو سپلائی کرنے پر جت گئے۔ یہ صرف پاکستان کا ہی نہیں اکثر غریب ممالک کا المیہ ہے کہ تجھےدوسروں کی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ اپنی جیب میں کچھ آرہا ہے تو دوسرے ملازمین کے ساتھ نا انصافی دیکھنے کی ہمیں کیا ضرورت۔ جب ہماری خواہشات پوری ہو رہی ہیں تو دوسروں کی خواہشات روند نے میں کیا مضائقہ۔
یہ نہیں سمجھئے گا کہ کوئی لبرل ہی ایسے کام کر رہا ہو گا۔ آپ کو لمبی لمبی داڑھی ، بڑے بڑے پیٹوں والے ، ہاتھ میں تسبیحات پکڑے اور زبان پر خاموش یا چائنا یا چائنا کا ورد کرتے ہوئے حضرات بھی ملیں گے۔ جن کو یہ بھی احساس نہیں کہ اصل اسلام صرف زبان پر اللہ اللہ کا نام نہیں بلکہ ہر غلط اور غیر منطقی بات پر ڈٹ جانے کا نام ہے۔ اسلام سلامتی ہے اپنے پیٹ کی نہیں دوسروں کے پیٹ پر نظر رکھ کر جینے کا نام ہے۔ نا انصافی پر خاموش رہنے کا نام اسلام نہیں آپکی کم عقلی ہے۔ان چائنا کمپنیز کی اجارہ داری کی دوسری وجہ ان ایشائی ممالک میں حکومتی خواہش کا عمل دخل بھی ہے۔ ابھرتی ہوئی نئی سپر پاور کے ساتھ سب روابط بھی رکھنا چاہتے ہیں اورہر سیکٹر میں بزنس بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کمپنیز نے چائنا سے وابستگی کا بخوبی فائدہ اٹھایا اور متعلقہ فیلڈز میں اپنی اجارہ داری قائم کی۔
وینڈرکمپنیز نے بھی تھرڈ پارٹی کے ذریعہ ملازمین ہائر کئے ہوئے ہیں۔ 90 فیصد ملازمین آؤٹ سورس ہوتے ہیں۔ 10 فیصد ملازمین کو خوب نوازا جاتا ہے جس سے وہ 10 فیصد افراد کسی فرعون کی طرح ان 90 فیصد ملازمین کو پیس کر رکھ دیتے ہیں۔ دوسروں کو لتاڑ کر اپنے نفس کو رام کرنے کے لئے جائز اور نا جائز کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔یہ ٹیلی کام چائنا کمپنیز ایک طرف تو ٹیکس سے بچنے کے لئے آؤٹ سورس سٹاف رکھتی ہیں اور ان ملازمین کی نا تو کوئی میڈیکل پالیسی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی انشورنس پالیسی۔ یورپیین کمپنیز کے ملازمین کے بارے میں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا ہوا سوا لاکھ کا ل،یکن یہ محاورہ یہاں صادق نہیں ہوتا کیونکہ اگر خدا نخواستہ کوئی ملازم کسی حادثہ کی نذر ہو جائے یا ڈیوٹی کے دوران جان سے گزر جائے تو لواحقین اپنے خرچہ پر میت کے لئے ایمبولینس کا بندوبست کریں گے یا کمپنی کے کولیگ ہی چندہ کر کے گھر تک پہنچانے کا بندوبست کریں گے۔ کمپنی کی طرف سے ایسا کوئی الاؤنس وارثین کو نہیں دیا جائے گا جس سے انکا گزر بسر ہو سکے۔
انصاف کیجئے جن والدین نے اتنی محنت سے پڑھا لکھا کے، اپنے زیور فروخت کر کے اس قوم کو ایک پروفیشنل ڈگری ہولڈر دیا اور اچانک موت واقع ہونے پر نا تو اس کمپنی نے اس کی کوئی شنوائی کی ، نا کسی ادارے نے مالی معاونت کی ،نا ہی حکومت نے ایسی پالیسی دی تو وہ والدین کس عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹکھٹائیں؟
حکومتی اداروں میں اکثر سٹاف کم تعلیم یافتہ ، کام چور اور سفارشی ہوتا ہے لیکن ریٹائر منٹ کے بعد انکو ایک خطیر رقم پینشن کی مد میں دی جاتی ہے جس سے وہ اپنے بچوں کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں اور کوئی کاروبار شروع کرکے اپنی مالی مشکلات بھی کم کر سکتے ہیں۔
پرائیوٹ فرم اور اداروں میں ہائی کوالیفائیڈ پروفیشنلز ، ٹیکنیکل اور دیگر سٹاف اپنا خون پسینہ ایک کرکے شب وروز محنت کرتا ہے لیکن ڈھلتی عمر کے ساتھ پینشن توکجا ن،وکری کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ کیا حکومتی یا پرائیویٹ ادارے اپنے ملازمین کے مستقبل کے لئے بھی کوئی ایسی پالیسی مرتب کرسکیں گے کہ ٹیلی کام کے ملازمین سکھ کا سانس لے سکیں ؟(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ٹیلی کام انجینئرکی مفلوک الحالی اور حکومتی کردار (حصہ دوم)

  1. تسی سعودی پاک ٹاور آنا

    توانوں چائنیز دے حوالے کراں گا..ی سعودی پاک ٹاور آنا

    توانوں چائنیز دے حوالے کراں گا..

Leave a Reply to محمد کمیل اسدی Cancel reply